سیاسی آتش فشاں

ملکی سیاست نہ جانے کس مقام پر آ کے ٹھنڈی ہوگی، آج کل سیاست میں لب و لہجے کا میٹھا فالودہ تو رہا نہیں


م ش خ May 29, 2022

SEOUL: حل تو ہو سکتا ہے مسئلہ دھیمی گفتگو میں
پھر گفتگو میں تلخیوں کا عرق کس لیے

ملکی سیاست نہ جانے کس مقام پر آ کے ٹھنڈی ہوگی، آج کل سیاست میں لب و لہجے کا میٹھا فالودہ تو رہا نہیں، بس نفرتیں اور الزام تراشیاں اور اس لاوے کو پکانے میں سب مل جل کر کام کر رہے ہیں۔ ویسے تو سیاست میں یہ حربے بہت پرانے ہیں۔ غیر ملکی ایجنٹ اور غداری کے سرٹیفکیٹ سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کو بانٹ رہی ہیں یہاں تو اب ایک دوسرے کو مذہبی حوالے سے بھی دلیلیں دی جاتی ہیں۔ ماضی میں بی بی بے نظیر بھٹو کے خلاف بھی سیاسی جنگ الزامات کے تحت ہوئی حالانکہ وہ بہت ذہین خاتون تھیں مگر افسوس کہ انھیں سیاسی طور پر زندہ نہیں رہنے دیا گیا۔ 1993 میں راقم کو خوش لباس جرنلسٹ کا ایوارڈ ملا، خواتین میں بی بی بے نظیر بھٹو کو ایوارڈ ملا ، اداکار ندیم کو ملا، میری وزیر اعلیٰ ہاؤس میں بینظیر بھٹو سے آخری ملاقات ہوئی، انتہائی باادب، شفیق اور نیک سیرت خاتون تھیں، اس زمانے میں وزیر اعلیٰ عبداللہ شاہ تھے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ عوامی درد رکھنے والے انسان تھے، بات بینظیر بھٹو کی ہو رہی تھی، پانچ منٹ کی ملاقات میں، میں نے انھیں بہت تہذیب دار، شائستہ اور نیک عورت کے طور پر دیکھا، رب ان کی مغفرت کرے ۔(آمین)

آج کل سیاسی الزامات سن کر سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔ قومی یکجہتی کا تو یہ تقاضا ہے کہ ہمیں سیاسی طور پر ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے، جلسے اور جلوسوں میں جو نازیبا الفاظ ادا کیے جاتے ہیں انھیں سننے کے بعد روایات کی پاسداری کی تدفین ہو رہی ہے، قوم بے سروساماں یہ سب کچھ سن رہی ہے، توہین و تذلیل کا بازار گرم ہے، تعلیم یافتہ طبقہ اس بے مقصد تصادم سے بہت رنجیدہ ہے کہ اس کے پاس صرف تعلیم ہے ان سیاسی حضرات کی گفتگو سن کر علمی و ادبی حلقے حیران و پریشان ہیں کہ اس ملک میں یہ کیا ہو رہا ہے؟

ایک دوسرے کی کردار کشی کے میدان میں لوگ سرپٹ دوڑ رہے ہیں۔ طنز کے میدان میں ہر شخص اپنا منہ زور گھوڑا بغیر لگام کے دوڑا رہا ہے حتیٰ کہ خواتین مردوں پر مرد خواتین پر طنز کے نشتر پھینک رہے ہیں آج ہم کس مقام پر کھڑے ہیں کمال کی بات تو یہ ہے کہ پریس کانفرنسوں میں ایک دوسرے پر الزامات کی بارش ہوتی ہے کچھ حضرات اس گفتگو کے عادی ہوگئے ہیں کہ صحافیوں کے سوال پر بھڑک اٹھتے ہیں۔

سوال کا جواب دینے کے بجائے غیظ و غضب کا شکار ہو کر بدتمیزی کرتے ہوئے واویلا مچا دیتے ہیں اور زبانی حملے کرنے سے نہیں چوکتے ۔اب تو یہ عالم ہے کہ اپوزیشن اور برسر اقتدار دونوں مل کر جذباتی گفتگو کرتے ہیں اور اب یوٹیوب کا زمانہ ہے جو ٹویٹس آن ایئر ہوتی ہیں انھیں دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ خواتین کی تضحیک کا شور مچایا جاتا ہے۔

سب اپنے اپنے من پسند لیڈروں کے لیے مل کر شور و غل کر رہے ہیں مگر قومی مسائل کو دفن کرنے کی کوشش ہو رہی ہے برسر اقتدار حضرات کو چاہیے کہ وہ عوامی مسائل پر روشنی ڈالیں کہ مسائل کے پہاڑوں کو کس طرح ریزہ ریزہ کرنا ہے کوئی بھی سچے دل سے مہنگائی، غربت، بے روزگاری پر بات نہیں کرتا، سب نے انا کا جھنڈا ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے جب تک یہ جملہ سیاست سے ختم نہیں ہوگا کہ ہمیں غربت، مفلسی، عوامی مسائل ورثے میں ملے ہیں ہم کیا کرسکتے ہیں؟

ارباب اختیار کو سب معلوم ہوتا ہے کہ ملکی حالات کیا ہیں؟ خزانہ کس مقام پر کھڑا ہے؟ مسائل کے پہاڑ کھڑے ہیں مگر سب سے اوپر کی سیڑھی پر کھڑے ہونے کا نشہ ہی کچھ ہے آج تک کسی نے قوم کے لیے بنیادی سہولتوں کا تذکرہ نہیں کیا، ماضی کی حکومت کے کرتوتوں پر ماتم کیا جاتا ہے جب ان سیاسی حضرات کو پتا ہے کہ ہم نے بھی مسائل کا ماتم کرنا ہے تو پھر کیا ضرورت ہے اس مردہ محفل کو سجانے کی، سیاسی طور پر ایک دوسرے سے ناراضگی اپنی جگہ مگر جب حد سے سیاسی طور پر گزر جائیں تو وہ باعث شرم ہے۔

لندن میں نواز شریف کے گھر کے سامنے احتجاج ہوا، جمائمہ خان کے گھر پر احتجاج ہوا، سب سے بڑی بات تو ملک کی عزت و توقیر ہوتی ہے کیا سوچتے ہوں گے گورے کہ یہ کیسی قوم ہے اور یہ کیا کہنا چاہتی ہے، سیاسی اختلافات اپنی جگہ مگر اس میں شدت پسندی پاکستانیوں کی شخصیت کا خاصا نہیں، ہمیں اپنے طرز بیان کو بدلنا ہوگا، پاکستان ایک پروقار ملک ہے ایٹمی قوت ہے ہمیں یہ چونچلے زیب نہیں دیتے۔

سیاسی طور پر نجی زندگیوں کا احاطہ کیا جاتا ہے کتنی بیگمات ہیں کتنے بچے ہیں یہ روایات غلط ہے اور اس پر ان سیاسی حضرات کو مٹی ڈالنی ہوگی۔ قومی مسائل اور غربت بے روزگاری مہنگائی و دیگر مسائل پر کھل کر روشنی ڈالیں اور اس وقت یہ مسئلہ اس ملک میں بہت اہم ہے قوم اب اس غربت میں بھی شعور کی دہلیز پر بے سروساماں کھڑی ہے ۔ان سب باتوں سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ قوم کی بقا نہیں کچھ سیاسی حضرات اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

غلط روایات اور خواتین کی تضحیک کو ہماری سیاسی شخصیات کو ختم کرنا ہوگا کہ یہ قوم ہی تو آپ کو عزت و توقیر کا مقام دیتی ہے روزانہ اخبارات میں کوئی نہ کوئی خبر اس حوالے سے موجود ہوتی ہے اس پر بھی نظرثانی ہونی چاہے۔ جو بھی حکومت آتی ہے، آئی ایم ایف سے قرضے کی باتیں گونجنے لگتی ہیں مگر آج تک کسی نے یہ نہیں کہا'' ہمیں آئی ایم ایف کی ضرورت نہیں، ہم سادگی کو اپنائیں گے اور قوم کو ساتھ لے کر چلیں گے قوم ہمارا ساتھ دے، انتہائی ایمانداری سے ''اگر آئی ایم ایف کے قرضے کو استعمال کیا جائے تو قارئین آپ یقین کریں یہ قوم بہت زندہ دل ہے۔

کچھ مراعات اسمبلیاں اپنی بھی ختم کرے اور جو نظر آئے تو یہ قوم بہت ہمت والی ہے یہ مسائل کے باوجود بھی حکومتوں کا ساتھ دے مگر اس کے لیے اہل سیاست کو بھی قربانی دینی پڑے گی، سیاسی لڑائی جھگڑوں کو چھوڑ کر سیاسی طور پر امن و محبت کے درس کا اہتمام کریں، جبھی یہ ملک ترقی کرے گا اور اگر لکیر کے فقیر بنے رہے تو پھر ایک دن رب کا کوئی سچا سپاہی آ کر اس ملک کی تقدیر بدل دے گا اور سب دیکھتے رہ جائیں گے۔

یہ کیا ہوگیا یہاں تو ہر بات باکمال ہے کراچی میں بیشتر علاقوں میں 10 سے 12 گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے کوئی پرسان حال نہیں، کچھ علاقوں میں رات 12 بجے سے 2 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے جو امارات سے خوشحال ہیں ان کی جوتی سے مگر غریب مر گیا، بھلا بتائیے رات کی لوڈ شیڈنگ کی کیا تک ہے، نہ کے الیکٹرک والے سوچتے ہیں، نہ ان سے کوئی پوچھنے والاہے نہ اسمبلیوں میں آواز اٹھائی جاتی ہے ہاں الیکشن کے وقت سب حلقوں میں روتے دھوتے آئیں گے اور یہ جملہ کہہ کر بات ختم ہو جائے گی کہ ہماری کوئی سنتا نہیں تھا ہم مجبور تھے مگر یہ چورن اب مشکل سے ہی بکے گا جو 100 فیصد ایک باشعور قوم کی طرح بل ادا کر رہے ہیں وہ بھی اس عذاب کا بوجھ اپنے ناتواں کاندھوں پر لیے ہوئے ہیں۔

یہ غربتیں میری آنکھوں میں کیسی اتری ہیں
کہ خواب بھی میرے رخصت ہیں رت جگا بھی گیا

جب کہ پورے شہر میں تمام روڈ پر پنکچر والے، شربت والے، فروٹ والے کنڈا دھڑلے سے استعمال کرتے ہیں اس کا خمیازہ شرفا بھگت رہے ہیں۔ یہ دلیل سمجھ میں نہیں آتی، کے الیکٹرک کو چاہیے کہ اپنی ٹیم کے ساتھ علاقوں کا سروے کرے اور ان ناجائز کنڈوں کا خاتمہ کرے، ٹیم تشکیل دیں تاکہ ان کی غلطیوں کا جرمانہ شریف شہری کیوں دیں، نہ جانے یہ نظام کیسے تبدیل ہوگا اور معاف کیجیے گا یہ کام تقریباً تمام صوبوں میں ہو رہا ہے اور شریف لوگ ان کے کیے کی سزا بھگت رہے ہیں، تنقید کو اصلاح کے طور پر لکھا جاتا ہے مگر ادارے کے پی آر سیکشن اعلیٰ افسران کو یہ خبریں نہیں دیتے پی آر سیکشن اپنی ذمے داری کو محسوس کریں تاکہ اداروں میں خوبصورت صبح طلوع ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں