منحرف اراکین کی سیاست پاکستان کو لے ڈوبی ہے

قیام پاکستان کے بعد بھی سیاسی وابستگیاں تبدیل کرنے کی یہ روایت قائم رہی۔


[email protected]

جب ریاست کے اسٹیک ہولڈرز کے درمیان ''سرد جنگ'' کا آغاز ہو جاتا ہے، ہر ادارہ من مانی کرتا ہے، ہر شخصیت خود کو قانون سے بالا تر سمجھتی ہے، ہر کوئی قانون توڑنے اور خود کو سپیرئیر ثابت کرنے کی تگ و دو میں لگ جاتا ہے تو پھر ایسے ایسے بلنڈر کرتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

جب کہ جس ریاستوں میں اخلاقی معیار قائم رہتا اور سسٹم میں اختیارات کا توازن قائم رہتاہے ، ایسے ریاستیں غربت سے خوشحال تک کا سفر پرامن انداز میں طے کرلیتی ہیں۔ وطن عزیز میں آئین و قانون گئے تیل لینے! ہر کوئی اقتدار کے ساتھ چپکے بیٹھا ہے۔ اقتدار کے لیے ہر حد پار کر رہا ہے۔ روپے پیسے کا بے دریغ استعمال کر رہا ہے۔

انسان بک رہے ہیں، انسانیت ختم ہو رہی ہے، اخلاقیات نام کی کوئی چیز نہیں رہ گئی، اختلاف کرنا گناہ بن کر رہ گیا ہے۔ ادارے آپسی لڑائیوں میں اس قدر آگے بڑھ چکے ہیں کہ ''دخل اندازی'' ایک عام لفظ اور اصطلاح بن چکی ہے۔ میرے خیال میں اگر پارلیمان کی بات کی جائے تو آج ملک میں پارلیمان کی جو حیثیت بنا دی گئی ہے۔

اس کی ذمے داری سیاسی قیادت اور نام نہاد الیکٹیبلزکی موقع پرستی ہے۔ آج کل منحرف اراکین اسمبلی کا موضوع ہاٹ ہے، ایسے اراکین کو عام اصطلاح میں ''لوٹے'' بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ کوئی نیا یا پہلی بار نہیں ہوا ہے۔ اس لوٹاکریسی کی تاریخ وطن عزیز میں بہت پرانی ہے۔

1937 میں متحدہ پنجاب میں عام انتخابات میں یونینسٹ پارٹی نے 175 میں سے 99 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جب کہ آل انڈیا مسلم لیگ کو صرف دو نشستیں حاصل ہوئیں، مگر صرف چھ ماہ کے اندر اندر یونینسٹ پارٹی کے متعدد امیدواروں نے اپنی سیاسی وابستگی تبدیل کرلی۔ جن میں میاں شوکت حیات، میاں ممتاز دولتانہ، میاں عبدالعزیز اور شیخ صادق حسین جیسے نامور سیاست دان شامل تھے۔ آنے والے دنوں میں آشیانہ بدلنے والے ان پرندوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ 1945 کے اختتام تک یونینسٹ پارٹی کے نامور افرادآل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہو چکے تھے۔

چنانچہ 1946 کے انتخابات میں یونینسٹ پارٹی 175 کے ایوان میں صرف 18 نشستوں پر کامیابی حاصل کر پائی۔صرف نو برس کی مختصر مدت میں وہ سب کچھ ہو گیا جس کا 1937 میں خواب بھی نہیں دیکھا جا سکتا تھا۔ انتخابات کے بعد ان 18 نشستوں پر کامیاب ہونے والے نصف سے زیادہ ارکان آل انڈیا مسلم لیگ سے آ ملے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب پنجاب کے مشہور سیاست دان ڈاکٹر محمد عالم لوٹا کو بار بار سیاسی وابستگیاں تبدیل کرنے کی وجہ سے 'لوٹا' کا خطاب دیا گیا۔

قیام پاکستان کے بعد بھی سیاسی وابستگیاں تبدیل کرنے کی یہ روایت قائم رہی۔ 1957 میں جب صدر اسکندر مرزا نے پارلیمنٹ میں اپنی سیاسی جماعت ری پبلکن پارٹی بنانے کا اعلان کیا تو مسلم لیگ میں شامل متعدد ارکان فوری طور پر اس نومولود پارٹی کا حصہ بن گئے، یا بالفاظ دیگر پاکستان کی سیاسی تاریخ کے پہلے باضابطہ لوٹے بن گئے۔

اس وقت اس لوٹا گروپ کی سربراہی نواب افتخار حسین ممدوٹ نے کی جب کہ اس گروپ میں شامل دوسرے سیاست دانوں میں احمد نواز گردیزی، عبدالمجید دستی، چوہدری فضل الٰہی، قاضی فضل اللہ، سید جمیل حسین رضوی، ارباب نور محمد، مخدوم زادہ حسن محمود اور کرنل عابد حسین کے نام سرفہرست تھے۔ سیاسی وابستگیاں تبدیل کرنے کا یہ سلسلہ ایوب خان کے دور میں بھی جاری رہا۔ کچھ افراد کو دولت کے ذریعے، کچھ کو وزارتی ترغیبات کے ذریعے اور کچھ کوحکومتی دباؤ کے ذریعے اپنا ہمنوا بنایا گیا۔قصہ مختصر کہ پھر یہ روایت ایسی چلی کہ ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء ا لحق، محترمہ بے نظیر بھٹو، نوازشریف ،جنرل پرویز مشرف اور عمران خان تک سبھی اس کے اسیر ہوتے رہے۔

حالانکہ اس لوٹا کریسی کو روکنے کے لیے 2010 میں اٹھارویں ترمیم بھی کی گئی ، جس کا مقصد ہارس ٹریڈنگ اور فلور کراسنگ کو روکنا تھا۔ اس کے تحت اگر کوئی رکن قومی اسمبلی اپنی پارٹی کی بنیادی رکنیت سے استعفٰی دے یا کسی دوسری جماعت میں شامل ہو جائے یا پارٹی سربراہ کی مرضی کے خلاف ووٹنگ کے دوران غیر جانبدار رہے یا مخالفت میں ووٹ دے تو اس کے خلاف نا اہلی کی کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔

ہمارے ہاں قوانین تو بن جاتے ہیں مگر مقتدر طبقات ان قوانین کو موم کی ناک طرح ادھر ادھر موڑتے رہتے ہیں۔منحرف اراکین کے حوالے سے قانون بنا تھا کہ اب پاکستان کو سیاسی پارٹیاں بدلنے والوں سے نجات ملے گی، لیکن ہر پارٹی اپنی مرضی کے مطابق Electableاراکین کو اکٹھا کرتی رہی، جیسے2008 کے الیکشن میں تمام ق لیگ ہی لوٹا ہوگئی تھی، جس کے بعد دونوں پارٹیوں نے انھیں خوشی سے قبول کیا۔ عمران خان نے بھی اپنے اقتدار سے ن لیگ اور پیپلز پارٹی چھوڑنے والوں کو بڑی خوشی سے قبول کرلیا اور اب منحرف اراکین کو دونوں پارٹیاں بڑی خوشی سے قبول کر رہی ہیں تو یہ انتہائی افسوسناک ہے۔

آپ ان منحرف اراکین کی وفاداریوں کو چھوڑیں بلکہ اس سے پہلے تو جعلی ڈگری والے اراکین اسمبلی کو تمام جماعتوں نے قبول کیا۔ حالانکہ سب کو علم تھا کہ یہ سب لوگ جھوٹے ہیں، اور جھوٹ بول کر یہ ممبر پارلیمنٹ بنے ہیں، نہ اُن کو پارٹی نے ری جیکٹ کیا اور نہ ہی عوام نے ۔ حد تو یہ ہے کہ اس وقت بھی پارلیمنٹ میں ایسے لوگ موجود ہیں۔ لہٰذاہمیں ایسے لوگوں سے بطور قوم نفرت کرنی چاہیے، بلکہ اس حوالے سے بھی قانون بننا چاہیے کہ لوٹوں کو پارٹیاں بھی قبول نہ کریں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں