فاش غلطی
بعض تجزیہ کاروں کے مطابق انھیں عمران خان کی حکومت ختم کرنے سے پہلے غور کرنا چاہیے تھا
ایم کیو ایم کے کئی دھڑوں میں بٹ جانے کے بعد کراچی میں جو سیاسی خلا پیدا ہو چکا ہے اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے پیپلز پارٹی سے کہیں زیادہ پی ٹی آئی زور لگا رہی ہے ، وہ کراچی کے عوام کو اپنے وعدوں کی بھرمار سے رجھا کر یہاں سے زیادہ سے زیادہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں حاصل کرنا چاہتی ہے۔
اس سلسلے میں چند دن قبل کراچی کے باغ جناح میں ایک جلسہ منعقد کیا گیا جس میں عمران خان نے کراچی کے عوام کو خوش کرنے کے لیے وعدوں کے انبار لگا دیے مگر ان کی کراچی کے مینڈیٹ پر قبضہ کرنے کی کوششوں کو گزشتہ اتوار پی ایس پی کے خواتین کے جلسے نے قطعی ناکام بنا دیا ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ بلدیہ میں الیکشن میں دھاندلی کی وجہ سے پارٹی کے چیئرمین کی ہار کے بعد پی ایس پی کی سیاست سکڑ گئی ہے اور عوام میں اس کے لیے پہلے جیسا جوش و خروش باقی نہیں رہا ہے مگر اب اسے کیا کہا جائے کہ گزشتہ اتوار کو پاک سرزمین پارٹی کے خواتین کے جلسے نے مخالفین کی نہ صرف آنکھیں کھول دی ہیں بلکہ پی ایس پی کے بارے میں ساری غلط فہمیاں دور ہوتی نظر آ رہی ہیں۔
باغ جناح جیسے وسیع و عریض جلسہ گاہ کو پی ٹی آئی اور اس سے پہلے کئی سیاسی پارٹیاں مردوں سے نہ بھر سکی تھیں اسے مصطفیٰ کمال نے خواتین سے بھر دیا۔ جلسہ گاہ میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے سیکڑوں خواتین جلسہ گاہ کے باہر سڑک پر کھڑے ہوکر مصطفیٰ کمال کی تقریر سنتی رہیں۔ پی ایس پی نے اس جلسے سے دو دن پہلے اسی گراؤنڈ میں فیملی فیسٹیول منعقد کیا تھا جس میں خواتین کی بڑی تعداد میں شرکت نے یہ عندیہ دے دیا تھا کہ یہ طویل و عریض جلسہ گاہ اتوار کے دن منعقد ہونے والے جلسے کے لیے ناکافی پڑ جائے گی اور پھر وہی ہوا۔
مصطفیٰ کمال نے جلسے میں خواتین کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر سے مخاطب ہو کر پرجوش خطاب کیا جوکہ اب ایک تاریخی دستاویز بن گیا ہے۔ انھوں نے بغیر کسی لاگ لپیٹ کے موجودہ سیاسی افراتفری اور اقتدار کے حصول کے لیے کچھ سیاسی پارٹیوں کی جانب سے ملک کی سلامتی کو داؤ پر لگانے کی روش پر سخت تشویش کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ اقتدار سے باہر ہونے والے اور اس وقت اقتدار میں موجود سیاستدانوں کی عوام کو بے وقوف بنانے کی ترکیب آج بھی کامیاب ہے۔
عمران خان نے تبدیلی کا سراب دکھا کر پچھلا الیکشن جیتا اور اب وہ ایک نئے سازشی بیانیے کے ذریعے عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ وہ عوام کو اب حقیقی آزادی سے ہمکنارکرنا چاہتے ہیں کیا چودہ اگست 1947 کو قائد اعظم محمد علی جناح نے ہمیں غلامی سے غیر حقیقی آزادی دلائی تھی؟ صد افسوس کہ عمران خان چار سال تک اقتدار میں رہنے کے باوجود ملک اور عوام کی بھلائی کے لیے کچھ نہ کرسکے۔ وہ 2018 کے الیکشن کے وقت ملک سے کرپشن کا خاتمہ کرنے، غربت اور بے روزگاری کو مٹانے اور ملک کو بیرونی قرضوں سے پاک کرنے کے وعدوں کے ساتھ اقتدار پر براجمان ہوئے تھے۔
انھوں نے قرض حاصل کرنے کو خودکشی کرنے کے مترادف قرار دیا تھا مگر ان کے چار سالہ دور میں جتنے بیرونی قرضے لیے گئے ہیں اتنے تو گزشتہ پچھتر برس میں بھی نہیں لیے گئے تھے۔ انھوں نے عوام کو ایک کروڑ نوکریاں دلانے اور بے گھر افراد کو پچاس لاکھ گھر بنا کر دینے کا وعدہ بھی کیا تھا وہ وعدے کدھر گئے؟
انھوں نے کراچی کے عوام سے بھی وعدے کیے تھے کہ کراچی کے تمام مسائل کو حل کردیا جائے گا مگر کراچی والوں کا ایک مسئلہ بھی حل نہیں ہوا۔ کراچی کی ترقی کے لیے انھوں نے دو مرتبہ مالی پیکیجز کا اعلان کیا مگر کراچی کے لیے ایک پیسہ بھی نہیں دیا۔ وہ اپنے چار سالہ دور میں عوام کی بھلائی کے لیے تو کچھ نہ کرسکے البتہ انھیں مہنگائی کی دلدل میں پھنسا گئے۔ ان کا دور سب سے زیادہ کرپشن کی آماج گاہ بنا رہا۔ پی ٹی آئی دور کی بعض شخصیات کی کرپشن اب طشت از بام ہو چکی ہے مگر ان کی پارسائی کی وکالت کی جا رہی ہے۔
پی ٹی آئی کی قیادت خود وزیر اعظم، چیف جسٹس اور خود ہی چیف الیکشن کمشنر بننا چاہتی ہے کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کے ساتھ لوگ بہت ہیں ، تاریخ گواہ ہے کہ لوگوں کی ظاہری اکثریت سچ کی علامت نہیں ہوتی ۔ انھیں کسی سازش نے نہیں اپنی ناقص کارکردگی نے اقتدار سے نکالا ہے، انھیں اپنی غلطیوں پر ضرور غور کرنا چاہیے۔ ان کے فخر و غرور کی وجہ سے ان کے چہیتے دوست بھی ان سے دور ہوگئے تھے۔ اب انھوں نے اقتدار کے لیے ملک کو ہی داؤ پر لگا دیا ہے۔
اس وقت ایک طرف دہشت گرد دھماکے کرکے ملک کو سخت نقصان پہنچا رہے ہیں تو دوسری جانب دھواں دھار تقاریر کے دھماکوں سے ملک کی چولیں ہلائی جا رہی ہیں۔ پی ٹی آئی کی قیادت نے اپنے چار سالہ اقتدار میں اپنے وزیروں مشیروں کو اتنا نوازا کہ ان کے غریب خانے دولت خانوں میں تبدیل ہوگئے ہیں پھر فرما رہے ہیں کہ ان کی حکومت کرپشن سے پاک تھی۔ انھوں نے تو غریبوں کے منہ کا نوالہ بھی چھین لیا۔ آج سفید پوش خاندانوں کی خواتین بچوں کے ساتھ سڑکوں پر بھیک مانگتی نظر آ رہی ہیں۔ آج اقتدار میں موجود اتحادی ٹولہ بھی موجودہ حالات کی پیچیدگی دیکھ کر پریشان ہیاس لیے کہ انھوں نے شب خون مار کر عمران کو سرخرو کردیا ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کے مطابق انھیں عمران خان کی حکومت ختم کرنے سے پہلے غور کرنا چاہیے تھا کہ کیا وہ عمران خان کے پیدا کردہ پیچیدہ مسائل کو حل کر پائیں گے یا نہیں؟ ملک کے معاشی حالات انتہائی دگر گوں ہو چکے ہیں۔ قرضے پہلے سے کئی گنا بڑھ چکے ہیں۔ موجودہ حکومت کے لیے سب سے پہلی پریشانی ہی یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی قسطوں کی ادائیگی کیسے کی جائے اور ملک کے معاشی حالات بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ مہنگائی کے جن کو کیسے قابو کیا جائے۔ ڈالر کی تیز اڑان نے ملکی معاشی مسائل میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
لگتا ہے اتحادیوں نے صرف اپنے مقدمات سے کچھ ریلیف حاصل کرنے کے لیے یہ کڑوی گولی نگلی ہے۔ اب حالات یہ ہیں کہ عوام میں عمران خان کا امریکی غلامی سے نجات حاصل کرنے کا بیانیہ خوب چمک رہا ہے۔ عوام جوق در جوق ان کے قریب آ رہے ہیں اس طرح اگلے الیکشن میں جو عمران خان کو اپنی خراب کارکردگی کی وجہ سے شکست سے دوچار ہونا تھا اب ان کے بدلے اتحادیوں کی دو بڑی پارٹیوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو ایسی ہی صورتحال بھگتنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔