زندہ لمحے اور فریب ہستی
بیشتر کہانیاں کسی ایک منفرد انداز کی حامل شخصیت کے نفسیاتی مسائل کے گرد گھومتی ہیں
کراچی:
''زندہ لمحے'' برادرم زاہد شمسی کی خود نوشت سوانح عمری ہے جب کہ ''فریب ہستی'' بریگیڈیئر ریٹائرڈ حامد سعید اختر کی کہانیوں کا مجموعہ ہے دونوں کتابوں کی ایک مشترکہ خوبی یہ ہے کہ ان میں مشاہدے سے خوب خوب کام لیا گیا ہے اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں مشاہدے کے پھیلاؤ اور گہرائی پر مشتمل تحریریں ہمیشہ دلچسپ اور اپنی اپنی سی لگتی ہیں اور اگر مشاہدہ کرنے والے کی آنکھیں منظر کے ساتھ ساتھ پس منظر کو دیکھنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہوں تو قاری کے لیے صرف کتاب کا کھولنا ہی کافی ہوتا ہے کہ اس کے بعد وہ خود اس مشاہداتی منظر کا ایک حصہ بن جاتا ہے۔
سوانح عمری اور بالخصوص خود نوشت سوانح عمری کی ایک منفرد خصوصیت یہ بھی ہے کہ آپ اس کے مرکزی کردار کے ایک طرح سے ہم سفر بن جاتے ہیں اور اس پر مرتب ہونے والی کیفیات آپ کو اپنے اوپر گزرتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔
زاہد شمسی کی یہ کتاب جو طباعت، ترتیب اور جامعیت کے حوالے سے بھی غیر معمولی طورپر نظر افروز اور خوب صورت ہے ایک آسان اور رواں دواں اندازمیں لکھی ہوئی داستانِ حیات ہے جس میں مصنف نے خود پر گزرنے والے ماہ وسال اور واقعات کو بڑی تفصیل اور سادگی کے ساتھ قلم بند کر دیا ہے جس کی وجہ سے اس کی Readibility میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ زاہد شمسی چونکہ شاعر بھی ہیں اس لیئے اس کتاب میں ان کے شعر ی ذوق اور صلاحیت کے نمونے بھی قدم قدم پر دامن گیر ہوتے ہیں جس کی ایک مثال کتاب کے آغاز میں'' زندہ لمحے'' کے عنوان سے درج کیئے گئے یہ چند شعر بھی ہیں ۔
شاخ در شاخ مہکتے ہیں یہ زندہ لمحے
دل کی ٹہنی پہ چمکے ہیں یہ زندہ لمحے
میں تو چلتاہوں سدا وقت کے ہمرا ہ مگر
یادِ ماضی کو سہکتے ہیں یہ زندہ لمحے
شعلہ جاں کی تپش بن کے گل لالہ کے
سُرخ رنگوں میں دہکتے ہیں یہ زندہ لمحے
پھول نرگس کے انھیں دیکھ کے کھِل اُٹھتے ہیں
یوں خزاؤں میں مہکتے ہیں یہ زندہ لمحے
میں نہ بہکوں بھی اگر کوچۂ جاں میں زاہدؔ
دل کے آنسو یہ بہکتے ہیں یہ زندہ لمحے
اس کتاب میں درجنوں اہلِ قلم کی آرا کو بھی شامل کیا گیا ہے ا سے مسّودے کی شکل میں دیکھنے اور پڑھنے کے بعد میرا پہلا تاثر یہی تھا کہ ''کچھ عرصہ قبل میری اپنی یادداشت خاصی اچھی تھی لیکن سچی بات ہے کہ اُس وقت بھی میں اپنے بچپن کی یادوں، واقعات اور کرداروں کو ایسی وضاحت اور صراحت سے ترتیب دینے پر قدرت نہیں رکھتا تھا جس کا مظاہرہ برادرم زاہد شمسی نے اپنی اس خود نوشت ''زندہ لمحے''کے صفحات پر کیا ہے لوگوں کو اتنے پرانے واقعات اور بالخصوص بچپن کی باتیں اتنی تفصیل سے کیسے یاد رہ جاتی ہیں یہ بات مجھے ہمیشہ حیران بھی کرتی ہے اور مسحور بھی کہ کسی گزرے ہوئے وقت میں دوبارہ سانس لے سکنا اپنی جگہ پر ایک ہالۂ حیرت ہے چہ جائیکہ آپ دوسروں کو بھی اس جادوئی عمل میں شامل کرلیں۔
غالبؔ کے بقول دنیا کا ہر شخص ایک ورقِ ناخواندہ کی مثال ہوتا ہے تو ایسے میں اگر کسی ناظر کے بجائے منظر خود آپ سے مکالمہ کرے تو اس کا مزا ہی کچھ اورہوتاہے۔ خود نوشت سوانح عمری کو پڑھنا بھی کچھ ایسا ہی تجربہ ہوتاہے۔ زاہد شمسی صاحب نے بڑی آسان ، رواں دواں اور دلچسپ زبان میں اپنی داستانِ حیات قلم بند کی ہے اور مجھے یقین ہے کہ میری طرح آپ بھی اس کے مطالعہ سے خوب خوب لطف اندوز ہوں گے ا ور یہ آپ کو آخری سطر تک ساتھ رکھے گی ۔
آج کی دوسری کتاب ''فریب ہستی'' حامد سعید اختر صاحب کی کہانیوں کا مجموعہ ہے حامد سعید اختر نے گزشتہ چند برسوں میں تحقیق و تنقید ،شعر فہمی اور سنجیدہ ادبی مباحث کے حوالے سے جو شہرت حاصل کی ہے وہ بہت ہی تعریف اور ستائش کی مستحق ہے کہ اُردو فارسی اور انگریزی پر یکساں عبور کی وجہ سے اُن کی تحریروں میں جو پختگی، گہرائی اور ندرت در آئی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے لیکن جہاں تک اُن کی افسانہ نگاری کا تعلق ہے غالباً یہ اُن کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے جس میں شامل اکثر کہانیاں گزشتہ پانچ برس میں مشہور ادبی ماہنامے ''الحمرا'' میں شائع ہوئی ہیں۔ اکیسویں صدی میں لکھی جانے کے باوجود یہ کہانیاں اپنے مزاج اور انداز کے حوالے سے پچھلی صدی میں لکھے جانے والے افسانوں سے زیادہ قریب ہیں۔
بیشتر کہانیاں کسی ایک واقعے یا کردار کی دین ہیں اگرچہ عام طور پر ان کے انجام میں وہ انوکھا پن یا چونکا دینے والا عنصر کم کم دکھائی دیتا ہے لیکن کردار نگاری اور پلاٹ کے حوالے سے ہر کہانی آپ کو ساتھ لے کر چلتی ہے۔ بیشتر کہانیاں کسی ایک منفرد انداز کی حامل شخصیت کے نفسیاتی مسائل کے گرد گھومتی ہیں لیکن اپنی فطری شرافت کی وجہ سے حامد سعید اختر نفسیاتی گتھیوں کو کھولنے کے دوران ضرورت سے زیادہ تجرید کا استعمال کرتے ہیں بالخصوص اگر ان مسائل کا تعلق جنس یا جنسی معاملات سے ہوتو وہ افسانے کو کیس اسٹڈی کی شکل دے دیتے ہیں بات ''بیر بہوٹی'' کی تیز سرخ رنگوں کی جیکٹ پہننے والی ''ماہ رخ'' کی ہو یا ''شرمیلا شاطر'' کے ظہیر کی، قصہ ''ہرکولیس'' کی شمائلہ کا ہو یا ''مردم گزیدہ کی شبانہ کا''تحلیل نفسی ''پنساری'' کے تنویر کی ہو یا ''تلبیس'' والے اکرم صاحب کی ہر جگہ مصنف مرکزی کردار اور کہانی کے کلائمیکس کو ایک خاص طرح کی اخلاقیات کا پابند رکھتے ہوئے نظر آتا ہے جب کہ جدید افسانہ شائد اس کے بالکل اُلٹ چل رہا ہے۔
خواتین کی ہم جنس پرستی پر لکھی گئی کہانی ''گونگا ٹیلا'' میں اس کے مرکزی کردار ''گل گوند'' کی پیش کش میں بھی یہی کیس اسٹڈی کا رنگ غالب نظر آتا ہے مگر مجموعی طور پر یہ کہانیاں زندگی کے مختلف پہلوؤںکی عمدہ اور شاندار عکاسی کرتی نظر آتی ہیں ۔