عمران خان نے دھرنا کیوں نہیں دیا۔ کہانیاں ہی کہانیاں
دوستوں کی رائے ہے کہ یہ بھی قبل از وقت انتخابات کا ہی اشارہ ہے
عمران خان نے دھرنا کیوں نہیں دیا۔ یہ معمہ عوام سے اب تک حل نہیں ہو رہا۔ لوگ اپنی اپنی سیاسی پسند اور نا پسند کی روشنی میں اس کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
میں نے گزشتہ روز بھی لکھا کہ عمران خان کا دھرنا نہ دینا ایک بہترین سیاسی فیصلہ تھا۔ وہ دھرنا دیکر پھنس سکتے تھے۔ اس لیے مجھے اس میں کسی بھی قسم کی کوئی سازش یا بیک چینل ڈپلومیسی نظر نہیں آتی۔ تاہم اس وقت ملک میں بہت سی کہانیاں گردش کر رہی ہیں۔
تحریک انصاف کے حامی یہ مان رہے ہیں کہ عمران خان نے قبل از وقت انتخابات کی بہت ہی مضبوط گارنٹی کی وجہ سے دھرنا نہیں دیا۔ تحریک انصاف کے دوست اس حد تک بات کر رہے ہیں کہ عمران خان کا اگلا چھ دن کا الٹی میٹم بے وجہ نہیں ہے۔
کچھ کی رائے میں وزیر اعظم شہباز شریف نے اسمبلیاں تحلیل کرنے کی سمری دستخط کر کے صدر عارف علوی کے پاس رکھوا دی ہے۔ اور چھ دن بعد صدر اسمبلیاں توڑ دیں گے۔ اس لیے کھیل صرف چھ دن کا ہی رہ گیا ہے۔ اس تھیوری میں وزن ڈالنے کے لیے یہ بات بھی کی جا رہی ہے کہ کچھ غیر ملکی حکمران گارنٹر ہیں کہ اسمبلیاں ٹوٹ جائیں گی اور قبل از وقت انتخابات ہو جائیں گے۔
اتنی بڑی عالمی گارنٹیوں کی وجہ سے ہی عمران خان نے دھرنا نہیں دیا۔ میری رائے میں تو یہ سب غلط ہے۔ ایسی کوئی گارنٹی عمران خان کو نہیں ملی ہے۔ لیکن لوگ اس پر قائم ہیں اور وہ نہیں مان رہے۔ اس لیے بہت سے قریبی دوست بھی مجھے غلط کہہ رہے ہیں۔ میں ان سے یہی کہہ رہا ہوں کہ چلیں چھ دن بعد بات کر لیں گے۔
اسی طرح عمران خان کی جانب سے دھرنا نہ دینے کے اعلان کے بعد حکومت نے ایک ہی دن میں بہت ساری انتخابی اصلاحات کر لیں۔ ای وی ایم ختم کر دی گئی ہیں۔ اوور سیز کا ووٹ بینک بھی ختم کر دیا گیا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح عمران خان نے تمام انتخابی اصلاحات ایک دن ہی نہیں بلکہ چند منٹ میں کر لی تھیں۔ اسی طرح حکومت نے ایک ہی دن میں ان تمام انتخابی اصلاحات کو ختم کر دیا ہے۔ دوست ان انتخابی اصلاحات کے ایک دن میں ہونے کو بھی اسی بات سے ہی جوڑ رہے ہیں کہ ملک میں قبل ازوقت انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ اسی لیے حکومت کو ان انتخابی اصلاحات کی اس قدر جلدی تھی۔
ورنہ کل کے ہی دن میں ایک ہی دن میں یہ سب انتخابی اصلاحات کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ شاید ان انتخابی اصلاحات کا کل ہی کرنے کا بھی ملک میں قبل از وقت انتخابات سے کوئی تعلق نہیں۔ اس سے پہلے حکومت نے ایک ہی دن میں الیکشن کمیشن کے بھی دو نئے ممبر نامزد کیے ہیں تا کہ الیکشن کمیشن مکمل کیا جا سکے۔ لیکن دوست اپنی کہانی کو مضبوط کرنے کے لیے اس قانون سازی کو بھی استعمال کر رہے ہیں۔
وہ تمام قوانین جو عمران خان نے یک طرفہ طور پر بنائے تھے انھیں ختم کر دیا گیا۔ اگر عمران خان کی حکومت یا کسی اور جگہ ملک میں قبل ازوقت انتخابات کے لیے کوئی بات چیت ہو رہی ہوتی تو کم از کم یہ قانون سازی نہ ہوتی۔صبح عمران خان نے دھرنا نہیں دیا۔
دوپہر کو قانون سازی کی گئی رات کو پٹرول کی قیمت بڑھا دی گئی۔ ایک ہی دن میں کئی کام ہوئے۔ جس نے متعدد کہانیوں کو جنم دے دیا۔ دوستوں کی رائے میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ اشارہ ہے کہ ملک میں کوئی قبل ازوقت انتخابات نہیں ہو رہے۔
اگر چھ دن بعد اسمبلیاں ٹوٹ ہی جانی ہیں تو شہباز شریف کو پٹرول کی قیمتیں بڑھانے کی کیا ضرورت تھی۔ وہ چھ دن بھی گزار سکتے تھے جب پہلے ایک ماہ سے زائد گزار لیا ہے۔ اس لیے پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ مضبوط اشارہ ہے کہ حکومت اپنی مدت مکمل کرے گی۔ اگر مدت پوری نہیں کرنی تو قیمت بڑھانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ نئی حکومت آتی تو خود ہی بڑھا لیتی۔ شہباز شریف کو بڑھانے کی کیا ضرورت تھی۔
لیکن دوستوں کی رائے ہے کہ یہ بھی قبل از وقت انتخابات کا ہی اشارہ ہے۔ ان کے مطابق طاقت ور حلقوں نے بس اس حکومت سے یہی کام لینا ہے کہ آئی ایم ایف کا پروگرام واپس ٹریک پر آجائے۔ بیرون ممالک سے عالمی مالیاتی اداروں سے قسطیں مل جائیں ۔ اس کے بعد ان کی چھٹی کروا دی جائے گی۔ میں سمجھتا ہوں یہ ایک بچگانہ سوچ ہے۔ اگر یہ حکومت آئی ایم ایف کو بحال کرنے جا رہی ہے تو یقینا ان کو گارنٹی ہے کہ وہ مدت پوری کریں گے۔
ورنہ وہ یہ قدم کیوں اٹھاتے۔ ویسے بھی گارنٹرز کو علم ہے کہ عمران خان جاتے ہوئے اپنی سیاست اور کرسی کے لیے آئی ایم ایف سے ڈیل توڑ کر گئے۔ یہ مالیاتی بارودی سرنگیں بچھائی گئی تھیں۔ اس لیے اگر کوئی پاکستان کے لیے یہ سیاسی کڑوی گولیاں کھائے گا تو کیا اس کو سزا دی جائے گی اور جس نے یہ بارودی سرنگیں بچھائیں اس کو انعام دیا جائے گا ۔ یہ کیسے ممکن ہے۔ اس لیے مجھے نہ تو فوری اور نہ ہی قبل از وقت انتخابات نظر آرہے ہیں۔ باقی سب کہانیاں ہیں۔