گاندھی کے پوتے سے مکالمہ اورمبارک علی

راج موہن گاندھی صاحب کا انداز گفتگو اتنا دھیما اور شفقت بھرا تھا کہ ان کی سختی بھی نرمی محسوس ہوئی


خرم سہیل March 03, 2014
[email protected]

کچھ عرصہ پہلے مہاتماگاندھی کے پوتے ''راج موہن گاندھی'' پاکستان تشریف لائے، انھوں نے پاکستانی ذرایع ابلاغ کے نمایندوں سے گفتگو بھی کی۔ یہ گفتگو چینلوں پر نشر ہوئی، اخبارات اور رسائل و جرائد نے بھی ان سے مکالمہ کیا، مگر مجھے تشنگی محسوس ہوئی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی، ان سے مکالمہ کرنے والوں کی اکثریت کا تعلق انگریزی میڈیم سے تھا۔ نہ جانے کیوں اردو والوں نے ان سے مکالمہ نہیں کیا، بہرحال میں نے ان سے قارئین کے لیے گفتگو کرنے کا یہ موقع حاصل کیا۔ یہ تمام باتیں یہاں بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان سے گفتگو کس ماحول میں ہوئی، اسے پڑھتے ہوئے یہ نکات آپ کے ذہن میں ہوں۔

راج موہن گاندھی پیشے کے لحاظ سے صحافی، مورخ اور سوانح نگار ہیں۔ انھوں نے مختلف موضوعات کو قلم بند کیا، جیسے جنوبی ایشیا کی سیاسی تاریخ، ہندوؤں اور مسلمانوں کا موازنہ، 1857 کی جنگ آزادی وغیرہ۔ اسی طرح معروف شخصیات کی زندگی کو بھی کتابی صورت میں رقم کیا، ان میں مہاتما گاندھی، سردار پٹیل، چکروتی راجا گوپال چاری اور غفار خان شامل ہیں۔ ان کی تازہ ترین کتاب کا نام ''پنجاب'' ہے، جس میں انھوں نے مغلوں کے ادوار، انگریزوں کا دور اور تقسیم کے وقت ہونے والے فسادات کے تناظر میں اس خطے کی تاریخ کو نئے پہلوؤں سے لکھنے کی کوشش کی ہے۔ اس کتا ب کے حوالے سے میں نے ان سے کچھ سوالات کیے، جن میں سے چند ایک سخت بھی تھے، لیکن انھوں نے اپنی روایتی سادگی اور حسن سلوک کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہایت تحمل اور بردباری سے جوابات دیے۔

میرا ایک سوال یہ تھا ''پنجاب'' کی تاریخ پر بہت کچھ لکھا جاچکا اور پاکستان ہندوستان سے کافی مورخین اس موضوع پر کتابیں لکھ چکے ہیں پھر آپ کو کیوں ضرورت پیش آئی؟'' اس کے جواب میں انھوں نے کہا۔ ''میری بیٹی جو کہ خود بھی دانشور ہے، اس نے بھی مجھ سے یہ سوال کیا تھا کہ آپ اتنے پرانے اور ایسے موضوع پر کیوں لکھ رہے ہیں، جس پر اتنا کچھ پہلے سے ہی لکھا جاچکا ہے۔ میں نے اسے بھی یہی جواب دیا، میں نے یہ سوچ کر اس کتاب کو لکھا کہ دونوں ممالک کے درمیان جو غلط فہمیاں پیدا ہوئیں، وہ دور ہوں، خاص طور پر تقسیم کے وقت پنجاب میں جو فسادات ہوئے، اس میں بہت لوگ ناحق مارے گئے، یہ نہیں ہونا چاہیے تھا، مگر ایسا ہوا، میری یہ کوشش ہے، اس کتاب کے ذریعے کسی ایک فریق کو دوش دینے کے بجائے حقایق بیان کروں، تاکہ غلط فہمیاں ختم کی جاسکیں۔''

راج موہن گاندھی صاحب کا انداز گفتگو اتنا دھیما اور شفقت بھرا تھا کہ ان کی سختی بھی نرمی محسوس ہوئی، جب میں نے ان سے یہ پوچھا ''ایک عام خیال ہے کہ تقسیم کے وقت سکھوں کو بھڑکانے والے ہندو تھے اور ان کے ہاتھوں نقصان اٹھانے کے بعد مسلمانوں کا ردعمل آیا، جس سے فسادات کی آگ مزید بھڑکی۔ آپ اس خاندان کے چشم و چراغ ہیں، جس نے اس وقت اس خطے کی قسمت کا فیصلہ کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟'' راج موہن گاندھی نے اس کا جواب بہت سادہ لیکن گول مول دیا ''کسی ایک فریق کو دوشی قرار دینے کے بجائے ہمیں غلط فہمیوں کو ختم کرنا چاہیے''۔ اس جواب پر پھر میرا یہ سوال تھا، اگر دونوں ممالک کے درمیان غلط فہمیاں ختم کرنا آپ کا مقصد تھا تو آپ نے آدھا کام کیا۔ ممکن ہے ہندوستانیوں کی غلط فہمیاں ختم ہوجائیں، مگر پاکستانیوں کے درد کا علاج اس کتاب میں نہیں ہے کیونکہ اس کو آپ نے اسے انگریزی زبان میں لکھا ہے، ہمارے ملک میں اس زبان میں پڑھنے والے محدود ہیں، پاکستانی عوام کی ایک بڑی تعداد اردو زبان میں پڑھنے والوں کی ہے نہ کہ انگریزی، اس لیے ان خیالات کی ترسیل وسیع پیمانے پہ نہیں ہوسکے گی۔

اس سوال کے جواب میں انھوں نے میرے ہی سر پر اس ذمے داری کی گٹھری رکھ دی ''آپ اردو زبان میں تصنیف و تالیف کا کام کرتے ہیں، تو آپ ہی یہ کام کیوں نہیں کرتے؟ میری طرف سے اجازت ہے۔'' اب میں جواب میں کیاکہتا، لہٰذا کچھ مہلت مانگی کہ سوچ کر فیصلہ کروں گا۔ اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا مجھے اس کتاب کا ترجمہ اردو میں کرنا چاہیے تاکہ مہاتما گاندھی کے پوتے کی لکھی ہوئی تاریخ، بالخصوص تقسیم کے وقت پنجاب میں ہونے والے فسادات کی حقیقت کھل کر سامنے آئے اور صحیح حقائق جاننے میں مدد ملے۔ آخر ہمیں بھی پتاچلنا چاہیے کہ بھارت کی موجودہ نسل اب تاریخ کو کس طرح سوچ اور دیکھ رہی ہے اور کیا ہم دونوں ممالک تاریخ سے کوئی سبق سیکھ کر کسی افہام و تفہیم کے نکتے پر پہنچے ہیں کہ نہیں۔ مجھے آپ کے مشورے کا انتظار رہے گا۔

راج موہن گاندھی نے اپنی کتاب ''پنجاب'' کو لکھنے کے لیے زندگی کے کئی برس صرف کیے۔ اس کے لیے متعدد بار لاہور بھی آئے اور مختلف لائبریریوں سے استفادہ کیا۔ نہ صرف بھارت بلکہ پاکستان کے بھی کئی لکھنے والوں کے حوالے کتاب میں دیے اور اسے مکمل کیا۔ کتاب کے حواشی میں انھوں نے تمام تفصیل بھی درج کردی ہے۔ یہ بہت مثبت طرز فکر ہے جس کا مظاہرہ انھوں نے کیا، صرف یہی نہیں بلکہ انھوں نے کئی مرتبہ ہمارے ملک کے بارے میں مثبت لکھا اور خان عبدالغفار جیسی شخصیت پر بھی لکھنے کے لیے قلم اٹھایا، جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ انھیں مجموعی حیثیت میں اس خطے سے عقیدت ہے، جو تقسیم ہونے کے بعد پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں تقسیم ہوگیا۔

انھوں نے دوران گفتگو مجھے اپنے ننھیال کے بارے میں بھی مفید معلومات دیں، ورنہ ہمارے ذرایع ابلاغ میں ان کا حوالہ صرف مہاتما گاندھی یعنی ددھیال ہی کے حوالے سے سنائی دیتا رہا۔ راج موہن گاندھی کے نانا بھی برصغیر کی معروف سیاسی شخصیت تھے۔ ان کا نام ''چکروتی راج گوپال چاری'' تھا اور یہ متحدہ ہندوستان کے آخری گورنر جنرل تھے۔ تقسیم کے بعد یہ مدراس کے وزیر اعلیٰ رہے اور مغربی بنگال کے گورنر بھی رہے۔ ان کے خاندان نے راج موہن گاندھی سے کہا کہ ''آپ اپنے نانا کی سوانح حیات لکھیں گے، کیونکہ آپ وہی لکھیں گے، جو حقیقت ہوگی۔''

اپنے نانا کی سوانح عمری لکھنے کے بعد را ج موہن گاندھی صحافی سے سوانح نگار بن گئے، یوں شخصیات کی زندگیوں کو کھنگالتے ہوئے انھیں تاریخ سے رغبت ہوگئی اور یہ اس دھرتی کے مورخ بھی ہوگئے۔ میں نے ان سے بہت سارے سوالات پوچھے، ان سب کو یہاں لکھنا ممکن نہیں، مگر ان سے جو آخری سوال پوچھا، وہ بھی بہت معلوماتی سوال ہے کہ کسی سوانح نگار کے لیے سب سے لازمی کیا شے ہوتی ہے؟ اس کا جواب انھوں نے دیا کہ ''اس کے لیے دو چیزیں ضروری ہوتی ہیں۔ پہلی یہ کہ جس کے بارے میں لکھ رہا ہے، اس سے محبت نہیں تو کم ازکم انسیت تو ہونی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے متعلقہ شخصیت پر تنقید کرنے کی بھی آزادی ہونی چاہیے۔''

اورنگزیب عالمگیر کے زمانے سے ماؤنٹ بیٹن تک کے زمانے کی تاریخ کو نئے زاویے سے لکھنے والے راج موہن گاندھی کی شخصیت انتہائی سادہ ہے، لیکن علمی طور پر وہ قد آور شخصیت ہیں۔ لوگ ان کی نئی کتاب ''پنجاب'' کی تقریب رونمائی کے بعد جب کتاب پر دستخط حاصل کرنے کے خواہش مند قطار بنا کر کھڑے ہوئے، تو ان میں مستنصر حسین تارڑ جیسے ادیب بھی شامل تھے، جنہیں یہ بھی خوشی تھی کہ راج موہن صاحب نے اپنی نواسی کے لیے ان کی دو کتابیں خریدی ہیں اور تارڑ صاحب کے بقول ''اس بہانے میری کتابیں ان کے گھر میں تو جائیں گی۔'' راج موہن گاندھی صاحب کو پاکستان کا دورہ کرکے یہ اندازہ تو ہوگیا، ہم پاکستانی کتنے کشادہ دل ہیں، بلکہ انھوں نے اس کا برملا اظہار بھی کیا ''میں جانتا ہوں کہ پاکستانی بالخصوص نئی نسل محبت کرنے والی ہے۔''

کاش کبھی میری آنکھیں ایسا منظر بھی دیکھیں کہ ہم اپنے ملک میں، اچھا لکھنے والے کے لیے ایسے ہی قطار بنائیں اور ان سے عقیدت کا اظہار کریں۔ کاش ہم اپنے ملک کے ایک تاریخ دان اور دانش ور ڈاکٹر مبارک علی کی قدر بھی ایسے ہی کریں، جیسے راج موہن گاندھی کی قدر کی۔ ڈاکٹر مبارک علی نے بھی برصغیر کی تاریخ، اس خطے کے مختلف ادوار اور شخصیات کی تاریخ، مختلف نظریات کی تاریخ سمیت اتنے پہلوؤں سے تاریخ پر کام کیا ہے، مگر نئی نسل سے کتنے لوگ ہیں، جنہیں ان کے کام کی خبر ہے؟

ڈاکٹر مبارک علی اب تک 50 سے زاید کتابیں لکھ چکے ہیں، کئی زبانوں پر عبور رکھتے ہیں، جن میں جرمن زبان سرفہرست ہے۔ چند برس پہلے جب میں نے ان سے بھی مکالمہ کیا اور پوچھا کہ آپ نے اپنی ساری زندگی تاریخ کے لیے ہی کیوں وقف کردی؟ تو ان کاجواب تھا۔ ''میں نے عام آدمی کے لیے تاریخ لکھی۔'' شاید یہی وجہ ہے کہ خواص نے ان کو زیادہ اہمیت نہیں دی اور عوام شاید ان کی خدمات اور قربانی سے ہی بے خبر رہے۔

ایک شخص نے اپنی ساری زندگی ایک شعبے، مضمون اور سب سے بڑھ کر اپنی سرزمین کے لیے وقف کردی، جس ادبی میلے میں راج موہن گاندھی سے دستخط لینے کے لیے لوگ قطار بنائے کھڑے تھے، اسی ادبی میلے میں ڈاکٹر مبارک علی بھی موجود تھے، مگر انھیں سوائے چند لوگوں کے کسی نے نہیں پہچانا، کیوں؟ کیا ڈاکٹر مبارک علی کا پاکستانی ہونا قصور ہے یا پھر ہم وہ مہذب قوم نہیں، جن کے ہاں اپنے عالموں کی قدر کی جاتی ہے۔ افسوس، صد افسوس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں