ہمارا کیا بنے گا
عمران خان نے تو کسی کا لحاظ کیے بغیر اعلان کر دیا ہے کہ ’’ملک میں امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ امریکا ہے‘
سانحہ اسلام آباد میں بے گناہوں کی بے وقت موت نے مجھے حد درجہ رنجیدہ کر دیا ہے لیکن اس غم کے باوجود مجھے یہ اطمینان ہو گیا ہے کہ دہشت گرد بچ نہیں سکیں گے۔ اس اطمینان کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے دائیں بازو کے محب وطن لیڈران کرام کی آنکھیں کھل گئی ہیں اور انھیں سات پردوں میں چھپا ہوا دشمن نظر آنا شروع ہو گیا ہے کیونکہ تحریک طالبان نے تو اس سانحے سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا ہے۔ اس کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ وہ تو ایسا گھناؤنا کام کر ہی نہیں سکتے۔ اس لیے ان کے بارے میں کسی قسم کے شک و شبے کا اظہار کرنا ہی بے وقوفی اور کم عقلی ہے۔اس لاعلمی اور مایوسی کے گپ اندھیرے میں امید کے دیے روشن ہو گئے ہیں۔
تحریک انصاف کے شیر دل لیڈر خان اعظم عمران خان نے تو کسی کا لحاظ کیے بغیر اعلان کر دیا ہے کہ ''ملک میں امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ امریکا ہے' وہ چاہتا ہے کہ جب تک وہ افغانستان میں موجود ہے اس وقت تک پاکستان میں امن نہ ہو اور جو یہاں امن نہیں چاہتا' وہ ہمارا دشمن ہے۔''انھوں نے شمالی وزیرستان میں آپریشن روکنے پر حکومت کو مبارکباد بھی پیش کی ہے۔ امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے انکشاف کیا ہے کہ '' ملک دشمن قوتیں کھل کر سامنے آ گئی ہیں' تخریب کاری کے پیچھے را' سی آئی اے اور بلیک واٹر کے سوا کسی کا ہاتھ نہیں ہے۔ البتہ وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ اس بات کی نشاندہی کی جائے کہ طالبان کی جنگ بندی کے بعد دہشت گردی کس نے کی ہے؟اس کا مطلب یہ ہے کہ انھیں ابھی تک پتہ نہیں چلا کہ ملک میں دہشت گردی کی وارداتیں کون لوگ کر رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ انھوں نے اگلے روز جس اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کی اور انھیں وہاں جو بریفنگ دی گئی' وہ ناقص ہے کیونکہ اگر ہمارے اداروں کو پتہ ہوتا کہ دہشت گردی کس نے کی ہے تو وہ وزیراعظم کو فوراً بتا دیتے' یہ کام وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان بھی فوری طور پر کر دیتے لیکن شاید انھیں بھی ابھی تک پتہ نہیں چلا کہ پاکستان میں دہشت گردی کون لوگ کر رہے ہیں۔
پاکستان میں سرکاری اداروں میں کام چوری عام ہے' سرکاری اہلکار اور افسر آرام طلب ہو گئے ہیں' عوام بھی حکومت سے تعاون نہیں کرتے بلکہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں کچہریوں اور بازاروں میں گھس آتے ہیں۔ جس کی وجہ سے جانی نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ اس وجہ سے سرکاری ادارے دہشت گردوں کا سراغ نہیں لگا سکتے' یہی وجہ ہے کہ حکومت ابھی تک ان کا پتہ لگانے میں ناکام ہے۔ ڈرتے ڈرتے میں وزیراعظم صاحب کو مشورہ ایک مشورہ دیتا ہوں کہ وہ بریفنگیں وریفنگیں چھوڑیں اور ''نئے پاکستان'' کے داعی جناب عمران خان اور سید منور حسن سے اعلیٰ سطحی ملاقات کا اہتمام کریں کیونکہ انھیں پوری طرح علم ہے کہ ہمارا اصل دشمن کون ہے اور ملک میں دہشت گردی کی وارداتیں کون کرا رہا ہے۔ اگر وزیراعظم پیر کو ہی ان سے ملاقات کر لیتے تو انھیں یہ نہ کہنا پڑتا کہ نشاندہی کی جائے کہ دہشت گردی کس نے کی ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ پاکستان میں دائیں بازو کے دانشور کی بہتات ہے' یہ حضرات ملک کے کونے کونے میں وافر تعداد میں ملتے ہیں' ان کی ذہانت و فطانت لاجواب ہے' قدرت نے کھوج لگانے کی حس بھی ایسی عنایت کی ہے کہ پرانے زمانے کے کھوجی بھی ان کے آگے پانی بھرتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ انھیں بھی لازماً پتہ ہو گا کہ وطن عزیز میں دہشت گردی کی وارداتیں کون کر رہا ہے؟ دہشت گرد تنظیموں کو کہاں سے سرمایہ آ رہا ہے اور انھیں اسلحہ کون دے رہا ہے؟ وزیراعظم پاکستان کو چاہیے کہ وہ آرمی چیف اورآئی ایس آئی کے سربراہ سے ملاقاتیں چھوڑیں کیونکہ ان کا کوئی فائدہ نہیں اور دائیں بازو کے ان ذہین دانشوروں اور قلمکاروں کے ساتھ بند کمرے میں ون آن ون ملاقات کریں' وہ انھیں ایسے ایسے دشمنوں کا نام بتائیں گے کہ ان کی آنکھیں کھل جائیں گی۔ دہشت گرد ہمالیہ کی پہاڑیوں میں ہوں یا بحر ہند کی گہرائیوں میں ان کی دوربین آنکھوں سے اوجھل نہیں ہو سکتے۔
پرانے زمانے کی بات ہے کہ کسی گاؤں میں چوری ہو گئی' پولیس آ گئی' کھوجی کو بلا لیا گیا اور کیس کی تفتیش شروع ہو گئی۔ کئی دن گزر گئے لیکن چور کا پتہ نہیں چلا۔ تھانیدار روز گاؤں میں آتا اور پورے گاؤں کو اکٹھا کر لیتا' اس صورت حال سے سارا گاؤں پریشان ہو گیا۔ ایک روز تھانیدار گاؤں میں آیا' حسب معمول اس نے سب گاؤں والوں کو اکٹھا کر لیا اور باری باری پوچھنا شروع کر دیا کہ بتاؤ یہ چوری کس نے کی ہے۔ روز روز کی اس پوچھ تاچھ سے تنگ آئے ہوئے ایک دیہاتی نے تھانیدار کو بڑی سنجیدہ صورت بنا کر کہا کہ اسے پتہ ہے کہ یہ چوری کس نے کی ہے۔ تھانیدار خوش ہو گیا۔ وہ دیہاتی اٹھا اور تھانیدار کے پاس جا کر اس سے کہا کہ میرا خیال ہے کہ یہ کسی چور کا کام ہے۔ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے بارے میں میرا بھی اس دیہاتی سے ملتا جلتا جواب ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اسلام آباد کچہری میں دہشت گردی کی جو واردات ہوئی ہے' یہ دہشت گردوں کا ہی کام ہے' کوئی اور ایسا کام نہیں کر سکتا۔ البتہ محترم عمران خان اور سید منور حسن مجھ سے بازی لے گئے ہیں اور وہ دشمن تک پہنچ چکے ہیں۔ ظاہر ہے' میں ٹھہرا ایک غریب عامی' ٹاٹ اسکولوں میں پڑھا ہوا اور تھڑوں پر بیٹھ کر سانس کھینچ کر چائے پینے والا' میری معلومات تو میری بساط کے مطابق ہی ہوں گی۔ خان صاحب ایچی سن کالج اور برطانیہ سے پڑھے ہوئے ہیں' مغربی تہذیب کی باریکیوں اور چالاکیوں سے آگاہ ہیں' اس طرح سید منور حسن بھی صاحب علم و فضل ہیں' وہ جتنا کچھ جانتے ہیں' میں نہ چیز تو اس کی الف ب سے بھی واقف نہیں۔ انھیں یقینی طور پر پاکستان کے دشمنوں کا پتہ ہے اور انھوں نے اس کا بغیر کسی خوف کے اظہار بھی کر دیا ہے۔ مجھے ڈر صرف اس بات کا کہ کہیں معاملہ بگڑ نہ جائے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ایک دیہاتی کو اپنے اتھرے بیٹے کی فکر تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران ایک دیہاتی کا بیٹا انگریز کی فوج میں بھرتی ہو جاتا ہے۔ دیہاتی کو پتہ چلتا ہے کہ انگریزوں کی جنگ ہٹلر کے ساتھ ہے جو بہت غصے والا ہے' اس پر دیہاتی کہتا ہے کہ مجھے اور تو کوئی فکر نہیں' بس ڈر اس بات کا ہے کہ کہیں میرے بیٹے کا ہٹلر سے آمنا سامنا نہ ہو جائے کیونکہ سنا ہے کہ ہٹلر غصے والا ہے اور میرا بیٹا بھی غصے والا ہے' نقصان بہت ہو گا۔ مجھے بھی ڈر یہ ہے کہ خان صاحب بھی غصے والے ہیں اور سید صاحب بھی جذبہ جہاد سے سرشار' ادھر سنا ہے کہ اوباما بھی بڑا بدتمیز ہے' اگر ان کا آمنا سامنا ہو گیا تو پھر ہمارا کیا بنے گا...