گورنر پنجاب کی تعیناتی کے بعد کا منظر نامہ
پنجاب میں بیس خالی نشستوں کے انتخاب کے نتائج کے بعد ہی پنجاب کا سیاسی منظر نامہ واضح ہوگا
WASHINGTON:
صدر عارف علوی نے وزیر اعظم شہباز شریف کی ایڈوائس پر بلیغ الرحمٰن کو گورنر پنجاب تعینات کرنے کی منظوری دیدی ہے۔ نئے گورنر نے اسی رات اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا، جس کے بعد پنجاب کابینہ نے بھی حلف اٹھا لیا ہے ۔ یوں بالآخر پنجاب میں حکومت سازی کا عمل بھی مکمل ہو گیا ہے۔
یہ عمل شاید ایک ماہ پہلے ہی ہو جاتا لیکن صدر نے اس عمل کو مفلوج بنائے رکھا۔ صدر پاکستان نے ہر ممکن کوشش کی کہ وہ تحریک انصاف کی مدد کر سکیں لیکن وہ مقررہ حد سے زیادہ مدد نہیں کر سکے۔
کیا صدر مملکت سے کوئی سوال کر سکتا ہے کہ انھوں نے جو عمل کیا، اس کا پاکستان اور خود انھیںکیا فائدہ ہوا ہے؟ کیا وہ یہ کوشش کر رہے تھے کہ حمزہ شہباز کی حکومت بننے سے پہلے ہی گر جائے؟یا عدلیہ سے کوئی ایسا فیصلہ آجائے جس سے پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت بن جائے؟ کیا انھوں نے چوہدری پرویز الہیٰ کی بالواسطہ مدد کرنے کی کوشش نہیں کی ہے؟ لیکن شاید صدر پاکستان کو ایک آئینی استثنا حاصل ہے، اسی لیے ان سے یہ سوالات پوچھنا ممکن نہیں ہے۔
دوستوں کی رائے یہ ہے کہ بلیغ الرحمٰن کی نامزدگی کی توثیق کے حوالے سے ممکن ہے کہ حکومت اور صدر مملکت کے درمیان کوئی بیک چینل ڈپلومیسی کام کر گئی ہے اور حکومت نے صدر مملکت کو تعاون کے لیے منا لیا ہے۔ صدر مملکت نے الیکشن کمیشن کے پنجاب اور کے پی کے نامزد ممبران کی بھی توثیق کر دی ہے۔کیا واقعی صدر مملکت نے اپنی حکمت عملی تبدیل کر دی ہے؟ ایک رائے یہ بھی ہے کہ عمران خان کے لانگ مارچ کی ناکامی نے بھی صدر مملکت کو اپنی سوچ اور حکمت عملی کو تبدیل کرنے پر مجبور کیا ہے۔ اس لیے وہ اب سسٹم کے ساتھ چلنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔
لیکن میں سمجھتا ہوں کہ صدر مملکت نے گورنر پنجاب کا معاملہ اس حد تک لٹکایا جہاں تک وہ لٹکا سکتے تھے۔ صدر مملکت کو اچھی طرح معلوم ہوگیا ہے کہ وہ وزیراعظم کی نامزدگیوں اور پارلیمنٹ کے پاس کردہ قوانین کو ایک مقررہ حد سے زیادہ روک نہیں سکتے۔
صدر مملکت نے آخری دن بلکہ آخری لمحے میں ہی گورنر پنجاب توثیق کی ہے۔ اگر وہ شام کو توثیق نہ دیتے تو رات کو خود بخود نوٹیفکیشن ہو جاتا، اس لیے مجھے یہ کوئی بیک چینل ڈپلومیسی نظر نہیں آتی۔ اس لیے وہ باقی صوبوں میں گورنرز کی تعیناتی میں بھی ایسی ہی حکمت عملی اپنائیں گے۔
وہ سسٹم میں موجود خرابیوں سے خوب فائدہ اٹھائیں گے۔ میں سمجھتا ہوں صدر مملکت کو عمران خان کو بھی سمجھانا چاہیے کہ وہ ان پر اتنا ہی دباؤ ڈالیں جتنا وہ برداشت کر سکتے ہیں۔ ان سے آئین سے ماورا اقدمات کی توقع کرنا تحریک انصاف اور عمران خان کی سیاست کے لیے اچھی نہیں ہے۔
صدر مملکت کو انھیں سمجھانا چاہیے کہ پنجاب میں جو کچھ کیا گیا، اسے کہیں بھی اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا۔ اس سے ایک رائے بنی ہے کہ تحریک انصاف نظام حکومت کو مفلوج کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ تحریک انصاف نظام کے لیے خطرہ بن رہی ہے۔وہ سسٹم کے ساتھ چلنے کے بجائے سسٹم کو جام کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ یہ کوئی اچھی حکمت عملی نہیں ہے۔
ویسے تو ایسی خبریں سامنے آرہی ہیں کہ تحریک انصاف واپس پارلیمنٹ میں آنے کا سوچ رہی ہے تا ہم پی ٹی آئی اس کی تردید کر رہی ہے۔ پہلے لانگ مارچ کی نا کامی نے تحریک انصاف کے اندر سوچ میں بہت تبدیلی پیدا کی ہے۔ لیکن یہ بھی درست ہے کہ ابھی تحریک انصاف ایک اور کوشش کرے گی۔ ایک اور لانگ مارچ کی قسط آئے گی۔ کب آئے گی ،اس حوالے سے سوال ضرور موجود ہے۔
ایک رائے ہے کہ لانگ مارچ جون میں ہوگا، دوسری رائے ہے کہ اگست میں ہوگا۔ لیکن تحریک انصاف سسٹم میں واپس آنے کے بارے میں دوسرے لانگ مارچ کے بعد ہی فیصلہ کر سکے گی۔ تب تک وہ قبل از وقت انتخابات کے لیے نظام سے کھیلنے اور نظام کو مفلوج کرنے کی کوششیں جاری رکھیں گے۔ اس لیے ابھی فوری مسائل کا حل ممکن نہیں ہے۔
پنجاب میں بحران 17جولائی سے قبل حل نہیں ہو سکے گا۔ پنجاب میں بیس خالی نشستوں کے انتخاب کے نتائج کے بعد ہی پنجاب کا سیاسی منظر نامہ واضح ہوگا،اگر تحریک انصاف اپنے منحرف ارکان کی جانب سے خالی کی جانے والی بیس کی بیس نشستیں دوبارہ جیت لیتی ہے تو پنجاب تحریک انصاف سے کوئی نہیں چھین سکے گا۔ لیکن اگر ان بیس میں سے اکثریتی نشستیں ن لیگ جیت گئی تو پنجاب ن لیگ کا ہو جائے گا۔ جب تک ان نشستوں کا فیصلہ نہیں ہوتا۔ تب تک کسی نہ کسی شکل میں بحران رہے گا۔ عدالتوں میں بھی جنگ جاری رہے گی۔
گورنر پنجاب کی تعیناتی نے بہر حال ن لیگ کو مضبوط کیا ہے اور تحریک انصاف کو کمزور کیا ہے۔ اس موقف کی بھی نفی ہو گئی ہے کہ عمر سرفراز چیمہ ہی ابھی تک گورنر ہیں۔ چوہدری پرویز الہیٰ کے موقف کی بھی نفی ہوئی ہے۔ حمزہ شہباز کی اخلاقی پوزیشن بھی مضبوط ہوئی ہے۔ لیکن ابھی بحران مکمل حل نہیں ہوا۔ صدر مملکت ابھی مزید بحران پیدا کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ جن کے لیے سب کو تیار رہنا چاہیے۔
اس سے بچنے کا کوئی حل نہیں ہے۔ لیکن پنجاب میں اب کیا اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہو سکے گی؟ کیا ڈپٹی اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہوسکے گی؟ کیا پنجاب اسمبلی کے اجلاس پر امن ہو سکیں گے؟ کیا پنجاب میں بجٹ اجلاس ہو سکے گا؟ کیا چوہدری پرویز الہیٰ بھی صدر مملکت کی طرح سسٹم کو ماننے کے لیے تیار ہو جائیں گے؟
پاکستان میں انتقال اقتدار ابھی مکمل نہیں ہوا ہے۔ اس میں حائل رکاوٹیں موجود ہیں۔ عمران خان ہر قدم پر مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ وہ صوبائی حکومتیں قائم رکھتے ہوئے مرکزی حکومت کو گرانا چاہتے ہیں۔ وہ صوبائی طاقت سے مرکزی حکومت گرانا چاہتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہوگا؟ وہ آئین کی کمزوریو ں سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تا کہ کھیل خر اب کیا جا سکے۔