ویلڈن ۔حمزہ شہباز
چینی کی مہنگائی بھی عمران حکومت کے جانے میں اہم جزو بنی ہے
ISLAMABAD:
وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے کام شروع کردیاہے۔ سب سے پہلے چینی کی قیمت کو کنٹرول کرنے کے لیے اقدمات کیے ہیں۔
انھوں نے شریف فیملی کی ملکیت شوگر ملز سے عوام کو چینی ستر روپے فی کلو گرام فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ انھوں نے شوگر مل ایسوسی ایشن پر بھی واضح کیا ہے کہ وہ چینی کی قیمت کم کرنے کے اقدامات میں حکومت پنجاب کا ساتھ دے۔
چینی پاکستانی سیاست کا محور رہی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ملک میں چینی کی قیمت نے ہی عمران خان کے خلاف مہنگائی کا بیانیہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ چینی کی مہنگائی بھی عمران حکومت کے جانے میں اہم جزو بنی ہے ۔ جہانگیر ترین کے ساتھ بھی چینی کے معاملے پر ہی اختلاف ہوا۔
یوں تحریک انصاف میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہوا۔ لیکن کوشش کے باوجود عمران خان چینی کی قیمت کم کرنے میں ناکام رہے۔ چینی عمران کی ناکامی کی پہلی مثال بن گئی۔ اس لیے حمزہ شہباز کی جانب سے چینی کی قیمت کرنے کے لیے اقدامات ایک دلیرانہ فیصلہ ہے۔ ورنہ ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے بہتر سیاسی حکمت عملی تو یہی سمجھی جا رہی تھی کہ چینی کو بالکل نہ چھیڑا جائے، تا ہم حمزہ شہباز نے کام شروع ہی چینی سے کیا ہے۔
سب سے پہلے وزیر اعظم شہباز شریف نے ملک بھر میں سستا آٹا فراہم کرنے کا اعلان کیا ۔ جس کے بعد حمزہ شہباز نے بھی پنجاب میں آٹے کی قیمت مستحکم رکھنے پر کام شروع کر دیا ہے۔
گجرات میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ پنجاب میں سستا آٹا فراہم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ عوام کو سستا آٹا فراہم کرنے کی مخالفت ممکن نہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر حمزہ شہباز پنجاب کے عوام کو سستا آٹا فراہم کرنے میں کامیاب ہوگئے تو یہ بڑی سیاسی کامیابی ہوگی، کیونکہ عمران حکومت یہ کرنے میں ناکام رہی ۔
آئینی بحران کی وجہ سے پنجاب کی کابینہ تاحال حلف نہیں لے سکی ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کا حلف بھی عدالتی احکامات پر ہی ممکن ہوا۔ اس حوالے سے بھی لاہور ہائی کورٹ کو ایک نہیں تین تین فیصلے دینے پڑے۔ عدالتی جنگ ابھی بھی جاری ہے۔
عمران خان پنجاب میں آئینی انتقال اقتدار کے لیے تیار نہیں ہیں۔ گورنر کے عہدے کاجیسا استعمال اس بحران کے دوران دیکھنے میں آیا ہے، اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ گورنر کے انکارکی وجہ سے کابینہ کا حلف نہ ہو سکے۔ ایسا بھی کبھی نہیں ہوا کہ اسپیکر نے قائم مقام گورنر کا عہدہ سنبھالنے سے انکار کر دیا ہو۔ لیکن اس سب بحران کے باوجود حمزہ شہباز نے وزارت اعلیٰ پر اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے۔
ان کی وزارت اعلیٰ پر گرفت سے ان کے مخالفین بھی پریشان نظر آرہے ہیں۔ا س سارے بحران کا مقصد حمزہ شہباز کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بننے سے روکنا تھا جس میں پی ٹی آئی اور ق لیگ ناکام ہوئے ہیں۔ اس کے بعد گورنر کے ذریعے کوشش کی گئی کہ حمزہ شہباز کو کمزور وزیر اعلیٰ رکھا جائے۔ لیکن یہ کوشش بھی ناکام ہوئی ہے، کیونکہ حمزہ شہباز نے وزارت اعلیٰ پر کابینہ کے بغیر ہی گرفت بہت مضبوط کر لی ہے۔ حالانکہ اس سے قبل تحریک انصا ف کی حکومت میں وزارت اعلیٰ کی گرفت ہی سب سے بڑا مسئلہ رہا تھا۔
حمزہ شہباز نے شادیوں میں ون ڈ ش کے حوالے سے انتظامیہ کو سخت احکامات جا ری کیے ہیں۔ حالانکہ اب پنجاب میں ون ڈش پر اتنی سختی سے پابندی نہیں کی جا رہی تھی،گزشتہ حکومت نے اس پر بہت کم توجہ رہی۔ ون ڈش کا قانون مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے ہی بنایا تھا، لہٰذا ا س پر عمل درآمد کرانا ضروری تھا۔
میں سمجھتا ہوں ون ڈ ش کا قانون غریب اور متوسط طبقہ کے لیے بہت اہم ہے۔ اس پر حمزہ شہباز کی جانب سے دوبارہ سختی سے عملداری کو یقینی بنانا ایک مثبت قدم ہے۔ اس کے بعد انتظامیہ نے ون ڈش کی خلاف ورزی پر چھاپے مارے ہیں اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی ہے۔
ایک دوست نے حمزہ شہباز کا گزشتہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سے مقابلہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ میں سمجھتا ہوں حمزہ شہباز کا مقابلہ اپنے والد سے ہے۔ لوگ ان میں شہباز شریف کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بلکہ موازنہ یہ ہے کہ کیا وہ شہباز شریف سے بہتر ہیں کہ نہیں۔ اس لیے انھوں نے نہ صرف والد کے معیار کو قائم رکھنا ہے بلکہ اس کو بہتر بھی بنانا ہے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔
گزشتہ دور حکومت میں افسر شاہی کو میوزیکل چیئر بنا دیا گیا تھا۔ بار بار تبادلوں نے ایک سوالیہ نشان لگا دیا تھا۔ ہر کوئی سوال کر رہا تھا کہ آخر بار بار تبادلوں کی وجہ کیا ہے؟ لوگ اس کے لیے سابق وزیراعلیٰ کو قصور وار ٹھہراتے ہیں ۔ سب کو علم ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس اور وہاں بیٹھے افسران اس کی بنیادی وجہ تھے۔ اعظم خان کی بے وجہ مداخلت نے پنجاب میں صورتحال کو خراب کیا ۔ جس کا آج تحریک انصاف کو نقصان بھی ہو رہا ہے۔
لیکن حیرانی کی بات ہے کہ حمزہ شہباز نے گزشتہ حکومت کی افسر شاہی کے ساتھ ہی کام کا آغاز کیا ہے۔ گزشتہ حکومت کے آئی جی اور چیف سیکریٹری ہی کام کر رہے ہیں۔ ورنہ ہر حکومت کی پہلی کوشش ہوتی ہے کہ پہلے اپنی مرضی کے چیف سیکریٹری اور آئی جی لگائے جائیں پھر ہی حکومت چلائی جا سکتی ہے۔
لیکن حمزہ شہباز نے عمران خان کے لگائے ہوئے آئی جی اور چیف سیکریٹری کے ساتھ ہی پنجاب چلا کر ایک نئی روایت قائم کی ہے۔ اور تبادلوں کے فلسفے کو بھی غلط ثابت کر دیا ہے۔ حمزہ شہباز بخوبی جانتے ہیں کہ سرکار افسران صرف نوکری کے ہوتے ہیں، بس ان سے کام لینے کا فن آنا چاہیے۔
حمزہ شہباز نے وزارت اعلیٰ کا آغاز اچھا کیا ہے۔ مہنگائی کو فوکس کیا ہے، افسر شاہی کو بھی دفتر سے نکل کر عوام میں جانے کا کہا ہے۔ چیف سیکریٹری کو بھی دوروں کا کہا ہے۔ وہ خود بھی اسپتالوں میں جا رہے ہیں۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ آغاز ٹھیک ہے۔ آگے آگے دیکھیں ہوتا ہے کیا۔ کیونکہ حمزہ شہباز کی کارکردگی کا اگلے انتخاب میں بہت اثر ہوگا۔ان کی کارکردگی مسلم لیگ ن کے لیے عام انتخابات آسان بھی کر سکتی ہے اور مشکل بھی کر سکتی ہے۔