انتخابی قوانین میں تبدیلی مختصر بحث
انتخابی عمل میں شفافیت سے پاکستان میں انتخابات میں دھاندلی کا معاملہ ہمیشہ سے سنگین رہا ہے
SAO PAULO:
میاں شہباز شریف کی قیادت میں مخلوط حکومت، سابقہ حکومت کی روایات پر عمل پیرا ہے۔ قومی اسمبلی نے الیکشن ایکٹ 2017میں کی گئی ترامیم کے دو بلوں کی منظوری ایک ہی دن میں دے دی۔
26 مئی کو ہونے والے اجلاس میں نیب ترمیم بل بھی منظور ہوا۔ نئی ترمیم سے بیرون ممالک پاکستانیوں کے ووٹ اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر انتخاب کرانے کی سابقہ حکومت کی شامل کردہ ترامیم کو ختم کیا گیا۔ سینیٹ میں بھی مختصر مدت میں یہ بل پاس ہوا۔
عمران خان کی حکومت نے ان قوانین کو پارلیمنٹ کے مختصر اجلاس میں منظور کرایا تھا ، یوں سابقہ حکومت نے منتخب ایوان کو ربڑ اسٹیمپ کے طور پر استعمال کرنے کا طریقہ کار برقرار رکھا۔ پارلیمنٹ کے ارتقاء پر تحقیق کرنے والے محققین کی یہ رائے ہے کہ اگر منتخب ایوان کے ارکان کو قانون سازی کے لیے بحث و مباحثہ اور بحث سے پہلے تیاری کے حقوق حاصل نہیں ہوں گے تو پھر قوانین کی تیاری کے عمل میں عوام کی رائے جو عوامی نمایندوں کے ذریعہ ارتقاء پذیر ہوئی ہے، وہ سامنے نہ آسکے گی۔
یوں وزیر اعظم کی آمریت کا تاثر تقویت پائے گا۔ انتخابی عمل میں شفافیت سے پاکستان میں انتخابات میں دھاندلی کا معاملہ ہمیشہ سے سنگین رہا ہے اور انتخابات میں دھاندلی کے خلاف 1977 اور 2013 میں تحریکیں بھی چلی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابی قوانین میں خاصی تبدیلیاں عمل میں آئی اور انتخابات میں دھاندلی کے انفرادی واقعات میں کمی ہوئی ہے۔
جہاں ریاستی ادارے اور غیر ریاستی ایکٹرز(Non-State Actors) کو کھلی چھٹی ملتی ہے وہاں انتخابی نتائج مشکوک ہوجاتے ہیں اور یہ تقریباً ہر الیکشن کے نتائج مشکوک ہوئے۔ 2010 میں آئین میں ہونے والی 18ویں ترمیم میں الیکشن کمیشن کی مکمل مالیاتی اور فیصلہ ساز آزادی کے لیے شق شامل ہوئی۔ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے اراکین کے انتخاب کے لیے وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف میں اتفاق رائے، پارلیمنٹ کی کمیٹی کے ذریعہ ان عہدوں پر نامزدگی لازمی قرار پائی۔ انتخابات میں شفافیت کا سلسلہ ووٹر لسٹ کی تیاری سے شروع ہوتا ہے۔
اب نادرا کے ڈیٹا سے انتخابی فہرست میں ترمیم جاری ہے، یوں ووٹر لسٹ کی غلط اندراج کے امکانات کم ہوئے ہیں۔ اب سارا معاملہ پولنگ اسٹیشن کے قیام اور پولنگ والے دن دھاندلی پر مرکوز ہوگیا ہے۔
گزشتہ سال سیالکوٹ میں قومی اسمبلی کا ضمنی انتخاب ہوا تھا۔ اس حلقہ کے 14 پریذائیڈنگ افسران نتائج سمیت لاپتہ ہوئے تھے اور پھر علی الصبح یہ افسران انتخابی نتائج کے ہمراہ ریٹرننگ افسر کے سامنے پیش ہوئے تھے۔ پاکستان میں پریذائیڈنگ افسروں اور دوسرے عملہ کا اغواء اور انھیں یرغمال بنانے کا معاملہ معمول کی بات رہا ہے۔ کچھ علاقوں میں جن میں کراچی شامل ہے بعض سیاسی جماعتوں کے اراکین تو انتخابی افسروں کی فہرستیں پہلے مل جاتی تھیں، یوں ان افسروں پر دباؤ کا معاملہ پولنگ کی تاریخ سے پہلے ہی دھاندلی کا آغاز ہوجاتا تھا۔ تاریخ میں پہلی دفعہ چیف الیکشن کمشنر نے پریذائیڈنگ افسروں کے اغواء کو ریکارڈ کا حصہ بنایا ، جامع تحقیقاتی کرائی گئیں۔
ان تحقیقات کی روشنی میں ضلع افسروں سمیت متعلقہ ریٹرننگ افسر اور ضلعی افسران کے خلاف کارروائیوں کے احکامات دیے گئے۔ سابق مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان سمیت تحریک انصاف کے کئی رہنماؤں کے خلاف عدالتی کارروائی کے احکامات جاری ہوئے مگر اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کو چیف الیکشن کمشنر کے یہ فیصلے پسند نہ آئے اور اس دن سے چیف الیکشن کمشنر زیر عتاب آگئے۔
2018کے انتخابات میں الیکشن کمیشن نے پہلی دفعہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کو استعمال کرنا شروع کیا تھا۔ پولنگ آفس پر کلوز سرکٹ کیمرے لگائے گئے تھے۔ نتائج کی فوری ترسیل کے لیے RTS کا نظام رائج کیا گیا تھا تاکہ پریذائیڈنگ افسر فوری طور پر الیکشن کمیشن کو نتائج ارسال کرتے مگر نہ تو کلوز سرکٹ کیمرے جن پر کروڑوں روپے خرچ ہوئے تھے کسی کام آئے اور پھر RTS کا نظام بھی معطل ہوگیا۔
پہلے الزام نادرہ پر لگایا گیا۔ نادرا کے افسران نے کہا کہ ان کا اس دن سسٹم کام کرتا رہا۔ ملک کے سب سے بڑے انگریزی کے اخبار کی تفتیشی رپورٹ سے پتہ چلا کہ آسمانوں سے بجلی گرانے والی قوتوں کے اہلکاروں کو یہ سسٹم پسند نہیں تھا۔ حزب اختلاف نے انتخابی دھاندلیوں کا مسئلہ قومی اسمبلی میں اٹھایا۔ وزیر اعظم عمران خان جن کا سارا بیانیہ ہی انتخابی دھاندلی کے خلاف تھا ان کی تجویز پر پارلیمنٹ کے اراکین کی کمیٹی بنی مگر حکومت کی حکمت عملی کے تحت یہ کمیٹی فعال ہی نہیں ہوئی۔
کسی دانا نے عمران خان کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کا فارمولہ بنادیا۔ انھوں نے آیندہ انتخابات میں اس مشین کے استعمال کو یقینی بنانے کی ٹھانی۔ الیکشن کمیشن نے اس مشین کو ناقابل استعمال قرار دیا۔ ماہرین نے تخمینہ لگایا کہ ان مشینوں کی خریداری پر اربوں روپے خرچ ہوںگے۔ ووٹروں میں خواتین کی اکثریت ہے جو دیہاتوں میں رہتی ہیں، جہاں انٹرنیٹ کی سہولت بھی نہیں اور وہ اسمارٹ فون استعمال کرنا نہیں جانتی۔ پھر بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے سارا نظام معطل ہوجاتا ہے۔ سرکاری اسکولوں میں جہاں پولنگ اسٹیشن قائم کیے جاتے ہیں وہاں جنریٹر نہیں ہوتے۔
سندھ کے اندرونی علاقوں، بلوچستان کے بیشتر علاقوں اور سابقہ قبائلی علاقوں میں تو یہ مشین قیامت مچا سکتی ہے مگر سابقہ حکومت نے اکثریت کی آمریت کو استعمال کرتے ہوئے پارلیمنٹ سے ایک ہی دن میں یہ اس مشین کے استعمال کا قانون منظور کرایا تھا۔ امریکا کی نائب صدر نے اپنی کتاب میں اس مشین کی ناکامی کا خوب ذکر کیا ہے۔ بھارت میں کانگریس اور دیگر مخالف جماعتیں مودی سرکار پر الزام لگاتی ہیں کہ ووٹنگ مشین کے ذریعہ انتخابی نتائج کو Manage کیا جاتا ہے۔
جرمنی میں سوفٹ ویئر کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے اور وہاں کی معروف آئی ٹی فرم کے رکن سید محمد علی کی ہمدردیاں تحریک انصاف کے ساتھ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مشین کا سوفٹ ویئر بظاہر محفوظ نظر آتا ہے مگر اس سوفٹ ویئر کو کسی سطح پر Manageکیا جاسکتا ہے۔ اگرچہ حکومت نے اس مشین کے استعمال کو ترک کرنے کا فیصلہ کیا ہے مگر انتخابی عمل کو شفاف بنانے کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے تمام طریقے استعمال کرنا لازمی ہے۔
بیرون ممالک پاکستانی شہریوں کے ووٹ ڈالنے کا معاملہ سب سے پہلے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے سامنے پیش ہوا تھا مگر عمران خان نے اس خیال کو عملی شکل دینے کی کوشش کی۔ یہ ایک انتہائی حساس اور پیچیدہ معاملہ ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ یہ پاکستانی اس ملک کی معیشت کو رواں رکھنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں اور نئی صدی میں رونما ہونے والے واقعات سے ان پاکستانیوں کو اپنے ملک کے معاملات سے زیادہ دلچسپی پیدا ہوگی ، مگر اس ضمن میں جو لوگ بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کے ووٹ دینے کے حق کی وکالت کررہے ہیں انھیں کچھ حقائق کو ضرور مدنظر رکھنا چاہیے۔
سعودی عرب اور خلیجی ممالک میں بادشاہتیں ابھی تک قائم ہیں۔ وہاں سیاسی جماعتوں کے قیام کا حق تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ وزیر قانون کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور خلیجی ممالک کی حکومتیں پولنگ اسٹیشن قائم کرنے کی اجازت نہیں دے رہی ہیں۔ ان ممالک میں تارکینِ وطن کے حقوق بہت کم ہیں ، اگر ان ممالک میں ان پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا گیا تو وہاں حکومتوں کا ووٹنگ پر بہت زیادہ اثر ہوگا۔
امریکا اور یورپی ممالک میں جن پاکستانیوں نے ان ممالک کی شہریت حاصل کرلی ہے اور سٹیزن شپ کے تحت ان ریاستوں سے وفاداری کا حلف اٹھایا ہے وہ کس طرح پاکستان کی سیاست میں حصہ لے سکتے ہیں؟ اگر فرض کرلیا جائے کہ امریکا کی سازش سے عمران خان کی حکومت ختم ہوئی ہے اور پھر یہ مفروضہ بھی قائم کرنا پڑے گا کہ امریکی حکومت نے اپنی قومی مفاد کے لیے یہ فیصلہ کیا ہوگا تو اس ملک کا شہری اپنے ملک کے مفاد کے خلاف ووٹ کیسے استعمال کرنے کا حق رکھتا ہے؟
انٹرنیٹ کے ذریعہ ووٹنگ یا ان ممالک میں پاکستانی سفارتخانوں اور قونصل خانوں میں پولنگ اسٹیشن قائم کرنے کا مطلب ان سفارتخانوں میں قائم اسپیشل برانچ کا کردار بڑھ سکتا ہے ، یوں انتخابات میں دھاندلی کا تناسب بڑھ سکتا ہے۔ ایک تخمینہ کے مطابق انتخابات پر 4 بلین روپے کی لاگت آئے گی جو اس معاشی بحران میں بڑا سوال ہے۔ بھارت نے اپنے بیرون ملک مقیم شہریوں کو اس طرح ووٹنگ کا حق نہیں دیا ہے۔ مگر اس معاملہ کے مزید پہلوؤں پر بحث و مباحثہ کی ضرورت ہے۔