عوام باشعور ہو چکے ہیں
ہماری موجودہ نسل سیاسی شعور رکھتی ہے،
ایک گدھے اور گھوڑے میں بحث ہو گئی، گدھا بضد تھا کہ کوا سفید ہوتا ہے، گھوڑا سر پٹخ رہا تھا کہ کوا کالا ہوتا ہے۔ بحث بڑھتے بڑھتے لڑائی جھگڑے میں بدل گئی دونوں اپنا جھگڑا لے کر بادشاہ سلامت شیر کے گھر پہنچے ، شیر نے دونوں کی بات سنی اور فیصلہ دیا کہ گھوڑے کے سر میں دس جوتے مارے جائیں اور اسے جیل میں ڈال دیا جائے۔ گھوڑا شیر کا فیصلہ سن کر بہت پریشان ہوا اور روتے ہوئے بولا ''عالی جاہ! یہ تو ظلم ہے، حق پر بھی میں ہوں اور سزا بھی مجھے دی جا رہی ہے۔'' شیر بولا'' تجھے سزا اس لیے دی جا رہی ہے کہ تجھے پتا تھا کہ وہ گدھا ہے پھر بھی تو نے اس کے ساتھ بحث کی۔''
اس وقت ملک عزیز کا یہ حال ہے کہ بے حال ہے مگر کس کو اس کی پرواہ ہے بس فکر اس بات کی ہے کہ کالے کرتوتوں پر پردہ پڑ جائے ہر وہ شخص جس پر الزامات ہیں وہ پاک و صاف ہو کر اس طرح نکل جائے کہ جیسے دودھ سے دھلا ہو۔ سابقہ گورنر سندھ زبیر عمر برملا کہہ چکے ہیں کہ مسلم لیگ ن کے خلاف کیس میں جان نہیں ہے وہ ایک دو دن میں بری ہو جائیں گے جو کیس 25 پیشیوں میں سسک سسک کر چل رہا تھا مگر ان کی حکومت آتے ہی دوڑنے لگا کیوں کہ اب ان کے وکلا کہہ رہے ہیں کہ یہ کیس صرف دو پیشیوں میں ختم ہو جائے گا۔
عوام باشعور ہو چکے ہیں، ہماری موجودہ نسل سیاسی شعور رکھتی ہے، اچھے برے کی پہچان رکھتی ہے انھیں صاف علم ہے کہ یہ حکومت آئی نہیں لائی گئی ہے کیونکہ اس کا کوئی اور کام تو نظر نہیں آ رہا مگر آتے کے ساتھ ہی اپنے اوپر لگے الزامات کو ختم کرنے میں لگے پڑے ہیں۔ ای سی ایل سے تمام نام نکل گئے، سرکاری ٹولہ میٹنگ کرنے لندن کی یاترا پر نکل گیا، اور وہاں سے ہدایات لی جا رہی ہیں۔ اپنے ہی زعم میں مبتلا اداروں کی توہین کی جا رہی ہے۔
حضرت علیؓ کا قول ہے جس پر احسان کرو اس کے شر سے ڈرو۔اسٹیبلشمنٹ کی گود میں بیٹھ کر پرورش پانے والے لوگ آج ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں جنھوں نے انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا۔ اب اتنے طاقت ور بن گئے کہ اپنی زبانیں ان کے خلاف کھول رہے ہیں مگر پاکستان کے عوام اپنے ریاستی اداروں کے ساتھ کھڑے ہیں، کیونکہ انھیں یقین ہے کہ ملک اگر قائم ہے تو ان کی وجہ سے اور یہی وجہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف باقاعدہ پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے یہ مغرب کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں۔ پاکستانی فوج بھارت کے مذموم مقاصد پورے کرنے میں حائل ہے مغربی صہیونی طاقتیں ان میں روڑے اٹکا رہی ہیں۔
آج ملک کی باگ ڈور ایسے ہی ہاتھوں میں ہے یہ ٹولہ کس کردار کا مالک ہے سب کو معلوم ہے جن کا مطمع نظر صرف پیسہ ہے جو کہیں سے بھی آئے بس آئے۔ زرداری صاحب نے بھی ن لیگ کی ہی باتوں کو آگے بڑھایا ہے۔ ماضی میں بھی وہ ایسے بیانات دے کر آشکارہ ہو چکے ہیں لیکن یہ بھان متی کا کنبہ جان لے کہ وہ کتنا ہی اپنی مرضی کر لے مگر ان کے من پسند افراد بھی اپنی قومی سلامتی، وقار، عزت و آبرو کا سودا نہیں کریں گے۔ پھر ان سے بھی شکایت ہو جائے گی ابھی دیکھیے آگے آگے ہوتا ہے کیا۔
سر منڈاتے ہی اولے پڑ چکے ہیں ملک کی معیشت کا برا حال ہے اگلا بجٹ ان کو ہی دینا پڑے گا۔ مفتاح اسمٰعیل آ چکے ہیں تو سخت فیصلے کرنے پڑیں گے جو ان کے گلے کی ہڈی بن جائیں گے، پیپلز پارٹی نے جو کھیل کھیلا اس کے آفٹر شاکس محسوس کیے جا رہے ہیں اس لیے یہ پارٹی والے تو معصوم بن کر بیٹھ گئے ہیں۔ فضل الرحمن بھی خاموش ہیں۔ اب سارا نزلہ (ن) لیگیوں پر گر رہا ہے، ساری تنقید ان پر ہو رہی ہے۔ جلسے کچھ کام نہیں آ رہے۔ پوری کابینہ لندن میں چھپ کر میٹنگیں کر رہی ہے ۔اگر جلد الیکشن ہوئے تو ان کو بڑی تعداد میں ووٹ تو ضرور مل جائیں گے اور اگر دیر ہوگئی تو ان کے اپنے لوگ بھی بھاگ سکتے ہیں۔ اس لیے پیپلز پارٹی جلد الیکشن کے خلاف ہیں۔
ابھی تو وہ ایک سال تک اقتدار کے مزے لوٹنے کے حق میں ہے۔ اس لیے اس نے لندن جانے والوں کے جاتے ہی پریس کانفرنس کرکے اپنی رائے بالکل الگ کرلی ہے اس لیے وہ اپنا کھیل بہت اطمینان سے کھیل رہی ہے۔بس ساری وہ وزارتیں لی ہیں جن سے پی پی پی فائدہ اٹھائے اور جہاں جہاں برا بھلا ملنے کی توقع تھی وہ (ن) لیگ کے حصے میں آئے۔ یہ تو ہونا ہی تھا اگر دو دشمن مشترکہ دشمن کو نکالنے کے لیے گلے ملیں تو فائدہ کسی ایک کا ہونا تھا۔