احتجاج اور ہنگامہ آرائی کا تسلسل کب تک
آزادی اظہار خیال تو میسر ہے، مگر اس آزادی کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سارا نظام ہی جام کرکے رکھ دیا جائے
لاہور:
ملک میں انتشار و خلفشار کب تک چلتا رہے گا، 2014 سے ہم مسلسل غیر یقینی کی فضا میں دن گزار رہے ہیں۔126 دنوں تک ڈی چوک اسلام آباد میں دھرنا دے کر ساری حکومتی مشینری مفلوج کرکے رکھ دی گئی۔ پارلیمنٹ اور ایوان وزیراعظم سمیت قومی ٹی وی چینل کی عمارت پر دھاوا بولا گیا۔
یہ سب کچھ دنیا کے کسی ملک میں بھی ہو رہا ہو تو باہر بیٹھے لوگوں میں یقینا یہی تاثر جاتا ہے کہ جیسے اس ملک کے سارے لوگوں نے حکومت کے خلاف بغاوت کر دی ہے اور ایک ناپسندیدہ حکومت ملک پر قابض ہے جس کے خلاف عوام سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔
2011 میں تحریر اسکوائر قاہرہ میں جب کچھ اسی طرح کئی دنوں کے لیے دھرنا دیا گیا تھا تو ساری دنیا میں کچھ ایسا ہی تاثر اُبھرا تھا۔ سارے ٹی وی چینلز صبح و شام یہی کچھ دکھا رہے تھے ، لیکن پھر کیا ہوا کیا وہاں کے لوگوں کو وہ حقوق مل گئے جس کے لیے وہ یہ ہنگامہ آرائی کر رہے تھے۔
کیا آج پھر وہاں وہی نظام قائم نہیں ہے ، جس کے خلاف وہ سڑکوں پر نکل آئے تھے ، جمہوریت لپیٹ کے رکھ دی گئی ہے۔ صرف ایک سال برسر اقتدار رہنے والے صدر محمد مرسی دار فانی سے کوچ کرگئے ہیں اور عوام اب خاموش ہوکر اپنے اپنے کاموں میں لگ چکے ہیں۔ کسی کو بھی جمہوریت کی یاد ستا نہیں رہی۔ ہمیں اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے ، ہمارے یہاں کم از کم جمہوریت تو قائم ہے۔
آزادی اظہار خیال تو میسر ہے، مگر اس آزادی کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سارا نظام ہی جام کرکے رکھ دیا جائے۔ ملک کو چلنے ہی نہیں دیاجائے۔ ترقی و خوشحالی کا راستہ روک کر اسے قرضوں میں جکڑ کر کنگال اور دیوالیہ کر دیا جائے۔ یہ سوچ کہ '' ہم نہیں توکوئی اور بھی نہیں'' کسی طور حب الوطنی پر مبنی نہیں ہے۔ آج سے پہلے بھی بہت سی حکومتوں کو قبل از وقت فارغ کیا گیا۔ 1988 سے لے کر 1999 تک کئی حکومتیں آئی اور چلی گئیں لیکن کسی نے ملک و قوم کو داؤ پر لگا کر وہ سب کچھ نہیں کیا جو آج ہو رہا ہے۔
خان صاحب نے تین دن کے نوٹس پر25 مئی کو لانگ مارچ اور دھرنے کا اعلان کر ڈالا۔ اُن کا خیال تھا کہ جو لوگ ان کے جلسوں میں جوق در جوق چلے آتے ہیں وہ اُن کی ایک آواز پر اُسی طرح سڑکوں پر ہنگامہ آرائی کے لیے بھی نکل آئیں گے ، لیکن دیکھا یہ گیا کہ عوام کی جانب سے وہ ری ایکشن سامنے نہیں آیا۔
جلسوں میں شرکت کی بات کچھ اور ہوتی ہے۔ عوام وہاں کچھ دیر کے لیے حاضر ہوجاتے ہیں۔ خاص کر جب سے تحریک انصاف نے سیاسی جلسوں کا رنگ ڈھنگ ہی بدل کر رکھ ڈالا ہے۔ وہاں ڈی جے کی مسحور کن موسیقی اور گانوں کے ساتھ ساتھ خان صاحب کی جذباتی تقریروں کو سننے کے لیے عوام کی اکثریت بہر حال تشریف لاتی رہی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ وہ اِسے ایک تفریح سمجھ کر انجوائے کرتے ہیں۔یہ ایک دن کی تفریح نہیں ہے۔ رات دن سڑکوں پر بسیرا کرنا ہوتا ہے۔ شیلنگ اور آنسو گیس کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھار پولیس کے ڈنڈے بھی کھانے پڑتے ہیں۔ یہ ساری چیزیں اور مشکلیں غریب لوگ تو برداشت کرسکتے ہیں لیکن امیر اور آسودہ گھرانے کے لوگ ہرگز برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔ خان صاحب شاید اس غلط فہمی میں تھے کہ جس طرح 2014 میں وہ 126 دنوں تک دھرنا دینے میں کامیاب ہوگئے تھے اس بار بھی وہ یہ سب کچھ باآسانی کر دکھائیں گے ، لیکن وہ بھول گئے کہ اس بار مذہبی تنظیم کے کارکن اس لانگ مارچ میں نہیں تھے اور پس پردہ وہ قوتیں بھی شامل نہیں تھیں جن کے بل بوتے پر وہ 2014 میں وہ یہ سب کچھ کر پائے تھے۔
خان صاحب نے قومی اسمبلی سے ایک بار پھر استعفے دیکر بڑی سیاسی غلطی کر ڈالی ہے۔ پارلیمنٹ میں موجود نہ ہونے کی وجہ سے وہ حزب اختلاف کا رول ادا کرنے سے بھی قاصر ہوچکے ہیں۔ اول تو اگر حکومت کو نئے الیکشن کروانے پر مجبور کرنا تھا تو صرف قومی اسمبلی سے استعفے دینا کافی نہیں تھا۔ وہ کے پی کے سمیت جس جس صوبائی اسمبلیوں میں موجود ہیں ہر جگہ سے یکمشت استعفیٰ دیدیتے تو یقینا حکومت پر پریشر پڑسکتا تھا ، ورنہ بصورت دیگر قومی اسمبلی میں رہتے ہوئے سیاسی جدوجہد جاری رکھتے۔ اس طرح وہ حکومت کو اپنی مرضی کا چیئرمین نیب اور انتخابی اصلاحات میں ترمیمی بل لانے سے بھی روک سکتے تھے ، مگر انھوں نے یہ مواقعے ضایع کر دیے ہیں۔ لگتا ہے وہ اب دوبارہ قومی اسمبلی میں آنے سے ہچکچا رہے ہیں۔
خان صاحب نے حکومت کو 6 دن کا چیلنج دے رکھا ہے اور وہ 6 دن کل ختم ہو جائیںگے ، جس کے بعد وہ پھر ڈی چوک کے طرف گامزن ہونگے۔ اُن کے بقول وہ اس بار مکمل تیاری کے ساتھ آئیں گے۔ اُن کی مشکل یہ ہے کہ وہ ہر بار جلد بازی میں فیصلہ کر ڈالتے ہیں۔ ہماری رائے میں یہ چھ دنوں کا الٹی میٹم بھی قبل از وقت ہے۔ انھیں پتا ہونا چاہیے کہ عوام کو اتنی جلدی دوبارہ سڑکوں پر خوار ہونے کے لیے تیار اور راغب کرنا ایک مشکل اور ناممکن کام ہے۔ عوام اپنی مشکلوں میں گھرے ہوئے ہیں۔
مہنگائی اور روز افزوں گرانی نے اُن کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول ناممکن بنا دیا ہے ایسے میں وہ گھر بار چھوڑکر پولیس کا لاٹھی چارج اور آنسوگیس کا مزا چکھنے بلاوجہ کیوں نکلیںگے ، وہ اگر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تو کوئی اُن کے وارثوں کو پوچھے گا بھی نہیں۔ کتنے سیاسی شہید آج اس دنیا میں باقی نہیں رہے ، لیکن کیا جن کے لیے انھوں نے اپنی جانوں کی قربانیاں دیں وہ اُن کو آج یاد بھی کرتے ہیں۔ سیاستدانوں کو تو اپنی سیاست چمکانے کے لیے ایسی شہادتوں کی ضرورت ہوتی ہے جنھیں استعمال کرکے وہ اپنی تحریکوں کو کامیاب بناتے ہیں۔