ہو رہا ہوں میں کس طرح برباد
جینیس حکمران کا تو کچھ نہیں بگڑتا البتہ لاکھوں انسان اس کے اچھوتے ادھ بدھ تجربات کی بھینٹ ضرور چڑھ جاتے ہیں
قدرتی آفات کے اثرات کو مختلف تدبیروں سے ہلکا تو کیا جا سکتا ہے مگر یکسر ٹالا نہیں جا سکتا۔مگر بہت سی آفات محسوس تو قدرتی ہوتی ہیں لیکن ان کے پیچھے کسی نہ کسی عقلِ کل حکمران کی کارستانی ہوتی ہے جو فطرت کے ساتھ ساتھ چلنے کے بجائے اس کا بازو مروڑ کے فطرت کو یرغمال بنانے کی کوشش کرتا ہے۔اس جینیس حکمران کا تو کچھ نہیں بگڑتا البتہ لاکھوں انسان اس کے اچھوتے ادھ بدھ تجربات کی بھینٹ ضرور چڑھ جاتے ہیں۔
سرِ دست مجھے اس تباہ کن افلاطونیت کے تعلق سے جو مثال فوری طور پر یاد آ رہی ہے وہ انیس سو تیس کے عشرے کے اسٹالنی سوویت یونین کی ہے جب نجی کھیتوں کو اجتماعی فارموں اور کوآپریٹوز کا حصہ بنانے کی بھرپور جبری کوشش ہوئی اور کسانوں نے اس کی جان توڑ مزاحمت کی۔اپنے ہی ہاتھوں فصلوں کو آگ لگا دی یا عالمِ طیش میں لاکھوں پالتو جانور مار ڈالے۔
اس کسان مزاحمت کا سب سے زیادہ زور سوویت یونین کا غلہ گودام کہلائی جانے والی ریاست یوکرین میں تھا۔کسانوں سے نہ صرف زمین چھین کر انھیں اجتماعی کھیتی باڑی کے نوکرشاہ نظام کا حصہ بننے پر مجبور کیا گیا۔بلکہ مزاحمت کرنے والے ہزاروں کسان خاندانوں کو بطور سزا سائبیریا اور وسطی ایشیا کے بیابانوں میں منتقل کیا گیا۔
اس اتھل پتھل کے سبب یوکرین جیسی سونا اگلتی سرزمین میں قحط سالی نے لاکھوں انسانوں کو نگل لیا۔ گیہوں کا گودام کہلانے والی ریاست بربادی کے کگار پر پہنچ گئی تو دیگر سوویت ریاستوں میں بھی غلے کی شدید قلت نے اپنا رنگ دکھایا۔مگر اسٹالن نے پرواہ نہیں کی اور اجتماعی کھیتی باڑی کے نظام کو مکمل کر کے دکھایا ( بیس برس بعد چین میں بھی یہی اسٹالنی تجربہ دہرایا گیا۔ لاکھوں جانیں گئیں مگر خبریں بھی انسانوں کے ساتھ دبا دی گئیں ۔)
اس سختی، راج ہٹ اور انسانی قربانی کے نتیجے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کھیتی باڑی کے نئے نظام کے تحت سوویت یونین غلے کی پیداوار میں خودکفیل ہو جاتا۔مگر ایسا ہونا تو درکنار الٹا سوویت یونین کو بیرونی غلے کی ضرورت پڑ گئی۔انیس سو اسی کے عشرے میں جب سرد جنگ عروج پر تھی۔سوویت یونین اپنے سب سے بڑے نظریاتی دشمن امریکا سے سالانہ پچاس لاکھ ٹن گندم خریدتا رہا۔غلے کی عالمی پیداوار میں سوویت یونین کا حصہ محض ایک فیصد تھا۔
البتہ جب سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد نجی شعبہ رفتہ رفتہ بحال ہوا تو کسانوں نے بھی گندم کو بطور نقد آور فصل دلجمعی سے اگانا شروع کردیا۔آج صورت یہ ہے کہ سوویت یونین کی جانشین ریاست یعنی روس گندم کی عالمی پیداوار میں اٹھارہ فیصد کی حصہ دار ہے جب کہ دوسری جانشین ریاست یوکرین کا گندم کی عالمی پیداوار میں حصہ سات سے آٹھ فیصد کے لگ بھگ ہے۔
یوں سمجھ لیجیے کہ دونوں ممالک گندم کی ایک چوتھائی عالمی پیداوار کی فراہمی کے ضامن ہیں اور دنیا کے لگ بھگ اسی ممالک کا دارو مدار اسی روسی یوکرینی گندم پر ہے، جب کہ مصنوعی کھاد یعنی فاسفیٹ کی ایک چوتھائی پیداوار بھی روس اور بیلا روس سے عالمی منڈی میں پہنچتی ہے۔ اور اس وقت روس یوکرین لڑائی کے سبب گندم اور فاسفیٹ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔
سری لنکا کا شمار بھی انھی ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے جو گندم اور مصنوعی کھاد کے معاملے میں مذکورہ تین ممالک پر انحصار کرتے ہیں۔مگر گزشتہ برس مئی تک بھلے چنگے سری لنکا کو بھی قحط سالی کی کگار تک صرف ایک ذہین شخص یعنی صدر گوٹا بائیا راجہ پکسا کے اس خواب نے پہنچا دیا کہ سری لنکا دنیا کا پہلا ملک ہوگا جو مصنوعی کھاد استعمال کیے بغیر خوراک میں خودکفیل ہو کر ایک عالمی مثال بنے گا۔جس وقت صدر گوٹا بائیا نے یہ خواب دیکھا تب تک سری لنکا اپنے دو کروڑ شہریوں کی بنیادی خوراک یعنی چاول کی پیداوار میں تقریباً خود کفیل تھا۔
مگر راجہ تو راجہ ہوتا ہے اور راج ہٹ بھلا کون ٹال سکتا ہے۔راتوں رات قدرتی کھاد کا متبادل انتظام کیے بغیر مصنوعی کھاد اور کیڑے مار ادویات کی رسد معطل کر کے کسانوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔ نیت یہ تھی کہ مصنوعی کھاد کے زہریلے اثرات سے زمین کو پاک کر کے شدھ صحت مند خوراک اگائی جائے جیسا کہ باپ داد کے زمانے کا دستور تھا۔
ملک کے بیس لاکھ کسان جو برسوں عشروں سے رعایتی مصنوعی کھاد کے عادی بنا دیے گئے تھے ان کی سمجھ سے بالا تھا کہ اچانک حکومت کو کیا جنون سوار ہو گیا اور ہمیں اعتماد میں لیے بغیر ہماری قسمت کا فیصلہ کیسے کر دیا گیا۔
اب اتنی بڑی مقدار میں قدرتی کھاد اور زمین کی زرخیزی بڑھانے والے دیگر قدرتی اجزا اور کیمیکل سے پاک کیڑے مار نسخے کہاں سے حاصل کیے جائیں کیونکہ ان کی درآمد کا تو پیشگی بندوبست ہی نہیں کیا گیا تھا۔نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ہی سیزن میں فصلوں کی پیداوار میں چالیس سے ستر فیصد تک کی کمی ہو گئی۔ سری لنکا بیٹھے بٹھائے ایک خودکفیل زرعی ملک سے منگتے فقیر میں تبدیل ہو گیا۔پہلی بار بیرونِ ملک سے تین لاکھ میٹرک ٹن چاول خریدنا پڑا۔جب کہ اس سے پچھلے برس بیرون ملک سے صرف چودہ ہزار میٹرک ٹن چاول خریدا گیا تھا۔
جب معاملہ ہاتھ سے نکل گیا تب کہیں جا کے گزشتہ ماہ صدر گوٹا بائیا راجہ پکسے جن کا اپنا تعلق بھی زرعی خاندان سے ہے نے اعتراف کیا کہ ان سے غلطی ہو گئی۔اتنی عجلت میں اتنا اہم زرعی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے تھا اور حکومت اس کا ازالہ کرنے کی بھرپور کوشش کرے گی۔
مگر تب تک زرمبادلہ کے ذخائر ختم ہو چکے تھے۔یوکرین روس تنازعے کے نتیجے میں مصنوعی کھاد کی قیمتیں دگنی ہو چکی تھیں۔سرکار نے عالمِ گھبراہٹ میں مصنوعی کھاد خریدنے کے لیے عالمی بینک سے نیا قرضہ لیا۔لیکن قرضہ آتے آتے بھی وقت تو لگتا ہے۔
اس دوران عوامی صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔جنھیں پہلے ہی نہ دوا میسر تھی نہ خوراک اور نہ ڈیزل اور پٹرول۔ پھر یوں ہوا کہ صدر کے سگے بھائی مہندا راجہ پکسے کو وزیرِ اعظم کے عہدے سے مجبوراً مستعفی ہو کر بحریہ کے ایک اڈے میں خاندان سمیت پناہ لینا پڑی۔ ان کی جگہ رانیل وکرما سنگھے کو حکومت بنانا پڑی۔رانیل صاحب نے آتے ہی بنا کسی لاگ لپٹ عوام کو حقیقت بتا دی کہ موجودہ زرعی سیزن کے لیے مصنوعی کھاد حکومت فراہم نہیں کر سکتی۔البتہ اگلے سیزن کے لیے ضرور کھاد اور زرعی ادویات کی رسد یقینی بنائی جائے گی۔اگلے چند ماہ بہت تکلیف کے ہیں مگر برداشت تو کرنا ہوگا۔
اس وقت سری لنکا میں بنیادی خوراک تین ماہ پہلے کے مقابلے میں پچاس فیصد مہنگی ہو چکی ہے۔ پٹرول خریدنے کی سکت نہیں تو سیاحت کا شعبہ بھی ٹھپ پڑ ا ہے۔امریکی زرایع اور اقوامِ متحدہ کا اندازہ ہے کہ اگلے برس جن دو ممالک کو خوراک کے شدید بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے وہ افغانستان اور سری لنکا ہوں گے۔
خدا دونوں ممالک کے حال پر رحم کرے اور دیگر ممالک کو ان دونوں کے حال سے سبق سیکھنے کے لیے عقلِ سلیم نہ سہی کامن سنس ضرور عطا کرے۔(آمین۔)
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)