مولوی باقر اردو صحافت کا پہلا شہید
اردو صحافت کے سفر میں ان کے اخبار کا چھوڑا ہوا نقش ِ پا آج بھی چمک رہا ہے
چند دنوں پہلے یہ افسوس ناک خبر سامنے آئی کہ ممتاز فلسطینی صحافی کو اس وقت گولی مار کر قتل کردیا گیا جب وہ مقبوضہ مغربی کنارے پر اسرائیلی حملے کی رپورٹنگ کر رہی تھیں، شیریں ابوعاقلہ ایک معروف رپورٹر تھیں۔
انھوں نے جس جیکٹ کو پہن رکھا تھا اس پر واضح انداز میں ''پریس'' لکھا ہوا تھا۔ صحافیوں کو ہراساں اور قتل کرنے کا سلسلہ آج سے نہیں بلکہ کئی دہائیوںسے جاری ہے۔ حکمرانوں اور حکومتوں کا اصل مسئلہ اختلاف رائے کو کسی بھی قیمت پر برداشت نہ کرنا ہے۔
اس حوالے سے مجھے انگریزوں کا دور یاد آگیا جب جنگ آزادی کی حمایت کرنے والے صحافیوں کو بدترین سزائیں دی گئی تھیں۔ اس موقع پر برصغیر کے پہلے شہید صحافت اور اردو اخبارات کے خلاف انگریز سامراج کی کارروائیوں کی یادیں تازہ ہوگئیں۔
آزادی کی جدوجہد میں ایک اخبار ایسا بھی تھا جس کے ایڈیٹر نے یہ شرط مان لی کہ اس کی تنخواہ جو کی ایک روٹی اور ایک پیالہ پانی ہوگی، جو اسے جیل میں ادا کیا جائے گا۔ ہفتہ وار سوراجیہ کے نام سے یہ اخبار بابو شانتی نارائن بھٹنا گر نے 1907 میں الہ آباد سے جاری کیا تھا۔
یکے بعد دیگرے اس اخبار کے 9 ایڈیٹرز کو بغاوت کے جرم میں گرفتاری اور کالے پانی کی سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس اخبار کا ہرایڈیٹر قید وبند کی مصیبت کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا تھا۔ اس اخبار کے آٹھویں ایڈیٹر لدھا رام کو الہ آباد کے سیشن جج رستم جی نے دس سال قید کی سزا سنائی۔ اردو صحافیوں نے اس ملک کی آزادی کے لیے جو قربانیاں دیں یہ اس کی ایک چھوٹی سی جھلک ہے۔
اردو صحافت کو یہ فخر بھی حاصل ہے کہ پہلے صحافی جنھوں نے اس ملک کی آزادی کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا، وہ دہلی اردو اخبار کے ایڈیٹر مولوی محمد باقر تھے جن کو انگریزوں نے 16 دسمبر 1857 کو پہلی جنگ آزادی کے دوران باغیوں کی حمایت کرنے پر دہلی میں توپ سے اڑا دیا تھا۔
پیام آزادی کے ایڈیٹر مرزا بیدار بخت کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، جن کے جسم پر سور کی چربی مل کر پھانسی دی گئی۔ اگرچہ اردو صحافت کا آغاز ''جام جہاں نما'' سے ہوا جو 1822 میں کلکتہ سے پنڈت ہری ہردت نے کیا تھا لیکن اردو حلقوں میں یہ بحث بھی شروع ہوگئی ہے کہ اردو کا پہلا اخبار شیر میسور ٹیپو سلطان نے 1794 میں جاری کیا تھا۔
اس کے بعد دوسرا خیال یہ بھی ہے کہ پہلا اردو اخبار 1810 میں کلکتہ سے نکلا تھا اور اسے شروع کرنے کاکام اکرام علی کے سر ہے۔ کئی برسوں کی چھان بین کے بعد اب یہ ثابت ہوا ہے کہ اردو کا پہلا اخبار ''جام جہاں نما'' تھا جس کی اشاعت 27 مارچ 1822 کو کلکتہ سے ہوئی تھی۔ اس اعتبار سے ہم اردو ادب کے دوسو سال مکمل ہونے پر جشن منانے کے موڈ میں ہیں۔ ''جام جہاں نما'' کے بعد آٹھ سال تک کسی اردو اخبار کو اجراء کا موقع نہ مل سکا۔
اگرچہ اس وقت ہندوستان کے مختلف شہروں میں انگریزی، بنگالی اور فارسی زبانوں میں اخبارات کی ایک بہت مضبوط روایت قائم ہوچکی تھی، لیکن شانتی رنجن بھٹاچاریہ نے متھرا موہن مترا کی رہنمائی میں شمس شایع کیا۔
1823 سے 1827 تک اخبارات کے بارے میں دلچسپ تفصیلات ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ متھرا موہن مترا نے پانچ سال تک اردو زبان میں شمس الاخبار (اجراء 1823) نکالنے کے بعد اسے 1827 میں بند کردیا اور ایک بیان دیا جس کے انگریزی الفاظ 21 مئی 1827 کے سرکاری گزٹ میں شایع ہوئے۔
انھوں نے اس بیان میں کہا کہ'' اخبار نکال کر انھیں کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ دن رات کی انتھک محنت کے صلے میں انھیں سوائے پریشانیوں کے کچھ نہیں ملا۔ ہندوستان میں اخبار نکالنا نہ صرف پیسے کا ضیاع ہے بلکہ تباہی بھی ہے کیونکہ یہاں کے لوگ اخبار میں دلچسپی نہیں لیتے۔'' اپنے بیان کے آخر میں انھوں نے ایک فارسی شعر درج کیا۔ جس کا مطلب ہے کہ چاندنی رات میں چراغ رات بھر جلتا رہا لیکن کسی نے اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔
1837 میں مولانا محمد حسین آزاد کے والد مولوی محمد باقر نے ''دہلی اردو اخبار'' شایع کیا جو اس وقت کا مکمل ہفت روزہ تھا۔ اس اخبار سے ہمیں اس دور کے جوش اور ولولے کا بھی پتہ چلتا ہے اور غالب وذوق کی معاصرانہ چشمک کی کہانیاں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں۔ اس اخبار کے ایڈیٹر مولوی محمد باقر کو بہادر شاہ ظفر کا قرب حاصل تھا اور انھوں نے بعد کے دنوں میں اپنے اخبار کا نام بھی اسی حوالے سے ''اخبار الظفر'' رکھا تھا۔ دہلی اردو اخبار کے بعد جس اخبار کا سب سے زیادہ تذکرہ کیا جاتا ہے۔
اس کا نام سید الاخبار ہے جسے 1841 میں سرسید احمد خان کے چھوٹے بھائی سید محمد خان نے دہلی سے نکالا تھا۔ بدقسمتی سے اس کے تمام شمارے نایاب ہیں اور اس کے بارے میں کوئی تفصیلی معلومات نہیں ہیں۔ ''دہلی اردو اخبار'' ذوق کی طرف مائل تھا۔ جب کہ ''سید الاخبار'' کی ہمدردیاں مرزا غالب کے ساتھ تھیں۔ مرزا غالب کی پہلی کتاب ''دیوانِ ریختہ'' بھی اسی اخبار کے پریس سے شایع ہوئی۔
یہی وجہ ہے کہ مرزا غالب نے میجر جان جیک کے نام اپنے خط میں سید الاخبار پریس کا ذکر بڑے شائستہ لہجے میں کیا ہے۔ روزنامہ کوہ نور جو لاہور سے 14 جنوری 1850 کو شایع ہوا، غیر منقسم پنجاب کا پہلا اخبار تھا جسے ہرسکھ رائے نے نکالا۔ یہ اخبار اعلانیہ انگریزوں کی سرپرستی میں نکلتا تھا اور مجاہدین آزادی کے خلاف تھا، لیکن کوہ نور کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس اخبار نے صحافت کا پہلا ادارہ شمالی ہند میں قائم کیا جس نے غیر منقسم ہندوستان میں عظیم صحافیوں کو جنم دیا۔
سہیل انجم صاحب کا کہنا ہے کہ سال 2022 اردو زبان کے حوالے سے ایک اہم سال ہے۔ اس سال اردو صحافت اپنی عمر کے دو سوسال مکمل کررہی ہے۔ 27 مارچ 1822 کو کلکتہ سے پہلا اردو اخبار ''جام جہاں نما'' جاری ہوا۔ اس لیے مارچ کا مہینہ اردو ادب کے دوسو سال کی پیدائش کا مہینہ ہے۔ اہل اردو اور بالخصوص اردو صحافیوں کو چاہیے کہ اردو صحافت کی دو صدیاں رواں سال منائیں۔ اگرچہ جام جہاں نما اردو کا پہلا اخبار رہا ہے لیکن اس سلسلے میں ایک تنازع بھی ہے۔ کچھ کہتے ہیں ٹیپو سلطان کا فوجی اخبار اردو کا پہلا اخبار تھا، لیکن اس کی کوئی فائل کہیں سے نہیں ملی۔
انھوں نے اس کتاب میں دعویٰ کیا ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ مولوی اکرام علی کا اخبار اردو کا پہلا اخبار تھا ۔ انھوں نے اس خیال کو خوش نصیبی سے تعبیر کیا ہے۔ اس طرح 1822 تک اردو میں صحافت کی ایسی کوئی روایت نہیں تھی جس پر عمل کیا جاسکے۔ جام جہاں نما اردو ادب اور بنیاد کا ہم پلہ ہے۔ اس سے قبل اردو صحافت کے پاس ان کے آبا و اجداد کا شاندار علمی ورثہ اور فارسی کی صحافت تھی، لیکن ان کی صحافت کی کوئی روایت یا نظیر نہیں ملتی۔ ایسے میں جام جہاں نما کی پیشہ وارانہ مہارت غیر معمولی تھی۔
جام جہاں نما کے پندرہ سال بعد ادیب مولانا محمد حسین آزاد کے والد مولوی محمد باقر نے 1837 میں دہلی سے ساڑھے چودہ سو کلومیٹر کے فاصلے سے ''دہلی اخبار'' جاری کیا۔ یہ دہلی کا پہلا اردو اخبار تھا۔ بعد میں اس کا نام بدل کر دہلی اردو اخبار رکھ دیا گیا۔ اگرچہ مولوی محمد باقر کے اخبار کو جام جہاں نما سے زیادہ روشنی یا رہنمائی حاصل نہیں ہوئی لیکن یہ یقینی طور پر صحافت کی بلندیوں تک پہنچنے والی پہلی آواز ثابت ہوئی۔ مولوی باقر نے جس انداز میں اور جرات و ہمت کی مدد سے اس کہانی کو آگے بڑھایا، وہ آب زر کی تحریر کے لائق ہے۔
اردو صحافت کے سفر میں ان کے اخبار کا چھوڑا ہوا نقش ِ پا آج بھی چمک رہا ہے اور اردو صحافیوں کی بعد کی نسلوں کے لیے شمع راہ ہے۔ مولوی محمد باقر کی زندگی اور ان کی قربانی کے بہت سے شواہد موجود ہیں۔ ان کا سب سے بڑا امتیاز ان کی زندگی کا وہ آخری اور ولولہ انگیز واقعہ ہے جس کی وجہ سے وہ صحافیوں میں سرفہرست ہیں۔ یعنی وہ پہلے شہید صحافت ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس وقت تک کسی صحافی کو اس کے باغیانہ نظریے کی وجہ سے سزائے موت نہیں دی گئی تھی۔