معاشی بحران
آج سارے اسی لیے اکٹھے ہوئے ہیں کہ ضرورت ہے تاکہ عمران خان کا مقابلہ کیا جاسکے
کراچی:
مہنگائی کو تو لگتا ہے پر لگ گئے ہیں ،رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی، ملک اس وقت بدترین معاشی بحران کا شکار ہے، لوگوں کی قوت خرید کم سے کم ہوتی جا رہی ہے ، ڈالر بلند ترین سطح پر ہے اسے روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں، لگتا ہے کہ حکومت پالیسی ہے کہ ڈالر کو اپنی من مانی کرنے دی جائے، اس کی راہ میں کوئی روڑے نہ اٹکائے جائیں۔
آج حالت یہ ہے کہ پچاس ہزار ماہانہ کمانے والا بھی زکوٰۃ لینے والوںکی فہرست میں آ رہا ہے ملک کی کثیر آبادی کے ساتھ یہ کتنا بڑا ظلم ہے۔ سیاستدانوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنھوں نے چپڑاسیوں، فالودہ بیچنے والوں، گولہ گنڈا بیچنے والوں کو کروڑ پتی، ارب پتی بنا دیا ہے اگر یہ پیسہ ان لوگوں کے اکاؤنٹ میں آنے کے بجائے ملکی خزانے میں آ جاتا تو آج اس معاشی بحران اور ذلت و رسوائی کا سامنا نہ کرنا پڑتا ۔کتنی بے بسی ہے کہ عوام دانے دانے کو ترس رہی ہے کہیں پانی کا بحران ہے تو کہیں روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔
آج یہ لیڈران اپنے چھپے ہوئے پیسوں کو آشکارہ کردیں اور خزانوں کے منہ غریب عوام کے لیے کھول دیں تو لاکھوں کروڑوں لوگوں کی دعائیں لیتے ہوئے اپنی آخرت سنوار لیں مگر دنیا کی ہوس نے اتنا گھیرا ہوا ہے کہ آخرت کی کوئی فکر نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی خزانہ لوٹنے والوں، ان کی معاونت کرنے والوں، سہولت مہیا کرنے والوں سب کے خلاف تحقیقات ہونی چاہئیں تاکہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے ایسے لوگ خواہ کتنے ہی طاقت ور کیوں نہ ہوں کڑی سے کڑی سزا ان کو دی جائے ایسا نہ ہو کہ پہلے جیسے ہوا عمران خان اپنی تمام تر خواہش اور کوشش کے باوجود سزا نہ دلوا سکے۔
ملک کے ادارے غیر جانبدار نہ رہیں بلکہ ایسے تمام لوگوں کو کٹہرے میں لائیں تاکہ کبھی بھی کسی کی ہمت نہ ہو،چھپنے والے یہ لوگ عیش کر رہے ہیں اسی عوام کو پیروں تلے روند رہے ہیں اس لیے معاشی بحران کے اس مرحلے پر ہنگامی بنیادوں پر ان لوگوں سے ایک ایک پائی وصول کریں ملک میں بہتری لانے کا سبب بن سکتی ہے مگر یہ کام کون کرسکتا ہے۔ آج عمران خان کو سیاست سے نفی کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں ، عمران مائنس فارمولہ ہی ان کی سیاسی بقا ہے۔
اب ان لوگوں کو بھی پتا چل چکا ہے کہ عوام میں تو اب ان کا بیانیہ چلنے والا نہیں ہے، اس لیے کبھی کسی بہانے تو کبھی کسی بہانے الیکشن سے بھاگنے کی فکر میں ہیں۔ الیکشن جب کروائیں گے جب گارنٹی ملے گی، گارنٹی دینے والوں سے بھی التجا ہے کہ خدارا ملک کی معیشت کی بھلائی کے لیے سوچیں۔ مقصد صرف کہنے کا یہ تھا کہ سزا کسی غریب کو ہی نہیں بلکہ خواہ وہ غریب ہو یا امیر اگر جرم ثابت ہو جائے تو یکساں سزا دی جائے، سزاؤں کے وقت یہ لوگ بیمار پڑ جاتے ہیں اور ریلیف ملنے کے بعد چوکڑیاں بھرتے نظر آتے ہیں۔
اپنے مفادات کے لیے ایک دوسرے کی مخالفت کرنے والے سر جوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں، آج سارے اسی لیے اکٹھے ہوئے ہیں کہ ضرورت ہے تاکہ عمران خان کا مقابلہ کیا جاسکے ورنہ ماضی میں یہی لوگ ایک دوسرے کے خلاف کیا کیا نہیں کہہ چکے ہیں، وقت وقت کی بات ہے، آج کل تو ان کا بیانیہ بھی یکسر ایسے تبدیل ہوا ہے کہ حیرت ہوتی ہے ۔ کل تک تو یہ حال تھا کہ صبح کی ابتدا اسٹیبلشمنٹ کو باتیں سنانے سے شروع ہوتی تھی تو دن کا اختتام بھی اسی طرح ہوتا تھا، آج ان کے بیانیہ نے ایسا رخ بدلا ہے کہ محو حیرت ہوں میں، ہم عوام کو غصہ آتا تھا مگر اب ان کا مزاج بدل چکا ہے اب عالم یہ ہے کہ خیر کے کلمات منہ سے نکل رہے ہیں۔
یہ سارا وہی ٹولہ ہے جنھوں نے بیرونی ممالک میں اپنی جائیدادیں بنائی ہیں، مال لوٹا ہے اور باہر بیٹھے یہاں حکم چلا رہے ہیں ۔آج سیاستدان کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں ہم مریں گے، زندہ ہیں تو پیسہ باہر، اولادیں باہر، مرنے کے لیے پاکستان۔۔۔۔! واہ۔۔۔۔کیا بیانیہ ہے۔