زحمت غیر مترقبہ
خود پارٹی کے اندر سے اب آوازیں اُٹھ رہی ہیں کہ جتنی جلدی ہوسکے اس زحمت غیر مترقبہ سے جان چھڑائی جائے
9اپریل 2022 کی رات کوایوان اقتدار میںظہور پذیر ہونے والی تبدیلی ایک طرف عمران خان کے لیے سڑکوں پر دوبارہ آنے کا سنہری موقعہ فراہم کرگئی تو دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے لیے بہت سے مشکلات پیداکرگئی۔
سمجھ نہیں آرہاتھاکہ مسلم لیگ اِسے اپنی جیت سمجھے یا پھر ایک زحمت غیر مترقبہ۔تین چار برسوں میں ملک کی معیشت کا جو حال کردیاگیاتھااُس کے بعد عام تاثر یہی تھا کہ اب کوئی بھی اس معیشت کو سدھار نہیں سکے گا۔خود خان حکومت نے تین چاربار وزیرخزانہ تبدیل کردیے تھے مگر کسی سے بھی حالات سدھر نہیں پارہے تھے۔
اقتدار کی ریت کو بند مٹھی سے پھسلتادیکھ کر سابق حکومت نے اپنے دور کے آخری ایام میں پٹرول اوربجلی کے نرخوں میں کمی کرکے آنے والی حکومت کے لیے مزید مشکلات کاسامان پیداکردیا۔تمام ماہر معاشیات اس بات پر حیران وپریشان تھے کہ جب ایک طرف قومی خزانہ یہ اضافی بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں ہے اوردوسری طرف آئی ایم ایف نے امداد اور قرضہ دینے کے لیے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے کی شرط عائد کررکھی ہے ایسے میں یہ ریلیف دینا کن زمروں میں گردانا جاسکتاہے۔
جو حکومت اپنے اقتدار کے پچھلے ساڑھے تین سالوں میں بڑھتی مہنگائی پر یہی عذر اپنایاکرتی تھی کہ ہم مجبور ہیں عالمی مہنگائی کا سامنا دنیا کے ہر ملک کو ہے، اچانک کیوں اتنی فراخدل اور مہربان ہوگئی۔
پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں پٹرول عوام کو قیمت خرید سے بھی کم قیمت اور ارزاں فروخت کیاجارہاہے،اگر کوئی ٹیکس اورلیوی نہ بھی لگایاجائے توبھی پٹرول کی قیمت خرید 150روپے سے زیادہ بنتی ہے۔ملکی کرنسی کی ڈی ویلیوشن نے مزید اضافی بوجھ ڈال دیاہے،ڈالر ہے کہ قابو میں نہیں آرہا، جس کی وجہ سے درآمد کی جانے والی ہرچیز مہنگی ہوچکی ہے۔
موجودہ حکومت اس مخمصہ کاشکار ہے کہ عوام پربوجھ ڈالے بغیر مالی معاملات کیسے ٹھیک کیے جائیں۔ محترم زرداری صاحب کی سیاست کے ویسے تو ہم سبھی لوگ معترف اورقدردان ہیں کہ وہ ایک تیر سے دوشکار کرنے کے زبردست ماہر ہیں۔
اس بار بھی انھوں نے نہ صرف عمران خان کو حکومت سے بیدخل کرڈالا اور ساتھ ہی ساتھ شہباز شریف کو بھی ایک ایسی مشکل میں پھنساڈالا کہ وہ ایک زیرک اورقابل ایڈمنسٹریٹر ہوتے ہوئے بھی گرداب میں پھنسے ہوئے اس ملک کو مشکلات سے باہر نہیں نکال سکتے ہیں۔نہ چاہتے ہوئے بھی اقتدار اُن کی جھولی میں ڈال دیاگیا ہے اوروہ راتوں کی نیند اوردن کا سکون برباد کرکے بھی اس ملک کی قسمت بدل نہیں سکتے ۔
ایک طرف روس اوریوکرین کی لڑائی نے ساری دنیاکی معیشت کابیڑہ غرق کردیاہے تو دوسری طرف سابق حکومت کی ناقص معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ملکی حالات انتہائی دگرگوں ہوچکے ہیں۔
ایسے میںجو بھی سخت فیصلے کریگااس پرعوام کاغیظ وغضب ضرور نازل ہوگا۔ اس لیے وہ اب اکیلے یہ بوجھ اُٹھانا نہیں چاہتے ہیں ۔ اُن کی اوّلین کوشش تو یہی ہے کہ کسی طرح اس بجٹ کے بعد وہ اقتدار سے کنارہ کش ہوجائیں اورکوئی عارضی سیٹ اپ اگلے الیکشن تک کے لیے قائم ہوجائے، مگر آصف علی زرداری ایسی کسی تجویز کے حامی دکھائی نہیں دیتے ہیں ، وہ الیکشن سے پہلے الیکٹورل ریفارمز کروانا چاہتے ہیں لیکن ہمیں یہ ریفارمزہوتے اس لیے بھی دکھائی نہیں دیتیں کہ عمران خان کسی کے ساتھ ایک میز پر بیٹھ کربات چیت کرنے کو ہرگز تیار نہیں ہیں،وہ اس وقت صرف لڑائی اورمحاذآرائی کے موڈ میں ہیں۔
اس لیے اُن سے یہ توقع کرناکہ وہ کسی ایسی تجویزپرراضی ہوجائیں گے اپنے آپ کو دھوکا دینے کے مترادف ہوگا،وہ اگلے الیکشن میں بھی اپنے علاوہ کسی اورکوکامیاب ہوتا قبول نہیں کریں گے، لہٰذا نئے الیکشن سے بھی سیاسی کشمکش کے ختم ہونے کے امکانات بہت ہی کم اورمعدوم دکھائی دیتے ہیں۔
موجودہ حکومت ایسے چنگل میں پھنس چکی ہے جن سے باہر نکلنابہت مشکل دکھائی دیتاہے۔ یہی حال پنجاب حکومت کا ہے ۔ایک مہینہ ہونے کو آرہاہے اور ابھی تک صوبائی کابینہ کی بھی تشکیل نہیں ہو سکی۔
ایک طرف صدر مملکت حکومت کی ہرسمری کودبائے بیٹھے ہیںتودوسری جانب اسپیکر پنجاب اسمبلی بھی آئین ودستور کو بازیچہ اطفال بنائے ہوئے ہیں۔سرکاری امور نمٹانے کے لیے جتنی مشکلات وفاقی اور پنجاب کی صوبائی حکومت کو درپیش ہیں وہ آج سے پہلے شاید ہی کسی اورجمہوری حکمراں کو درپیش ہوئی ہوں۔دوسری طرف عوام بجلی کی لوڈ شیڈنگ اوربڑھتی مہنگائی کے ہاتھوں سخت پریشاں اورنالاں ہیں۔
خود پارٹی کے اندر سے اب آوازیں اُٹھ رہی ہیں کہ جتنی جلدی ہوسکے اس زحمت غیر مترقبہ سے جان چھڑائی جائے۔تاخیر کی صورت میں سابق حکومت کا ساراگند اورملبہ مسلم لیگ (ن) کواُٹھانا پڑے گااور بچی کچی عزت اور ساکھ سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا۔