نیوٹرل
ہم نے جب کہا ن م راشد کی زبان میں ’’محبت کرنا امیروں کی بازی ہے حسن کوزہ گر‘‘ تو خان صاحب آگ بگولا ہوگئے
الفاظ سے خوب کھیلے خان صاحب۔ پہلے سونامی کو عام لوگوں تک پہنچایا اور اس کی معانی بدل دیے۔
سونامی ایک ایسا لفظ ہے جسے سنتے ہی سمندری طوفان کی خطرناک شکل سامنے آتی ہے۔ مگر خان صاحب نے اسے اپنے لیے استعمال کیا کہ وہ ایک ایسی تبدیلی لائیں گے ، جو سونامی سے کم نہ ہوگی، لیکن ہوا یوں جو سونامی آئی، وہ ایسی معاشی تباہی جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔
مشرف کو ڈالر ساٹھ روپے پر ملا، اسی تک کر گئے جاتے جاتے۔ زرداری کو ڈالر اسی روپے ملا 90تک کرگئے جاتے جاتے۔ نواز شریف کو ڈالر 90روپے میں ملا 110 روپے تک کرگئے جاتے جاتے، خان صاحب اسے دو سو کے قریب چھوڑ گئے ۔ خان صاحب کی چھبیس ہزار ارب قرضوں کا بوجھ ملا، پچاس ہزار ارب روپے پر چھوڑ گئے۔ مہنگائی جو ہوئی سو الگ، غربت جو پھیلی ، اقربا پروی ، بے روزگاری ، شرح نمو میں سست رفتاری، کرپشن کا بازار الگ۔
ہم نے جب کہا ن م راشد کی زبان میں ''محبت کرنا امیروں کی بازی ہے حسن کوزہ گر'' تو خان صاحب آگ بگولا ہوگئے۔ یہ جو جنرل ایوب کی کتاب کا عنوان تھا beggars can't be choosers وہ کیا تھا ، یہی تو تھا۔ ہم جسے اپنی قانونی زبان میں Bargain Power کہتے ہیں۔ وہ اس طرح بھی ہے کہ ہم جب انٹرنیشنل بانڈ مارکیٹ میں اپنا بانڈ فلوٹ کرتے ہیں تو ہمیں مہنگے داموں قرضہ ملتا ہے، وہ کیوں؟ وہ اس لیے کہ ہم بدحال معیشت کے ٹائم بم کے اوپر بیٹھے ہوئے ہیں ، وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ہم ایٹمی طاقت بھی ہیں۔ خان صاحب ہمیں اور بری حالت میں چھوڑ گئے۔
خان صاحب کی پوری سیاست ''تبدیلی''کے ایک لفظ کے پیچھے چلتے چلتے اس کو عکس بنایا''کرپشن سے پاک معاشرہ۔' ' تبدیلی تو چلی گئی سونامی کے پیچھے، مگر کرپشن کو پکڑتے پکڑتے وہ آگئے ''میں این آر او نہیں دونگا'' اور جو کام کرنا تھا وہ رہ گیا۔ نہ وزیر اعظم ہائوس کو یونیورسٹی کرسکے، گورنر ہائوسز عام لوگوں کے لیے کھولے۔ پورے ساڑھے تین سال اس میں گذر گئے ''میں کرپٹ لوگوں کو نہیں چھوڑوں گا۔''
ہمارا آمریتی بیانیہ کا محور تھا کہ سیاستدان کرپٹ ہیں۔ کل کسی عدالت میں یہ باز گشت ایک معزز جج کی زبان سے سننے میں آئی ''جب کرپشن ثابت نہیں کرسکتے تو پھر سیاستدانوں کو کرپٹ کیوں کہتے ہو'' کوووڈ کی طرح کرپشن بھی یونیورسل ہے یہ صرف سیاستدانوں تک محدود نہیں۔ پتہ ،پتہ بوٹا، بوٹا مطلب یہ کہ ہمارے تمام طبقات میں یہ کرپشن موجودہ ہے اور پھر خان صاحب کے زمانے میں صرف توشہ خانہ کو اپنی جاگیر سمجھ کر نہیں لوٹا گیا، ابھی تو بہت کچھ آپ کے سامنے آئے گا۔ یہاں تک کہ گوگی اپنا دفاع خود نہیں کررہی ، مگر خان صاحب اس کے دفاع کے لیے آئے ہوئے ہیں ،یہ ہمیں ہیرکی داستان پر بلھے شاہ یاد آگئے''رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی۔ــ''
اب جب سب کچھ بگڑ گیا سیاستدانوں کو کرپٹ کہتے کہتے تو یہ بھی عجیب مقام ہے کہ دوبارہ انھیں سیاستدانوں کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ کیا بہتر ہوتا یہ کام بھی ان مخصوص اینکروں پر چھوڑ دیتے جو کرپشن کی رٹ لگائے ہوئے تھے اور پھر کیوں نہ ہو جب ہم نے تاریخ میں اتنا بگاڑ پیدا کیا ہم نے کبھی لوگوں کے مانے ہوئے ہیروز کو ہیروز نہیں مانا۔ وہ بلھا، وہ باہو، وہ خوشحال خان خٹک ، وہ فرید، وہ بھٹائی، سچل۔ وہ اجرک، وہ ٹوپی، دھوتی، پگ۔ اس کے برعکس جنھوں نے مقامی لوگوں پر حملہ آوری کی ان کو ہم نے ہیرو مانا۔ آج کل خان صاحب نے تہیہ کیا ہوا ہے کہ وہ سندھ کے لوگوں کو زرداری سے آزاد کرائیں گے۔ شاید اس کے پیچھے بھی وہ سونامی والی تشریح ہے۔
نئے پاکستان والی جس کو دیکھ کے لوگ کہتے ہیں'' خدا کے واسطے ہمیں پرانا پاکستان ہی دے دو۔'' شاید خان صاحب ''آزادی'' کے پیچھے ''بربادی'' کی بات کررہے ہیں۔ خان صاحب سمجھتے ہیں کہ چوکوں اور چھکوں سے میچ جیتا جاسکتا ہے۔ خان صاحب تو ہمیشہ آخری اوور کھیلنے آتے تھے کبھی چھکا لگا کبھی نہ لگا، ٹیم کا جیتنا اس پر منحصر نہیں کرتا اور یہ کوئی ٹی ٹونٹی کا میچ نہیں ہے۔ یہاں میانداد اور ماسٹر حنیف کی طرح ٹک ٹک کرکے کھیلنا ہوتا ہے۔ سندھ کے لوگوں نے کان پکڑ لیے اور کہا کہ خان کی آزادی سے زرداری کی دی ہوئی بربادی بہتر ہے۔ نئے پاکستان سے پرانا پاکستان بہتر ہے۔
آج کل خان صاحب کو کسی کے نیوٹرل ہونے کا دکھ ہے۔ وہ نیوٹرل کی وہی تشریح کرتے ہیں جو کل سونامی کی کرتے تھے ، جو کرپشن کی تھی یا سندھ کو زرداری سے آزاد کرانے کی تھی یا جو گوگی کو بچانے کی تھی۔ لگتا ہے اب نیوٹرل کی نئی تشریح آکسفورڈ کی ڈکشنری والوں کو کرنی پڑ جائے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ حق اور سچ ہیں، وہ تو ولی ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی بھی آئینی طریقہ ہی نہیں جس سے وہ اب اقتدار میں آسکتے ہوں۔
سوشل میڈیا پر ان کا راج ہے، پروپیگنڈا کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ جب اب ان کے پاس بندوق نہیں اور دوسرا یہ کہ وہ آزاد عدلیہ و الیکشن کمیشن سے بڑے خائف ہیں۔ مہینہ ہونے کو ہے وہ ابھی تک نیوٹرل صحافیوں کو انٹرویو بھی نہیں دیتے، نہ آزاد خیال صحافیوں سے ملنا گوارا بھی کرتے ہیں۔ ان کو لائٹنگ کا بڑا شوق ہے۔ اداکاروں کی طرح فوٹو کھچوا کے، روز اپنے مخصوص لوگوں کو انٹرویو دے کہ وہ بہت خوش ہیں کہ وہ صحیح جارہے ہیں۔
خان صاحب کے لیے عرض ہے کہ اننگ کا آغاز چوکوں اور چھکوں سے نہیں کیا جاتا۔ پہلے آہستہ اور پھر تیز کھیلا جاتا ہے کہ کہیں صفر پر آئوٹ نہ ہوجائے کوئی۔ اب اٹھتے ہی خان صاحب نے چوکے اور چھکے جو مارنے شروع کردیے ہیں اس وقت جب امپائر نیوٹرل ہے، نہ آر ٹی ایس سسٹم فیل ہونے کا خطرہ ہے، نہ اوور سیز کو ووٹ دینے کے بہانے دھاندلی ہوسکتی ہے۔ الیکشن کمیشن بھی آزاد ہے عدلیہ بھی نیوٹرل ہے۔
خان صاحب کا بیانیہ مخصوص لوگوں سے آگے کسی اور پر کچھ اثر نہیں کرتا ۔اپنے لوگوں کو خان صاحب جو بھی سنانا چاہیں وہ اس کو سچ ہی سمجھیں گے کیونکہ وہ نیوٹرل نہیں ہیں ۔ پارٹی کا ورکر نیوٹرل نہیں ہوتا لیکن ضروری نہیں کہ ہر ووٹر ورکر ہو اور نیوٹرل نہ ہو۔ آپ سمجھتے ہیں کہ آپ لوگوں کو جو بولیں گے، وہ مانیں گے۔ کراچی کے علاوہ باقی ماندہ سندھ میں تو آپ جلسے کرنے کی شاید جرات ہی نہ کریںاور نا ہی بلوچستان میں۔
اب تو خان صاحب کو ہر بال پر چھکا اور چوکا چاہیے، جو ایک دو، رن لے کے آہستہ آہستہ اسکور بڑھانے کا موقع تھا وہ تو گیااور دوسرے اینڈ پر میانداد نہیں کھڑا کیونکہ وہ نیوٹرل تھا اور کہتا تھا ''عمران بھائی رن لے لو'' مگر عمران چھکے لگانے کے چکر میں جلدی آئوٹ ہوجاتا تھا۔
خان صاحب کے لیے یہ عرض ہے کہ یہ نیا پاکستان ہے نہ پرانا پاکستان ہے۔ یہ ہے اور اس کی تاریخ بھی ہے ، اس کو اپنے تاریخ کی طرف لوٹنا ہوگا۔ اسے جناح کی طرف لوٹنا ہوگا ۔ جتنا مذہب کو خان صاحب نے استعمال کیا کسی اور نے نہیں، یہ بھی تو کورٹ کے نیوٹرل ہونے کی دلیل ہے کہ مدینہ میں جو واقعہ ہوا، اس کی ایف آئی آر کو غلط رنگ دے کے اس تناظر میں نہ کاٹا جائے ورنہ رانا ثناء اللہ نے کام تمام کردینا تھا۔ وہ تو شکر کریں خان صاحب کہ یہ کورٹ نیوٹرل تھی جب آپ نے آئین توڑا تو وہ آئین کے دفاع کے لیے کھڑے ہو گئے اور آپ کے لیے بھی کھڑے ہوگئے۔ خان صاحب جو باتیں کرتے ہیں میر جعفر وغیرہ کی، کوئی سندھی یا بلوچ کرتا تو اس وقت تک اس کے خلاف بہت کچھ ہوجاتا، آپ کے وقت تو سب نیوٹرل ہیں۔
آپ کا کیا آپ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں، آپ چاہیں تو جاپان اور جرمنی کی سرحدیں بھی ملا لیں، شہباز کو شہریار کہہ دیں یا روحانیت کو رحونیت۔ رات کو دن اور دن کو رات کردیں۔
ہاں، جو جفا بھی آپ نے کی قاعدے سے کی
ہاں، ہم ہی کاربند اصول وفا نہ تھے