سعودی عرب تبدیل ہورہا ہے
سعودی عرب میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لیے حکومت نے لبرل رویہ اختیار کیا
شیخ عبد الوہاب نے 1811 میں حجاز کے علاقہ میں وہابی تحریک کا آغاز کیا۔ شاہ ابن ِ سعود نے 1882 میں سعودی امارات کی بنیاد رکھی ، یوں خلافت عثمانیہ تاریخ کی کتابوں میں کھو گئی۔ شاہ سعود نے 1953ء تک حکومت کی۔
گزشتہ صدی کے وسط میں سعودی عرب میں تیل نکل آیا ، یوں ترقی کا سفر شروع ہوا۔ موجودہ حکمراں شاہ سلمان نے اپنی بیماری کے دوران اپنے صاحبزادہ شہزادہ محمد بن سلمان کو جانشین مقررکیا۔ اس صدی کے آغاز سے ہی سعودی معیشت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ، تیل کی پیداوار کم ہوگئی۔ امریکا کے سائنسدانوں نے تیل کا متبادل محلول تیار کرنے پر توجہ دینا شروع کی۔ سعودی عرب میں کوئی تحریری آئین نہیں ہے۔ بادشاہِ وقت کے احکامات روایات کا کام دیتے ہیں۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے سعودی عرب کی ترقی کے لیے بہت بنیادی اقدامات کیے۔
سعودی عرب کی آبادی 31.7 ملین افراد پر مشتمل ہے جن میں سے 11.5 ملین افراد دیگر ممالک سے سعودی عرب آئے ہیں۔ موجودہ حکومت نے تعلیم پر خاطر خواہ توجہ دی ہے۔ سعودی عرب کا تعلیمی بجٹ 53.4 بلین ڈالر ہے جو مسلمان ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔
اس وقت سعودی عرب میں خواندگی کا تناسب 99 فیصد ہے جس میں مردوں کا تناسب 96 فیصد اور خواتین کا تناسب 91.73 فیصد ہے۔ سعودی عرب کے شعبہ تعلیم کے بارے میں دستیاب اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پرائمری اسکول میں جانے والے بچوں کی تعداد 3.8 ملین، سیکنڈری اسکولوں میں زیر تعلیم طلبہ کی تعداد 1.8 ملین اور اعلیٰ تعلیم کے مختلف شعبوں میں زیر ِ تعلیم طلبہ کی تعداد 3.6 ملین بتائی گئی ہے۔
اگرچہ شہزادہ محمد سلمان سیاسی اصلاحات خاص طور پر ذرائع ابلاغ کی آزادی کے تصورکے حق میں نہیں ہیں مگر درمیانہ طبقہ کی بڑھتی ہوئی تعداد کی خواہشات کی تعمیل کے لیے اصلاحات کی ہیں۔ سعودی خواتین تعلیم حاصل کرنے اور زندگی کی دوڑ میں مردوں کے شانہ بشانہ شامل ہونے کے لیے کوشاں ہیں۔
سعودی حکومت نے پہلے تو خواتین کے تنہا گھر سے نکلنے کے حق کو تسلیم کیا اور خواتین کو تنہا گاڑیاں چلانے کی آزادی دیدی۔ سعودی حکومت نے خواتین کو بغیر محرم کے عمرہ اور حج کرنے کی بھی اجازت دیدی ، یوں خواتین کی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ختم ہوئی۔ تعلیم اور معیشت میں ہونے والی تبدیلیوں کے نتیجہ میں متوسط طبقہ کا حجم بڑھنے لگا۔
جنرل آرگنائزیشن آف سوشل انشورنس(General Organization of Social Insurance) کے تخمینہ کے مطابق سعودی عرب میں درمیانہ طبقہ کا سائزکل آبادی کا 30فیصد تک ہوگیا ہے۔ اب سعودی عرب صرف تیل برآمد نہیں کرتا بلکہ اشیائے صرف، ادویات اور دیگر مصنوعات بھی برآمد کی جاتی ہیں۔
شہزادہ محمد نے بیرونی سیاحوں کی کشش کے لیے بنیادی اقدامات کیے۔ دارالحکومت ریاض اور جدہ میں سینما اور کیسینو قائم کرنے کی اجازت دی گئی۔ بھارت کے معروف اداکاروں کے شو وہاں منعقد ہوئے۔ ان شو میں ہال کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے۔ مردوں سے زیادہ خواتین نے ان ہیروز کی پرفارمنس کو دیکھا۔ سعودی حکومت ملک میں فلمی صنعت کے قیام کے لیے کوشش کر رہی ہے۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں شائع اور نشر ہونے والے مواد سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی عرب اور بھارت کے درمیان کئی شعبوں میں تعاون کے لیے نئی راہیں کھل رہی ہیں اور اسٹرٹیجک شراکت داری کے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔
سعودی عرب میں سینما گھروں کو کھلے چار سال ہوچکے ہیں اور بالی وڈ (بمبئی کی فلمی صنعت) سے تعلق رکھنے والی بڑی شخصیات کو سعودی عرب کے دوروں کی دعوت دی جارہی ہے۔ سعودی حکومت کا منصوبہ ہے کہ یہ ملک فلم کا ایک بین الاقوامی مرکز بن جائے۔ سعودی عرب کے وزیر ثقافت شہزادہ بدر بن عبداﷲ بن فرمان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کے سماجی و اقتصادی حالات کے ویژن 2030ء کے مطابق سعودی خاندانوں کی ثقافتی اور تفریحی مقاصد پر اپنی خرچ ہونے والی آمدنی 2.9 فیصد سے بڑھا کر 6 فیصد تک لانے کا ہدف طے ہوا ہے۔
سعودی حکومت مقامی فلم انڈسٹری کی ترقی کے لیے فراخدلانہ انداز میں رقم خرچ کررہی ہے اور اس کے ساتھ نئے سینما ، کنسرٹ ہال ، کھیلوں کے میدان اور تفریحی مقامات کے قیام میں مصروف ہے۔ سعودی وزارت ثقافت نے 2020ء میں فلم کمیشن قائم کیا تھا تاکہ فلم انڈسٹری کو معیشت کا بڑا حصہ بنایا جائے۔ سعودی عرب میں وڈیو مارکیٹ میں 2015ء سے اضافہ ہورہا ہے۔ اس میں سالانہ 2.4 فیصد اضافہ ہورہا ہے۔
توقع ہے کہ 2025تک یہ بڑھ کر 318.2 ارب ڈالرز جب کہ 2030تک 410.6 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ ماہرین کا تخمینہ ہے کہ بھارت کے ساتھ فلم انڈسٹری میں تعاون کے ذریعہ دنیا بھر میں فلم کا ورلڈ کلاس سینٹر بن جائے گا۔ اس سے حاصل ہونے والی آمدنی 2030 تک سعودی عرب کی جی ڈی پی میں 6.9 ارب ڈالر کا حصہ بن جانے کی توقع ہے۔
سعودی عرب میں گزشتہ صدی کے اختتام تک قدامت پرست بادشاہت کا دور تھا مگرگلوبلائزیشن اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب کے ساتھ سعودی عرب میں سوچ کے نئے زاویے ابھرنے لگے۔ دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی مہنگائی سے سعودی معیشت بھی متاثر ہوئی۔ ماضی میں برسر اقتدار آنے والے حکمرانوں نے تعلیم ، صحت اور مواصلات کے شعبوں کے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کیا تھا۔ دنیا بھر میں تیل کی قیمتوں میں ہونے والی تبدیلیوں سے بجٹ میں خسارہ پیدا ہونے لگا تھا اور اس بات کو محسوس کیا جا رہا ہے کہ سعودی عرب کو اپنی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے اصلاحات کی ضرورت ہے۔ شہزادہ محمد نے ولی عہد کا عہدہ سنبھالتے ہی بنیادی اقدامات کیے۔
سعودی عرب میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لیے حکومت نے لبرل رویہ اختیار کیا اور سیاحت اور تفریح کے شعبوں کی ترقی پر خصوصی توجہ دی ، یوں ثقافتی شعبہ میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہونے لگیں۔ شہزادہ محمد کے ان اقدامات کے بارے میں دنیا بھر میں مختلف قسم کی رائے پائی جاتی ہے۔ پاکستان میں وہ گروہ جن کا گزارہ 50ء ، 60ء اور 70ء کی دہائیوں میں سعودی عرب سے ملنے والی امداد پر ہوتا تھا وہ ان پالیسیوں سے زیادہ خفا ہیں۔ ان گروہوں کا رویہ ہمیشہ ہی رجعت پسندانہ رہا ہے اور یہ معاشرہ کی تبدیلی کی تحریک کو اسلام دشمن جانتے ہیں۔ ان میں سے بعض نے ابلاغ عامہ کے جدید ادارے فلم، تھیٹر اور اسپورٹس وغیرہ کی اہمیت سے انکارکیا۔ ایک رجعت پسندانہ بیانیہ کی بناء پر پاکستانی ریاست نے فلمی صنعت کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا۔
معروف مؤرخ ڈاکٹر عقیل عباس جعفری کی تحقیق کے مطابق پاکستان کے قیام کے فوراً بعد لاہور کے فلم سازوں کے ایک وفد نے اس وقت کے وزیرِ مواصلات سردار عبدالرب نشتر سے ملاقات کی تھی اور اس وفد کے اراکین نے نشتر صاحب کو بتایا تھا کہ بھارت کے وزیر اعظم پنڈت نہرو خود فلمی صنعت کی ترقی میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ وزیرِ موصوف کا یہ بیانیہ تھا کہ فلم بنانے کا کام کافروں کو ہی کرنا چاہیے۔
ریاست کی سرپرستی نہ ہونے اور سماج میں منفی رویوں کی بناء پر پاکستان کی فلمی صنعت ترقی نہ کرسکی ، اگر ریاستی سطح پر فلم کے لیے صنعت کی ترقی ہوتی تو آج سعودی حکام پاکستانی فلم سازوں سے مذاکرات کررہے ہوتے۔ سعودی عرب میں ہونے والی تبدیلیوں کے اثرات کو محسوس کرنا چاہیے اور اس کو خوش آمدید کہنا چاہیے۔