پاکستان کا پہلا ’’ الادریسی‘‘
گویندی صاحب اس سے قبل سیاست اور شخصیات کے موضوع پر کئی کتابیں لکھ چکے ہیں ۔
HAMBURG:
ہمیں بھی دُنیا کے کئی ممالک دیکھنے کے کئی مواقعے ملے ہیں لیکن ابھی تک ہمیں سفر نامہ لکھنے کی ہمت ہُوئی نہ توفیق ملی ہے ۔ سفر کہانی لکھنا خاصا سائنسی اور صبر آزما کام ہے ۔ چونکہ ہم اس سائنس کی ابجد سے بھی واقف نہیں، اس لیے اس صنف پر ہاتھ ڈالنے سے قاصر ہی رہے ۔
ہمارے بزرگ اور محترم ادیب، جناب مستنصر حسین تارڑ، نے جس جمیل، رومان پرور اور دلکش اسلوب میں سفر نامے لکھے ہیں ، انھیں پڑھ کر تو ویسے ہی آدمی سوچتا ہے کہ تارڑ صاحب کی موجودگی میں آدمی بھلا اب کیا سفر نامہ لکھے ؟ لکھنے والے باہمت لوگ مگر سفر نامے اب بھی لکھ رہے ہیں ۔ ہمارے ایک دوست ، جن کا تعلق ایک معروف مذہبی جماعت سے ہے۔
ایک ہفتہ کے لیے ترکی گئے ۔ واپس آئے اور چند دنوں میں دو، ڈھائی سو صفحات پر مشتمل ترکی کا سفر نامہ لکھ مارا ۔ ایک کاپی، از راہِ محبت وکرم، ہمیں بھی بھجوائی ۔ ہم نے حیرت سے پوچھا: ''قبلہ، ایک ہفتہ میں کتنا ترکی دیکھا ہوگا ؟'' جواباً ارشاد فرمایا:'' بھائی صاحب ، آپ نے ہمارے سفر نامہ بارے ریویو لکھنا ہے تو لکھ دیجئے ، مہربانی ہوگی، لیکن امتحان نہ لیجیے ہمارا۔'' اگلا سوال پوچھنے کی ہمیں جسارت ہی نہ ہُوئی۔
واقعہ مگر یہ ہے کہ جناب مستنصر حسین تارڑ نے سفر نامہ نگاری کو جس معراج پر پہنچا دیا ہے، اب اُن کے پیچھے آنے والے اس عروج کے بارے میں محض خواب ہی دیکھ سکتے ہیں ۔ یہ تارڑ صاحب کی انفرادیت ہے کہ انھوں نے اپنے سفر نامے سے ایک واقعہ کشید کیا اور پھر اسے ایک رومانوی داستان کی شکل میں ناول بنا دیا۔ ''پیار کا پہلا شہر'' اس دلربا ناول کا عنوان ہے ۔
اس کے مرکزی کردار ، پاسکل، نے کئی دنوں تک ہمارے خوابوں کو بھی درہم برہم کیے رکھا ۔تارڑ صاحب کے سفر ناموں اور اُن کے اسلوب سے اختلاف کرنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے ۔ اور اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ اس جاٹ افسانہ نویس اور ناول نگار کے سفر ناموں کے بعد نئے سفر نامہ لکھنے والوں کی راہیں مستقلاً محدود اور مسدود ہو گئی ہیں ۔ اس میدان میں اب ایک نئے '' کھلاڑی'' کا اضافہ ہُوا ہے ۔
ان صاحب کا نام فرخ سہیل گویندی ہے۔ گویندی صاحب اس سے قبل سیاست اور شخصیات کے موضوع پر کئی کتابیں لکھ چکے ہیں ۔ وہ لاہور کی سیاست و ادب اور ایکٹو ازم کا ایک معروف نام ہیں ۔ ترک سیاست و سماج اور ترک تہذیب و تاریخ پر انھیں دسترس حاصل ہے ۔ مصطفیٰ کمال پاشا اتا ترک اُن کی محبوب ترین شخصیت ہیں۔ وہ مکالمے اور بیٹھک کے آدمی ہیں۔ تقریباً 800صفحات پر مشتمل اُن کا تازہ ترین ضخیم سفر نامہ بعنوان'' مَیں ہُوں جہاں گرد'' چند دن پہلے ہی مارکیٹ میں آیا ہے ۔
اس سفر نامہ کی خصوصیت یہ ہے کہ مسافر موصوف نے یہ سفرآج سے38سال پہلے کیے۔ اوران کی کتھا اور احوال آج 2022میں لکھ رہے ہیں ۔ ان چار عشروں میں ان لاتعداد ممالک ، جن کی جہاں گردی میں گویندی صاحب نے اپنی جوانی کے پُر جوش ایام گزارے، کی شکل، ہیئت اور سیاسیات ، سب کچھ بدل چکا ہے ۔ گویا یہ سفر نامہ تاریخ اور جغرافیہ میں اُلٹی زقند بھرنے کے مترادف ہے ۔ انھوں نے یہ جاذبِ دل احوال اپنی مضبوط یادداشت، کامل حافظے اور دراز میں پڑی ڈائریوں میں لکھے مدہم نوٹسز کی اساس پر دو برسوں میں لکھا ہے ۔ ''مَیں ہُوں جہاں گرد'' دراصل کئی اسلامی اور اشتراکی ممالک کے پرانے کلچرز، تاریخ ، سماج اور افکار و تہذیب کو محفوظ کرنے اور اُن سب کی یاد آفرینی کا نام بھی ہے ۔
مذکورہ سفر نامہ نگار نے بہت سے ممالک کی جہاں گردی کا آغاز اُس وقت کیا جب ایران میں آیت اللہ روح اللہ خمینی صاحب کے برپا کیے انقلاب کو ابھی صرف چار سال ہُوئے تھے، جب افغانستان میں سوویت فوجیں قبضہ کر چکی تھیں اور امریکی سرپرستی میں افغان جہاد زوروں پر تھا، اور جب پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کی خوفناک آمریت ( بقول مصنف) پورے عروج پر تھی۔ اور جب ارضِ پاک میں کمیونسٹ لٹریچر پڑھنا شجرِ ممنوعہ تھا۔ کسی لائبریری میں کمیونسٹ ملک کے بارے میں کتابوں کو کھنگالتے پکڑے جاتے تو کتاب پڑھنے والا جیل بھیجا جا سکتا تھا۔
زمانہ کیسے تیزی اور عجب چال سے بدلا ہے کہ آج وہی ممنوعہ رُوس ہمارے سابق وزیر اعظم کی تازہ منزل ٹھہری تھی ۔خان صاحب نے رُوس کا دَورہ کیا تو ہمارے ہاں رُوس کے بارے میں تعریف و توصیف کا انبار لگا دیے گئے ہیں ۔ سفر نامہ نگار نے اِسی بات کے مشاہدات پیش کیے ہیں کہ 38برس قبل سوویت رُوس اور رُوس سے متاثر اشتراکی ممالک کس اسلوب میں زندگی بسر کررہے تھے ۔ سفر نامہ نگار نے بڑی گہرائی کے ساتھ مشرقی یورپ کے تعلیمی، سیاسی اور معاشی نظاموں کا مشاہدہ پیش کیا ہے ۔ ہم تصور کی آنکھ سے محض اندازہ ہی کر سکتے ہیں کہ اشتراکی ممالک میں عوام حکومت کی طرف سے دی گئی لاتعداد سہولتوں سے کسقدر مستفید ہو رہے تھے ۔ امریکی اور مغربی سامراج نے اپنے پروپیگنڈے کے زور پر اس اشتراکی نظام اور جملہ اشتراکی ممالک کو ایسا بدنام کر ڈالا کہ ہم مشرق میں بیٹھے ویسے ہی اس سے بدک کررہ گئے ۔
''مَیں ہُوں جہاں گرد'' کے مصنف نے پاکستان سے نکل کر ایران ، افغانستان، ترکی، شام، بلقان ممالک، بلغاریہ اور یوگو سلاویہ کی گہرائیوں کا سفر کیا ۔ وہاں تک جھانک آئے جہاں کسی مشرقی مسافر کی نظر کم کم پڑتی ہے ۔
انھوں نے ترکی کی معروفِ عالم ٹرین کا ایسے دلکش اسلوب میں تذکرہ کیا ہے کہ ہم جس کی ہوشربا داستانیں صرف آگاتھا کرسٹی کے ناولوں میں پڑھا کرتے تھے۔ وہ تاریخ کے طالب علم بھی ہیں ؛ چنانچہ انھوں نے محض اپنے سفروں کا احوال ہی نہیں لکھا بلکہ اپنے تاریخی وجدان کی روشنی میں اس امر کا جائزہ بھی لیا ہے کہ '' سرخ جنت'' کیسے ویران ہُوئی اور اس میں کیسے شگاف پڑتے گئے کہ آج یوگو سلاویہ کا نام ہی جغرافیہ سے مٹ گیا ہے ۔ گویندی صاحب نے ایسے سحر انگیز انداز میںسفر کہانی لکھی ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ گاؤں کی چوپال میں بیٹھ کو دُور دیس کی اساطیری باتیں سہل زبان میں سنا رہے ہوں ۔
یہ سفرنامہ دراصل ایک ایسے تنگ دست سیاح کی اولو العزم داستان ہے کہ جب وہ اپنے اَن دیکھے طویل سفروں پر روانہ ہُواتو اُس کی جیب میں صرف 300ڈالر ز کی قلیل سی رقم تھی۔ اس رقم کو بھی اُس نے اپنی پتلون کی خفیہ جیبوں میں چھپا رکھا تھا، مبادا کہیں کھو نہ جائیں۔ سفر اور مشاہدات کی لذتیں کشید کرنے کے لیے ہمارے اس سیاح نے بھوک کے عذاب بھی سہے اور احساساتِ محرومی کی تلخیاں بھی برداشت کیں ۔
مگر ہمت ہارا نہ دلبرداشتہ ہو کر قدم پیچھے کی جانب موڑے۔ اُس کے دل میں بس 12ویں صدی عیسوی کے مشہورِ عالم ہسپانوی مسلمان سیاح، ابو عبداللہ محمد الادریسی الحسنی السبتی، کے نقشِ قدم پر چلنے کی لگن تھی ۔ گویا ''مَیں ہُوں جہاں گرد'' کے مصنف کو ہم اکیسویں صدی عیسوی میںپاکستان کا پہلا ماڈرن ''الادریسی'' کہہ سکتے ہیں۔ یہ محض سفر نامہ نہیں بلکہ دلچسپ تاریخ و مشاہدات کا تذکرہ جانفزا بھی ہے ۔ اس میں عبرت کی کئی داستانیں بھی سمٹ آئی ہیں ۔ یہ درحقیقت کئی دلچسپ داستانوں کا ایک حسین مرقع ہے ۔