لیاری کی کچھ معروف شخصیات
سیکڑوں بے افراد کے نام ایسے ہیں جو جگہ کی کمی کی وجہ سے کالم کی ان سطور میں نہیں لکھے جاسکتے
ISLAMABAD:
بدقسمتی سے دورحاضر میں لیاری کا ذکر بدنام زمانہ لیاری گینگ وارکے نام سے کیا جاتا ہے، جو لیاری سے ناواقف ہیں وہ یہی سمجھتے ہیں کہ لیاری انسانوں کے رہنے کے لیے غیر مناسب علاقہ ہے جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
لیاری میں لاکھوں شریف انسان بستے ہیں جو مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیاری نے بیش بہا جوہر نایاب شخصیات کو جنم دیا ہے، لہٰذا اختصار سے لیاری کی کچھ معروف شخصیات کا ذکر کیا جا رہا ہے اگرکوئی نام رہ جائے تو اس کے لیے پیشگی معذرت چاہتا ہوں۔
سیاست کی دنیا میں لیاری کی معروف شخصیات میں خان بہادر اللہ بخش خان گبول جنھوں نے 7 فروری 1937 کو سندھ اسمبلی کے پہلے انتخابات میں 3311 ووٹ حاصل کرکے کامیاب ہوئے تھے جب کہ ان کے مد مقابل امیدوار سر عبد اللہ ہارون نے 2599ووٹ حاصل کیے تھے۔ سردار اللہ بخش گبول لیاری سے دو بار میئرکراچی منتخب ہوئے۔ ان کے بیٹے بیرسٹر عبدالستارگبول وفاقی وزیر رہے ، ان کے بھتیجے اور احمد گبول کے بیٹے نبیل احمد گبول بھی رکن قومی وصوبائی اسمبلی رہے جو وفاقی وزیر اور صوبائی ڈپٹی اسپیکر رہ چکے ہیں۔
عبدالستار افغانی کراچی کے پہلے میئررہ چکے ہیں، لطیف گبول کی بیٹی نادیہ گبول جو لندن میں پیدا ہوئیں لیکن سیاست میں آنے کے بعد لیاری میں قیام پذیر ہوئیں اور وزیر اعلیٰ سندھ کی مشیر رہیں۔ باقی بلوچ نے بھی سیاست میں بہت نام پیدا کیا ، عبدالرحیم بلوچ قومی اسمبلی کے رکن اور وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر رہے اور ان کے فرزند عبد اللہ رحیم لیاری ٹاؤن کے وائس چیئرمین رہے، معروف صحافی نادر شاہ عادل کے بھائی سید امداد حسین شاہ صوبائی وزیر رہے اور ان کی تجویز پر لیاری جنرل اسپتال کا قیام عمل میں آیا۔
علی احمد سومرو ، شمشاد بلوچ ، میر اشفاق بلوچ ، مختار علی کہنووری ، بابو اسماعیل، فیض بلوچ ، اللہ بخش یوسفی بھی مقبول سیاست دان رہے ۔ رفیق انجینئر اور جاوید ناگوری صوبائی وزیر رہے، ثانیہ ناز بلوچ صوبائی رکن اسمبلی رہیں جب کہ شاہ جہاں بلوچ رکن قومی اسمبلی رہے۔ عبد الخالق جمعہ صوبائی وزیر اور ناظم ٹاؤن لیاری رہے ، اسی طرح ملک محمد فیاض اور محمود ہاشم لیاری ٹاؤن کے ناظم اور محمد ریئسی ایڈمنسٹریٹر لیاری ٹاؤن رہے۔ عبدالشکور شاد رکن قومی اسمبلی رہے۔
بلوچ اتحاد تحریک کے قائد انور بھائی جان نے سیاسی و سماجی جدوجہد میں جان دیدی اور عابد حسین بروہی اس تحریک کے چیئرمین ہیں ، اسماعیل برہانی اور لالا فقیر محمد بلوچ کا نام بزرگ سیاست دانوں میں شمار ہوتا ہے، حبیب جان ، عثمان بلوچ ، خورشید محمد خان اور فرید اعوان ٹریڈ یونین لیڈرکی حیثیت سے نام ور ہیں۔
قانون دانوں میں جسٹس (ر) روشن علی شاہ ، جو سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے والد تھے اپنے اہل و عیال کے ساتھ لیاری میں سکونت پذیر رہے۔ اے کے بروہی ، ضیاء احمد اعوان ، اسماعیل بی اے ایڈوکیٹ ، شریف بلوچ ایڈوکیٹ ، اقبال بلوچ ایڈوکیٹ ، انور بلوچ ایڈوکیٹ اور دیگر شامل ہیں۔ سماجی رہنماؤں میں الحاج غلام محمد نور دین ، ہاشم میمن ، صالح محمد سرحدی ، شیر محمد رئیس ، عبدالمجید مندی ، صبیحہ شاہ ، دربی بی ، پروین ناز ، عبد الرحیم موسوی ، محمد عمر لاسی ، غلام نبی لاسی ، ناصر جمال ، ماسٹر جمیل احمد مراد اور دیگر بہت سارے نام۔
ادب میں بھی بے شمار نام ہیں جن میں سے صوفی شاعر بابا ملنگ شاہ ، بانل دشتیاری ، سید ظہور شاہ ہاشمی ، صدارتی ایوارڈ یافتہ محمد بیگ بیگل ، حضرت شاہ ، ن م دانش ، عمر جمالی ، استاد بھورل قصرکندی ، عباس زیمی ، اصغر آزگ ، وحید نور ، عبدالحلیم جوش ، محمد جمن ہالو ، اعجاز عقیلی ، صغر ہالو ، عصمت پٹیل ، زاہدہ رئیسی ، عمران ثاقب شامل ہیں۔ قرآن مجیدکا بلوچی زبان میں ترجمہ ممتاز عالم دین مولانا خیر محمد ندوی نے کیا، ممتاز عالم دین مولوی محمد عمر ، ملا عمر ، ملا زروک ، مولانا محمدعلی، مولانا مسعود اور دیگر شامل ہیں۔
1935 میں ناموس رسالت پر جان نچھاورکرنیوالے غازی عبدالقیوم۔ ماہر تعلیم میں پروفیسر علی محمد شاہین ، ملک محمد طوقی، پروفیسر صبا دشتیاری، پروفیسر رمضان بامری ، پروفیسر سراج الدولہ ، پروفیسر سلطان ٹیپو ، پروفیسر اختر بلوچ ، حسین بخش ہوت ، پروفیسر شکیل ہوت ، امیر بخش بلوچ ، موسیٰ بلوچ اور بے شمار اساتذہ کرام شامل ہیں۔ صحافی بھی لاتعداد ہیں جن میں اسرار عارفی ، صدیق بلوچ ، نادر شاہ عادل ، ڈاکٹر جبار خٹک ، غلام علی کاکا ، علیم الدین پٹھان ، لطیف بلوچ ، توقیر چغتائی ، نرگس بلوچ ، عباس جلبانی ، عارف بلوچ ، رفیق بلوچ ، سعید بلوچ ، حبیب بلوچ ، اکرم بلوچ ، شفیع بلوچ ، خالق زردان ، اکرم داد ، راقم الحروف ، انور احسن صدیقی ، اسلم صدیقی ، زرخان ، مصور علی اور دیگر شامل ہیں۔
دانشوروں میں اکبر بارکزی ، لعل بخش رند ، یوسف نسکندی ، نور محمد شیخ اور رحیم بخش آزاد سرفہرست ہیں۔ لکھاریوں کی بھی لمبی فہرست ہے جن میں رمضان بلوچ ، محمد ناصر سنگھار ، عبدالعزیز آسکانی ، اورنگ زیب ، حانی بلوچ ، عمیر رزاق ، حنیف ناشاد کے علاوہ دیگر بھی شامل ہیں۔ گلوکاروں کی تعداد بھی کافی ہے جن میں فیض محمد پشک ، عبدالعزیز بلوچ ، علی محمد ، سلمان شاہ ، جمن ، جاڑوک ، غلام جان ، شفیع بلوچ ، ستار بلوچ ، قادر بخش قادوک ، عبداللہ اڈو ، شریفہ سوتی ، زلیخہ ،قاسم آمین ، نور محمد نورل یونس جانی ، رفیق بلوچ ، عابد راز اور دیگر شامل ہیں۔
فنکاروں میں ساقی، ان کے بھائی عبد الکریم بلوچ ، پی ٹی وی کے سابق جنرل مینجر کا ابتدائی دور لیاری میں گزرا ہے۔ پہلی بلوچی فلم کے ہیرو انور اقبال ، نادرشاہ عادل ، نور محمد لاشاری ، موسیقار فیروز گل ، موسیقار فتح محمد نسکندی ، ہدایت کار صمد شیخ ، اداکاروں میں رحیم ، دانش بلوچ ، وقار بلوچ ، ولی رئیس ، شکیل مراد ، ساغر صدیقی، زبیر ٹھاکر ، سلیم بوس اور بہت سے شامل ہیں۔
ڈانسر علی اکبر ملنگ چارلی ، ابراہیم ڈاڈا ، عباس ، ابراہیم لچک قابل ذکر ہیں۔ بینجونواز عمر بلوچ ، مستانہ ، ممتاز سبزل ،عثمان بلوچ ، قادر بخش بلوچ اور دیگر۔ ممتاز فٹبالز میں کیپٹن عمر ، تراب علی ، غلام عباس ، عبد اللہ راہی ، یوسف سینئر ، یوسف جونیئر ، امین ، قادر بخش پتلا ، حسین کلر ، عبدالغفور مجنا ، محمود ڈھوک ، استاد دود ، علی نواز ، روشو ، اکبر ، تاج محمد ، لالو گینڈا ، ایوب ٹماں ، مولابخش مومن ، شفو ، مولا بخش گوٹائی ، جبار ، غفار ، تقی ، سرور ،گل محمد لاڑی ، خمیسہ ، غلام حسین اور رمضان لاسی کے نام قابل ذکر ہیں جب کہ فٹبال منتظم میں حاجی احمد خان ، اللہ بخش ، پیر بخش اور ناصرکریم نامور ہیں۔
باکسنگ میں خان محمد ، نذر محمد ، محمد حسین ڈگو ، عزیز بلوچ ،گل خاندان ، حسین شاہ ، مہر اللہ لاسی ،کریم بخش ، غلام نبی ، پرویز اقبال ،جان محمد ، شفیع بلوچ ، امین اور ملنگ بلوچ سمیت لاتعداد باکسروں نے عالمی اعزازات حاصل کیے۔ علاوہ ازیں فیض احمد فیض عبد اللہ ہارون کالج کھڈا لیاری کے اعزازی پرنسپل مقرر ہوئے۔ لیاری میں جواہر لال نہرو ، مجیب الرحمان ، مولانا بھاشانی ، محمود الحق عثمانی ، خان غفار خان ، جی ایم سید ، غوث بخش بزنجو ، پرنس محی الدین بلوچ ، ذوالفقار علی بھٹو ، بے نظیر بھٹو ، آصف علی زرداری ، بلاول بھٹو ، آصفہ بھٹو لیاری آئے اور جلسوں سے خطاب کیا۔
غرض کہ سیکڑوں بے افراد کے نام ایسے ہیں جو جگہ کی کمی کی وجہ سے کالم کی ان سطور میں نہیں لکھے جاسکتے ، وہ لیاری کے پیش کردہ مبالغہ آمیز مجرمانہ پس منظر کے خلاف بطور ثبوت پیش کیے جاسکتے ہیں جنھوں نے لیاری کی شناخت جرائم کے بجائے انسانیت ، علم دوستی اور فن لطیفہ کی بنیاد رکھی۔ لیاری کا نام ان جیسی شخصیات سے زندہ رہے گا۔