NAP‘ عملی صورت حال
قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلجنس ایجنسیوں میں موثر اور متحرک میکنزم کا فقدان نظر آرہا ہے
کراچی:
سابقہ کالم میں ہم نے NAPکے متعلق تعارفی تفصیل بیان کی تھی 'جس میں سانحہ APS پشاور اور اس کے بعد نیشنل ایکشن پلان کی تیاری کا ذکر کیا تھا۔
آج 12مئی 2022ہے اورسانحہ آرمی پبلک اسکول اورNAP کو 8سال ہونے والے ہیں'آج ہم بڑی محنت اور تمام فریقین کی رضامندی سے تیار کردہ نیشنل ایکشن پلان(NAP) پر عمل درآمد کا جائزہ لیتے ہیں'تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ بھی روایتی سرخ فیتے کا شکار ہو گئی ہے'اس پر سول حکومت کی طرف سے کوئی سرگرمی نظر نہیں آتی' فوج کے سوا کوئی سیاسی لیڈر متحرک نظر نہیں آتا'سابقہ حکومت نے خود تسلیم کیا تھا کہ NAPکے 20نکات میں سے 16نکات پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا'عام تاثر یہ ہے کہ نیشنل ایکشن پروگرام پر عمل درآمد کے لیے ہمارے ادارے مطلوبہ صلاحیت ، وسائل اور شاید خواہش بھی نہیں رکھتے۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلجنس ایجنسیوں میں موثر اور متحرک میکنزم کا فقدان نظر آرہا ہے ' خفیہ معلومات کے تبادلے کا طریقہ کار تاحال مطلوبہ معیار تک نہیں پہنچا'دہشت گردی کے خلاف سب سے اہم ادارہ ''نیشنل کائونٹر ٹیررازم اتھارٹی(NACTA)نیکٹا'' ابھی تک فعال نہیں ہو سکا اور نہ ہی اس کے آثار نظر آرہے ہیں 'سیاسی حکومتیں دہشت گردی کے خلاف مشکل فیصلے کرنے سے کتراتی رہی ہیں' سابق وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک ٹی وی پروگرام میں اعتراف کیا تھا کہ ''نیشنل ایکشن پلان پر جس سرعت کے ساتھ عمل درآمد ہونا چاہیے تھا 'وہ نہیں ہو رہا 'حکومت کو چاہیے کہ اس کی ذمے داری قبول کرے''؟
امید تھی کہ جب افغانستان میں طالبان کی حکومت آئے گی تو پاکستان میں امن قائم ہو جائے گا 'لیکن اب تو سرحد پار سے دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے 'شاید افغان طالبان اپنے پاکستانی طالبان دوستوں کو روکنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔اب صورت حال یہ ہے کہ 24دسمبر2014سے 12مئی 2022 تک کا وقت ضایع ہوگیا' برٹینڈرسل کا مشہور قول ہے کہ ''جنگ میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کون صحیح تھابلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ جیتا کون؟''اب ذرانیشنل ایکشن پلان کے 20نکات کی تفصیل۔
(1)۔دہشت گردی کے جرائم میں سزا یافتہ مجرمان کی سزائے موت پر عمل درآمد'اس سلسلے میں سابقہ اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر کی جیلوں میں 8000سے زیادہ قیدی سزائے موت کے منتظر تھے'جن میں 1000سے کم افراد کو سزا دی گئی ہے 'اس حساب سے سزائے موت پر عمل درآمد کی رفتار انتہائی سست تھی اورہے 'حالانکہ پچھلے 8 سال میں دہشت گردی سے متعلق مقدمات میں گرفتار 14,115 افراد کو رہا کیا گیا ہے اور 10,387ملزموں کو ضمانت دی گئی ہے ۔پھانسی پانے والوں میں بھی زیادہ تعداد دہشت گردوں کے بجائے عام مجرموں کی ہے 'آج بھی حالات میں کوئی زیادہ فرق نہیں آیا۔
(2)۔خصوصی فوجی عدالتوں کا قیام۔ان عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا 'کچھ افراد کو سزائے موت بھی سنائی گئی اور آرمی چیف نے ان پر دستخط بھی کردیے ' سپریم کورٹ نے بھی بعض پابندیوں کے ساتھ ان عدالتوں کے قیام کو آئینی قرار دے دیا'ان عدالتوں کا قیام دو سال کے لیے تھا' ان عدالتوں کی کارروائی بھی سست رہی ہے اور کافی عرصہ قبل یہ عدالتیں ختم کردی گئی ہیں۔چونکہ پاکستان کا نظام فوجداری دہشت گردوں کو سزا دینے میں بری طرح ناکام ہوچکا ہے 'ہمارا نظام انصاف تو عام رہزن کو بھی سزا نہیں دے سکتا 'پولیس اور نظام انصاف فرسودہ سوچ ، طریقے پر استوار ہے ، رشوت ،سستی ، کاہلی ، کام چوری کی عادت اور جدید علوم اور مہارت سے عاری سرکاری افسر اور اہلکار دہشت گردوں اور ان کے ماسٹر مائنڈز کے شیطانی منصوبوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔
(3) ۔نیشنل ایکشن پلان کا مقصد ان گروہوں اور تنظیموں کو ختم کرنا تھا' جو انتہا پسندی' دہشت گردی اور فرقہ واریت میں ملوث ہیں لیکن یہ ایسی تنظمیں آج بھی چندے اکٹھے کررہی ہیں۔شاید ہمارے حکمرانوں کا دل ابھی جہاد سے بھرا نہیں ہے 'اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس نکتے پر آگے جانے کے بجائے ہم پیچھے جا رہے ہیںاور پراگرس نہیں ہے' شاید حکمران مشرقی ہمسائے کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
(4)نیکٹا(NACTA)۔نیشنل کائونٹر ٹیررزم اتھارٹی کو مضبوط اور فعال بنایا جائے گا' NAPکا یہ بہت اہم ادارہ ہے ۔ پنجاب کے سابق آئی جی مشتاق سکھیراایک پرائیویٹ چینل پر کہہ رہے تھے 'کہ دہشت گردی کے خلاف نیکٹا کا ادارہ فعال نہ ہوسکا' جو قابل افسوس ہے'ہم پولیس والے اپنے وسائل اور صلاحیت کے مطابق دہشت گردی اور عام جرائم کے خلاف بر سر پیکار ہیں'یہ حقیقت ہے کہ بلند بانگ دعوے ا یک طرف'لیکن دہشت گردی کے خلاف سب سے اہم اداروںبشمول نیکٹا اور پولیس کو حکومت کی طرف سے سرد مہری کا سامنا ہے ،مختلف انٹلی جنس اور سیکیورٹی اداروں کے درمیان ہم آہنگی اور تعاون کا شدید فقدان ہے 'سب سے اہم ادارہ یعنی نیکٹا'جو چندسال قبل بنایا گیا تھا 'اور دسمبر 2014میں بنائے گئے NAPکے بعد اس کو فعال ہونا تھا 'اس کو حکومت مسلسل نظر اندا زکر رہی ہے۔ اس محکمے کے اعلیٰ اختیاراتی بورڈ کا ایک بھی اجلاس نہ ہو سکا۔ نیکٹا کے بورڈ آف گورنر کے چیئرمین وزیراعظم ہیں اوراس کے ممبرا ن میں تما م صوبوں بشمول گلگت بلتستان کے وزراء اعلیٰ 'وزیر اعظم آزادکشمیر ' داخلہ' قانون ' دفاع اورخزانہ کے مرکزی وزراء' آئی ایس آئی 'آئی بی 'ملٹری انٹیلی جنس اورایف آئی اے کے ڈائرکٹر جنرل 'صوبائی چیف سیکریٹری اور تمام صوبوں کے آئی جی پی' سیکریٹری داخلہ اور دوسرے اہم عہدیداران شامل ہیں۔ذرایع کے مطابق بورڈکے اجلاس کی صدارت کے لیے کئی دفعہ سابقہ وزیراعظم کے دفتر کو درخواست دی گئی ہے'لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا 'بلکہ یہ ایک عجیب حقیقت ہے کہ مارچ 2013میں اپنے قیام کے بعد سے آج تک اس اتھارٹی کے بورڈآف گورنر ز کاکبھی بھی کوئی باقاعدہ اجلاس منعقد نہیں ہوا۔مرکزی حکومت کے پاس قومی سلامتی کے اداروںکی کل تعداد 33ہے 'جن میں افرادی قوت کی تعداد 6لاکھ کے قریب ہے' یہ تعداد پاکستان کی فوج کی تعداد سے بھی زیادہ ہے 'اس کے باوجود ایساکوئی منظم اور مربوط سسٹم موجود نہیں کہ ایک مکمل اور بہترین لائحہ عمل کے ذریعے ان سے صحیح کام لیا جاسکے'آخر ہمارا سسٹم کب ٹھیک ہوگا۔