مایوسیوں اور نااُمیدیوں کا راج
بے روزگاری کی شرح کا گراف ہر روز بلند سے بلند تر ہوتا رہا
یہ لاہور کا ایک معروف اشاعتی ادارہ ہے۔ مال روڈ کے عقب میں واقع اور صفاں والے چوک سے متصل اس کا مرکزی دفتر ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ یہ فکرِ جدید اور ترقی پسندی کی حامل کتابیں شائع کرتا ہے۔ اسی ادارے کے تحت ایک ماہنامہ جریدہ بھی شائع ہوتا رہا ہے۔
اس میں سوشلزم، مزدور کی عظمت، انسانی جدوجہد اور سماجی مساوات کی برکات کی تبلیغ کی جاتی تھی۔ رانا عبدالرحمن صاحب اور سرور صاحب اس ادارے کے سربراہان ہیں۔ لاہور کی کئی علمی شخصیات، مشہور مصنفین اور مایہ ناز دانشور ہستیوں سے ملاقات کا شرف راقم کو یہیں ملا ہے۔
ڈاکٹر مبارک علی صاحب ایسے قابلِ فخر پاکستانی مورخ سے بار بار ملنے اور اُن کے زیر ادارت شائع ہونے والے تحقیقی جریدے (تاریخ) سے اولین ایام میں متعارف ہونے کا اعزاز بھی رانا عبدالرحمن کے توسط سے ہُوا۔ نئی کتابوں کے ٹھرک کی تسکین کے لیے یہاں حاضر ہونا ہماری مجبوری ہی سمجھ لیجیے۔ چند دن پہلے رانا عبدالرحمن سے اُن کے ادارے میں ایک بار پھر تفصیلی نشست ہُوئی۔
مَیں نے پوچھا : ''رانا صاحب، اِس سال آپ کی کونسی کتاب سب سے زیادہ فروخت ہُوئی ؟''۔ چند لمحوں کے لیے ٹھٹھک کر خاموش رہے اور پھر ایک آنکھ میچتے ہُوئے بولے: '' آپ کو تقریباً ایک گھنٹہ یہاں بیٹھے گزر گیا ہے۔ آپ نے خود دیکھا لیا ہوگا کہ اس دوران کتنے گاہک آئے؟ بس اِسی سے اندازہ لگا لیں کہ پورا سال کتنی کتابیں فروخت ہُوئی ہوں گی اور ان میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب کی تعداد کتنی ہوگی؟۔'' رانا صاحب کے لہجے میں مایوسی تھی۔
کتابوں کا کاروبار کرنے والے ہمارے اس علم دوست کے لہجے میں بین السطور مایوسی اور نااُمیدی کی واضح جھلک دکھائی دی۔ اس مایوسی کو اگرچہ انھوں نے شدید گرمی، عمران خان کے احتجاجی جلوس، کورونا کی مہلک وبا اور کمر شکن مہنگائی میں ملفوف کرنے کی کوشش تو کی لیکن اُن کے لہجے پر چھائی مایوسی کی دبیز دھند کو چھپایا نہیں جا سکا تھا۔ جو مایوسی اور نااُمیدی ہمارے مذکورہ کتاب دار دوست کے لہجے اور گفتگو پر غالب تھی، آج مایوسی اور نااُمیدی کا یہ راج پورے ملک پر ہے۔ ملکی اکثریت مایوسی اور بے یقینی کے اس کمبل کی لپیٹ میں آ چکی ہے۔
اور یہ کمبل ہماری جان چھوڑنے کے لیے فی الحال تیار نہیں ہے۔ اس کی گرفت اور بُکل آہنی ہے۔ پوری ریاست اس کے سامنے ڈھیر ہو چکی ہے۔ جب ہمارے سابق اور موجودہ وزیر اعظم صاحب غیر مبہم اور کھلے الفاظ میں یہ اقرار و اعتراف بار بار کرتے سنائی دیتے ہیں کہ '' ملکی معیشت دگر گوں ہے '' تو اس اجتماعی مایوسی اور نااُمیدی کی وحشت و ہیبت مزید بڑھ جاتی ہے۔
یاد آتا ہے کہ تقریباً چار سال قبل جب سابق وزیر اعظم جناب عمران خان نے وزارتِ عظمیٰ کا حلف اُٹھایا تھا تو ووٹروں کی اکثریت نے اُن کے ساتھ کتنی بلند اُمیدیں وابستہ کر لی تھیں۔ ان اُمیدوں کو بڑھاوا دینے اور پھیلانے میں عمران خان صاحب نے ہمیں بڑے بڑے خواب دکھائے تھے۔
خود ہم نے کس قدر ذوق و شوق کے ساتھ، مسرت سے جھومتے ہُوئے، عمران خان اور پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تھا۔ مجھے یاد پڑتا ہے2018 میں جس روز عام انتخابات کا ڈول ڈالا جارہا تھا، مجھے دل کا سخت عارضہ لاحق تھا۔
موسم بھی بے حد ناگوار اور حبس زدہ تھا۔ اس کے باوجود مگر مَیں نے اہلیہ محترمہ کے ساتھ پولنگ بوتھ پر جانے کا فیصلہ کیا۔ راستے میں بار بار اپنی مسز سے گزارش کرتا رہا کہ احتیاط سے ووٹ پی ٹی آئی کو ڈالنا، کوئی ایسی غلطی نہ کرنا کہ ووٹ ضایع ہو جائے۔ پولنگ بوتھ پر مَیں بے حال سا لائن میں کھڑا تھا۔ اچانک وہاں کھڑا فوجی جوان میرے پاس آیا اور میری حالت دیکھ کراز راہِ ہمدردی کہنے لگا: ''آپ اندر کمرے میں آ جائیں اور ووٹ پہلے کاسٹ کرلیں'' ۔ اُس فوجی جوان کا شفیق اور مہربان چہرہ اب تک فراموش نہیں کر سکتا۔
اور جس روز جناب عمران خان نے بلند آدرشوں اور خوابناک اعلانات کے درمیان وزارتِ عظمیٰ کا حلف اُٹھایا تھا، ہم سب کی خوشی دیدنی تھی۔ اُس دن رات گئے مجھے نیویارک سے میرے کئی دوستوں کے فون آئے۔ ہم نے خوشی خوشی خان صاحب کی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے تھے۔ اور آج پونے چار سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے بعد وہی میرے نیویارکر دوست بھی ہماری طرح گہری مایوسی اور نااُمیدی کا اظہار کر رہے ہیں۔
افسوس اور دکھ کے سایوں میں ہم سب ایک دوسرے سے سوال کر رہے ہیں کہ خان صاحب کے دَور میں ہماری ساری اُمیدیں اور خوشیاں کیسے خس و خاشاک کی طرح بہہ گئیں؟ بے شمار تبدیلیوں کے وعدے کیے گئے تھے لیکن ایک بھی بڑی تبدیلی دیکھنے کو نہ مل سکی۔ نوکریاں ملیں نہ مکان۔ نوکریاں فراہم کرنے کے بجائے لوگوں سے نوکریاں چھینی گئیں۔
صحافت اور صحافیوں کا گلہ گھونٹا گیا۔ بے روزگاری کی شرح کا گراف ہر روز بلند سے بلند تر ہوتا رہا۔ ذرائع آمدنی پھیلنے اور بڑھنے کے بجائے سکڑے اور سمٹے ۔ اور ستم ظریفی یہ ہے کہ خان صاحب اور اُن کے جملہ ہمنوا کورس کی شکل میں نغمہ سرا رہے کہ لوگوں کے ذرایع آمدنی بڑھ رہے ہیں۔ اور یہ کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان دُنیا کا سستا ترین ملک ہے ۔ اسے ہی شاید دراصل ستم ظریفی کہا جاتا ہے !
یہ سوچ کر دل دہل دہل جاتا ہے کہ ہمارے خان صاحب نے اپنے پونے چار سالہ اقتدار کے دوران غریب عوام کے حق میں وہ کونسا ایسا اقدام کیا جو آج قابلِ فخر اور قابلِ ذکر قرار دیا جا سکے؟ ایسا اقدام جس نے عوام کی اکثریت میں اُمیدوں کے کچھ چراغ روشن کیے ہوں؟ کوئی ایسا فیصلہ جس نے عوام میں حوصلہ مندی کے آثار نمایاں کیے ہوں؟ پورا ملک ایک گہری اداسی اور مایوسی کی دھند میں لپٹا پڑا رہا۔ یہ احساس قوم کے حواس پر سیاہ بادلوں کی طرح چھایا رہا کہ ہمارے پاس کچھ نہیں رہا اور اس کے واحد ذمے دار تبدیلی کا نعرہ لگانے والی ایک اکیلی شخصیت تھی۔
اب آہستہ آہستہ دل شکن حقائق میڈیا میں سامنے آ رہے ہیں کہ خان صاحب کے دَورِ حکومت میں پنجاب کی بیوروکریسی میں ہزاروں تبادلے اور اکھاڑ پچھاڑ مبینہ طور پر ذاتی منفعت کے لیے کیے گئے۔ تحقیقی میڈیائی رپورٹیں سامنے آ رہی ہیں کہ جناب عمران خان کے دَور میں اسلامی جمہوریہ پاکستان خود تو معاشی اعتبار سے کمزوری کی دلدل میں گر گیا لیکن خان صاحب کے کئی وفاقی وزرا کی آمدنیوں اور اثاثوں میں 70فیصد سے ساڑھے تین سو فیصد تک اضافہ ہُوا۔ ان تحقیقات کی ابھی تک خان صاحب کے وزرا کی طرف سے تردید نہیں آ سکی ہے۔
غریب اور کمر شکن مہنگائی کے مارے عوام یہ سُنتے، دیکھتے اور پڑھتے ہیں تو اُن کی مایوسیاں مزید بڑھ جاتی ہیں۔ پچھلے چند دنوں سے جناب عمران خان کی قیادت میں احتجاج نے پنجاب اور وفاقی دارا لحکومت میں جو مناظر پیدا کر رکھے ہیں، ان سے ایک عام آدمی کی زندگی مزید اجیرن ہوگئی ہے۔
اسلام آباد اور کراچی میں خان صاحب کے عشاق آتش زنی کے مرتکب بھی پائے گئے۔ طلبا کے کئی امتحانات ملتوی ہو گئے ہیں اور تعلیمی ادارے بھی مقفل کر دیے گئے ۔ جن کی دولت اور اثاثوں میں پچھلے پونے چار برسوں کے دوران بے تحاشہ اضافہ ہُوا ہے ، انھیں اور اُن کی اولاد کو تو احتجاجات زدہ اس فضا سے کوئی گزند نہیں پہنچ رہا ۔ بس اس ملک کا غریب اور اُس کے لاچار بچے مارے جا رہے ہیں ۔