ضلع کچہری پر حملہ سکیورٹی اقدامات کے حکومتی دعوؤں کا پول کھل گیا

اب بات چیت کے ذریعے امن کے متلاشی دونوں فریقوں کے لئے یہ صورتحال کسی امتحان سے کم نہیں کہ انھوں نے محدود وقت کے۔۔۔


فیاض ولانہ March 05, 2014
اب بات چیت کے ذریعے امن کے متلاشی دونوں فریقوں کے لئے یہ صورتحال کسی امتحان سے کم نہیں کہ انھوں نے محدود وقت کے اندر آگے بھی بڑھنا ہے۔ فوٹو: فائل

وفاقی دارالحکومت کے سیکٹر ایف ایٹ میں واقع ڈسٹرکٹ کورٹس کے احاطے میں ہونے والی فائرنگ اور دہشتگردی کے واقعے نے نہ صرف اسلام آباد اور وفاقی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا بلکہ پاکستان بھر کے عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ اگر اسلام آباد جیسے ملک کے جدید ترین اور بظاہر محفوظ ترین شہر میں سکیورٹی کے انتظامات اس قدر ناقص ہیں تو پھر پاکستان بھر کے دیگر شہروں میں عام آدمی کے لئے رہنا کس قدر مشکل ہوگا اور تمام تر حکومتی دعوؤں کے باوجود ان کے جان و مال کہاں محفوظ تصور کئے جا سکتے ہیں۔

اسلام آباد کچہری میں ہونے والے اس واقعے پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے مگر اب جبکہ ہم ملک سے انتہا پسندی اور دہشتگردی کو ہمیشہ کے لئے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں مخالفت کے باوجود تاریخ کے اس اہم موڑ پر حکومت پاکستان کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ بات چیت کے ذریعے امن کے حصول کی راہیں تلاش کر رہی ہے، ایسے میں اگر کوئی بیرونی یا اندرونی تیسرا یوں بلا خوف وخطر وفاقی حکومت کی ناک کے نیچے کاروائی کرکے چلا جائے اور ہمارے وزیر داخلہ چوہدری نثار اپنی نااہل انتظامیہ کے ساتھ محض لکیر پیٹتے رہ جائیں تو پھر ہمارے محترم وزیرا عظم نواز شریف کو از سر نو اپنی منصوبہ بندی کا جائزہ لینا ہوگا۔

انہیں وزیر داخلہ چوہدری نثار کے نیشنل کرائسز مینجمنٹ سیل کے سربراہ طارق لودھی کی جانب سے چند یوم قبل پیش کی گئی اس حقیقت پسندانہ رپورٹ کا از سر نو جائزہ لینا ہوگا بلکہ طارق لودھی کو اپنے آفس بلا کر براہ راست بریفنگ لینا چاہئے۔ ان حقائق کو نظرانداز کرنے کا انجام تو ہم نے پہلے ہی دیکھ لیا ہے جس میں وزارت داخلہ کے اس ذیلی ادارے نے ذمہ دار حکام اور میڈیا کے ذریعے پاکستان بھر کے عوام کو بتا دیا تھا کہ وفاقی دارالحکومت میں انتہا پسندی کی راہ پر چلنے والوں کے سلیپر سیل موجود ہیں۔ اسلام آباد قطعی طور پر ایک محفوظ شہر نہیں۔ ہمارے انتہائی فعال نظر آنے والے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے اس رپورٹ کو حقائق کے منافی قرار دینے سے قطعاً دیر نہ کی اور اگلے روز ہی قومی اسمبلی میں سکیورٹی انتظامات کے حوالے سے بلند و بانگ دعوے کر ڈالے۔

وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان انتہائی سینئر سیاستدان ہیں یہاں وہ اپنی کارکردگی کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی حکومت کی ساکھ کو بھی داؤ پر لگائے بیٹھے ہیں۔ سکیورٹی انتظامات کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ اسلام آبادکی ضلعی انتظامیہ اور سی ڈی اے کو بھی آوٹ آف دی باکس سوچ کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوری طور پر اسلام آباد کچہری کو مناسب اور محفوظ جگہ پر منتقل کرنے کے لئے ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے کہ دنیا کے کسی بھی دارالحکومت کی ڈسٹرکٹ کورٹس یوں کریانہ کی دکانوں میں قائم نہیں ہوتیں اور ہمارے اسلام آباد میں تو یہ ایک مدت سے اسی کسمپرسی سے دوچار ہیں ۔ لیکن اب پاکستان کی جگ ہنسائی بہت ہو چکی، حکومت پاکستان کی طاقتور ترین بیورکریسی اور سفارت کاروں کے اس شہر کے عین وسط میں قانون کو ہاتھ میں لینے والوں کو خون کی ہولی کھیلنے کی اب مزید چھوٹ نہیں دی جاسکتی۔



ادھر وزیر اعظم نوازشریف طالبان کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنے کی اپنی پر خلوص کوشش کو بھی آگے بڑھانے کے لئے اپنے مذاکرات کاروں کی صلاحیتیں آزمانے کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں۔ طالبان کی جانب سے اعلان کی گئی ایک ماہ کی جنگ بندی بلاشبہ ایک خوش آئند عمل ہے اور جوابی طور پر حکومت پاکستان کا واضح اعلان کہ اگر کوئی دہشتگردی کی کاروائی نہ کی گئی تو قانون نافذ کرنے والے سرکاری ادارے بھی کوئی جوابی کاروائی نہ کریں گے اسے بھی مستحسن فیصلہ کہا اور مانا جا رہا ہے۔ اب بات چیت کے ذریعے امن کے متلاشی دونوں فریقوں کے لئے یہ صورتحال کسی امتحان سے کم نہیں کہ انھوں نے محدود وقت کے اندر آگے بھی بڑھنا ہے اور دونوں فریقین کی اپنی جگہ موجود رٹ یا حیثیت کو چیلنچ کرنے والے امن دشمنوں سے بھی نمٹنا ہے۔

اس نازک مرحلے پر وزیر اعظم نوازشریف اپنے سیاسی مخالفین کو فیصلہ سازی میں شریک رکھنے کے لئے اعلانیہ یا غیر اعلانیہ آل پارٹیز کانفرنس بھی بلاسکتے ہیں اور فردا فردا ملاقاتیں کرکے بھی ان سے رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں کہ اس سے پوری قوم کو یہ تاثر ملے گا کہ وزیرا عظم اور ان کی حکومت کوئی بھی فیصلہ تن تنہا نہیں کر رہی ہے۔ اس کے بعد بھی اگر حکومت پاکستان کو بادل نخواستہ آپریشن کرنے کی ضرورت پڑتی ہے تو اس پر کسی کو اعتراض ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔

جنگ بندی کے اس دوطرفہ اعلان کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اپریل کے پہلے ہفتے افغانستان میں صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں اور ا گر پاکستان نے پاک افغان بارڈر کے قریب وزیرستان کے علاقے میں انتہا پسندوں کے خلاف آپریشن کیا تو امکان ہے کہ دہشتگرد عناصر افغانستان میں داخل ہونے کی کوشش کریں گے۔ امریکی حکام یہ بات ماننے کو تیار نہیں کہ انھوں نے حکومت پاکستان سے اپنا آپریشن ملتوی کرنے کے لئے کہا ہے مگر دوسری طرف انتہا پسندوں کو بھی معلوم ہے کہ افغانستان میں صدارتی انتخابات کے موقع پر سرحدی علاقوں میں آزادانہ نقل وحرکت ممکن نہ ہوگی اس لئے ان کے لئے بھی شاید یہی بہتر تھا کہ وہ جنگ بندی کا اعلان کردیں ۔ جنگ بندی کی وجہ کچھ بھی ہو حکومت پاکستان کو چاہئے کہ وہ مذاکرات کی کامیابی کے لئے اپنی پرخلوص کوششیں جاری رکھے لیکن اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو آپریشن کے لئے بھی بھرپور تیاریاں جاری رکھی جائیں ۔آپریشن کی تیاریوں میں انتہا پسندوں کو پوری قوت سے کچلنے کے ساتھ ساتھ ممکنہ طور پر بے گھر ہونے والی شہری آبادی کو رہائش، خوراک اور دیگر سہولیات فراہم کرنے کے لئے ضروری انتظامات بھی کرنا ہیں۔

وزیر اعظم نواز شریف گزشتہ ہفتے اپنے اعلان کردہ یوتھ بزنس لون کی کامیابی کے منصوبے بنا رہے تھے مگر اب انہیں امن وامان کی صورتحال کی بہتری کے لئے اقدامات کرنے پر توجہ دینا پڑ رہی ہے ۔ ضروری ہے کہ نواز شریف وزیر اعظم یوتھ پروگرام کی کامیابی کے لئے ممکنہ اقدامات سے اپنی توجہ ہرگزنہ ہٹا ئیں کیونکہ ان کی حکومت کے پاس عوامی فلاح وبہبود کے لئے اعلان کیا جانے والا یہ واحد پروگرام ہے۔ توانائی بحران کے خاتمے کے لئے کی جانے والی کوششیں اور اقتصادی میدان میں بتائے جانے والے اعدادوشمار میں بہتری کا تمام تر انحصار امن و امان کی صورتحال پر ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور وزیر اعظم یوتھ پروگرام کی چیئرپرسن مریم نواز شریف کو امن وامان کی خراب صورتحال میں سر پکڑے بیٹھے رہنے کی بجائے پہلے سے زیادہ محنت کرنا ہوگی کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی کارکردگی کا گراف بہتر بنانے میں وہی وزیر اعظم نوازشریف کے لئے کار آمد ثابت ہوسکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں