عوام کو مزید جوتے پڑیں گے
ہم ہر گزرتے دن کے ساتھ معاشی طور پر پاکستان کو ڈیفالٹ کی طرف لے کر جا رہے ہیں
خدانخواستہ ملک ڈیفالٹ کر جائے تو کوئی ملک سودا نہیں کرتا، کوئی ملک آپ کو ادھار پر مال فروخت نہیں کرتا، کوئی کمپنی آپ سے لین دین نہیں کرتی، حتیٰ کہ آپ کے دوست ممالک بھی آپ سے کسی قسم کا معاہدہ نہیں کرتے، ملٹی نیشنل کمپنیاں ملک سے بھاگ جاتی ہیں، دنیا بھر میں آپ کی رسوائی ہوتی ہے۔
حالات کو بہتر کرنے کے لیے آپ کو سخت فیصلے کرنا پڑتے ہیں اور ان سخت فیصلوں کے بعد ایک بار پھر ملک مزید نیچے جاتا ہے اور اگر فیصلے صحیح ہوں تو ملک کچھ عرصے بعد اپنے پاؤں پر کھڑا ہوجاتا ہے ورنہ خاکم بدہن روانڈا، صومالیہ 'یمن یا شام بن جاتا ہے۔اگر ہم وطن عزیز کی بات کریں تو ماہرین معاشیات کے نزدیک ہم ڈیفالٹ یا دیوالیہ ہونے سے چند ہفتے دور ہیں، یعنی اگر کسی نے ان حالات میں ملک کی باگ ڈور نہ سنبھالی، ملکی استحکام کے لیے کام نہ کیا تو معاشی حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔
ہم ہر گزرتے دن کے ساتھ معاشی طور پر پاکستان کو ڈیفالٹ کی طرف لے کر جا رہے ہیں، جس کے نتائج بہت ہی خطرناک ہوں گے۔اب پٹرول کی قیمتوں کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو بھئی سب کو علم ہے کہ پٹرول کی قیمت بڑھانا پڑیں گی، آج نہیں توکل پٹرول کی قیمت اوپر کرنی پڑے گی، مصنوعی طریقے سے پٹرول کی قیمت روک کر اُلٹا ملک کے لیے نقصان کا باعث بن رہی ہے۔
کیوں کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ڈالر اوپر جائے اور پٹرول کی قیمت نہ بڑھے، اس پر عمران خان کو بھی شور مچانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اور اس پر اپوزیشن کو بھی شور مچانے کی ضرورت نہیں تھی کہ جب عمران خان کی حکومت پٹرول کی قیمتیں بڑھا رہی تھی، تب طوفان بدتمیزی ہر طرف جاری تھا کہ نہ جانے ملک پر کونسی قیامت ٹوٹنے والی ہے۔
حالانکہ سمجھداری اسی میں ہے کہ ذاتی مفادات کی لڑائی چھوڑ کر ملکی مفاد کے لیے لڑائی لڑنی چاہیے، چند سال قبل تک اٹلی میں بھی ایسی ہی صورتحال تھی، مگر کمال حیرت سے تمام سیاسی پارٹیوں نے معیشت کو ٹھیک کرنے کے لیے ملکی مفاد کی خاطر سر جوڑا اور وہ معاشی بحران سے نکلنے میں ناصرف کامیاب ہوئے بلکہ آج اٹلی کی معاشی گروتھ 5.8جی ڈی پی ہے۔
لیکن اس کے برعکس یہاں سبھی سیاسی پارٹیاں صرف اپنا مفاد دیکھتی ہیں، انھیں ملک کا مفاد ہر گز عزیز نہیں ہوتا۔ کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ اگر پاکستان ڈیفالٹ کر جاتا ہے تو جو نتائج ہوں گے اُس سے نہ صرف مہنگائی بہت زیادہ ہو جائے گی بلکہ پاکستان کی صورتحال سری لنکا سے بھی بدتر ہو جائے گی، ہم تباہ و برباد ہو جائیں گے، ہماری معیشت کو بدترین صورتحال کا سامنا ہو گا، ملک کو خدانخواستہ خانہ جنگی کا ممکنہ سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
تو ایسے میں بھگتنا کس کو پڑے گا؟ ظاہر ہے عوام کو ہی، اور پھر اس کے بعد اگر موجودہ حکومت بھی نہ چل سکی اور پھر نگران حکومت بنانا پڑتی ہے اور پھر نگران حکومت کے دور میں انتہا کی مہنگائی کر دی جاتی ہے تو بھگتنا کس کو پڑے گا عوام کو! جوتے کس کو کھانا پڑیں گے عوام کو !الغرض اس کے لیے شہباز شریف کو وزیر اعظم بنایا لیکن فیصلے یا تو لندن میں نواز شریف کے ہاتھ میں ہیں یا پھر آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن کے مرہون منت۔اور اب جب کہ پوری کابینہ لندن میں نوازشریف سے ملاقات کے لیے بیٹھی ہے تو سوال یہ ہے کہ کیا کوئی ''اعلامیہ'' جاری کیا گیا ہے۔
چلیں یہ مان لیا کہ موجودہ وزیر اعظم کو وزیر اعظم اس لیے بنایا کہ وہ پرفارم کرنے والا سیاستدان ہے لیکن اُن کے ہاتھ اور پاؤں باندھ کر رکھ دیے گئے اور پھر توقع یہ کی جا رہی ہے کہ وہ فیصلہ بھی نہ کرے اور ملک کو اس مشکل سے بھی نکال دے۔ اب یہ بات مت کریں کہ عمران خان نے کیا ٹھیک کیا یا غلط۔ چلیں مان لیا کہ عمران خان کی حکومت نا تجربہ کار تھی لیکن آپ نے اور آپ کے اتحادیوں نے تو اس ملک پر 35سال تک حکومت کی ہے۔
آپ کے پاس تو ایسے ایسے گر ہونے چاہییں کہ ملک فوری طور پر لائن پر آجائے اور خدانخواستہ ڈیفالٹ نہ کرے۔ لہٰذااگر حکومت لی ہے تو فیصلہ کریں۔ اب ذمے داری اتحادیوں کی بالعموم اور ن لیگ کی بالخصوص ہے۔ اگر پاکستان ڈیفالٹ کرتا ہے تواس سے موجودہ حکومت بری الذمہ نہیں ہو سکتی۔ ایک ایک دن قیمتی ہے۔
لہٰذاعوام کو قربانی کا بکرا بننے کے بجائے یہ سوچنا ہوگا کہ انھیں لیڈر کس کو چننا ہے؟ اس حوالے سے زمانہ قبل از مسیح کے فارس کا ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیں کہ ایک چھوٹا سا لڑکا بھاگتا ہوا ایرانی مفکر ''شیوانا'' کے پاس آیا اور کہنے لگاکہ میری ماں نے فیصلہ کیاہے کہ وہ معبد کے کاہن کے کہنے پر عظیم بْت کے قدموں پر میری چھوٹی معصوم سی بہن کو قربان کر دے،آپ مہربانی کرکے اُس کی جان بچا دیں۔
شیوانا لڑکے کے ساتھ فوراً معبد میں پہنچا اور کیا دیکھتا ہے کہ عورت نے بچی کے ہاتھ پاؤں رسیوں سے جکڑ لیے ہیںاور چھری ہاتھ میں پکڑے آنکھیں بند کیے کچھ پڑھ رہی ہے۔ بہت سے لوگ اُس عورت کے گرد جمع تھے اور بت خانے کا کاہن بڑے فخر سے بت کے قریب ایک بڑے پتّھر پر بیٹھا یہ سب دیکھ رہا تھا۔ شیوانا جب عورت کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ اُسے اپنی بیٹی سے بے پناہ محبت ہے اور وہ بار بار اُس کو گلے لگا کر والہانہ چوم رہی ہے مگر اِس کے باوجود معبد کدے کے بت کی خوشنودی کے لیے اس کی قربانی بھی دینا چاہتی ہے۔
شیوانا نے اُس سے پوچھا کہ وہ کیوں اپنی بیٹی کو قربان کرنا چاہ رہی ہے توعورت نے جواب دیاکہ کاہن نے مجھے ہدایت کی ہے کہ میں معبد کے بت کی خوشنودی کے لیے اپنی عزیز ترین ہستی کو قربان کر دوں تا کہ میری زندگی کی مشکلات ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائیں۔شیوانا نے مسکرا کر کہا:مگر یہ بچّی تمہاری عزیز ترین ہستی تھوڑی ہے؟ اِسے تو تم نے ہلاک کرنے کا ارادہ کیاہے۔
تمہارے لیے جو ہستی سب سے زیادہ عزیز ہے وہ تو پتّھر پر بیٹھا یہ کاہن ہے کہ جس کے کہنے پر تم ایک پھول سی بچّی کی جان لینے پر تل گئی ہو،یہ بت احمق نہیں ہے وہ تمہاری عزیز ترین ہستی کی قربانی چاہتا ہے تم نے اگر کاہن کے بجائے غلطی سے اپنی بیٹی قربان کر دی تو یہ نہ ہو کہ بت تم سے مزید خفاہو جائے اور تمہاری زندگی کو جہنّم بنا دے۔ عورت نے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد بچّی کے ہاتھ پاؤں کھول دیے اور چھری ہاتھ میں لے کر کاہن کی طرف دوڑی مگر وہ پہلے ہی وہاں سے بھاگ چکا تھا۔
کہتے ہیں کہ اُس دن کے بعد سے وہ کاہن اُس علاقے میں پھر کبھی نظر نہ آیا۔دنیا میں صرف ''آگاہی'' کو فضیلت حاصل ہے اور واحد گناہ ''جہالت'' ہے۔ جس دن ہم اپنے ''کاہنوں'' کو پہچان گئے، ہمارے مسائل حل ہوجائیں گے اور یقین مانیں کبھی جوتے بھی نہیں کھانے پڑیں گے!