پاک ترک تعلقات…وقت کی ضرورت

خارجہ پالیسی کے محاذ پر پاکستان یہ فیصلہ نہیں کر پایا کہ وہ مشرق اور مغرب کے ساتھ تعلقات میں توازن کیسے برقرار رکھے


Editorial June 02, 2022
خارجہ پالیسی کے محاذ پر پاکستان یہ فیصلہ نہیں کر پایا کہ وہ مشرق اور مغرب کے ساتھ تعلقات میں توازن کیسے برقرار رکھے۔ فوٹو: فائل

LONDON: وزیراعظم شہباز شریف تین روزہ دورے پر ترکی پہنچ چکے ہیں' اگلے روز ترکی کے متحدہ تجارتی چیمبرز کے صدر نے وزیراعظم شہباز شریف کے اعزاز میں عشایے کا اہتمام کیا۔اس عشایے سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان نے ترک سرمایہ کاروں کو ہر ممکن سہولیات فراہم کرنے کا یقین دلایا۔

انھوں نے پاکستان اور ترکی کی کاروباری برادری پر زور دیا ہے کہ وہ آیندہ 3 سال کے دوران دوطرفہ تجارتی حجم 5 ارب ڈالر تک لے جانے کا عزم کرے۔ ہم باہمی تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے ہر قسم کی قانونی رکاوٹیں دورکریں گے، انھوں نے نشاندہی کی کہ ترک سرمایہ کار پاکستان میں ثقافت، دفاع، موسمیاتی تبدیلی، آئی ٹی، ڈیری فارمنگ، ٹیکسٹائل اور توانائی سمیت دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کے مواقعے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، پاکستان، ترک سرمایہ کاروں کا دوسرا گھر ہے، ترکی کے دشمن ہمارے دشمن ہیں۔

ترکی نے صدر طیب اردوان کی دانش مندانہ قیادت میں شاندار ترقی کی،اس کی برآمدات 270 ارب ڈالر سے زیادہ ہیں، ترکی نے ڈیموں اور انفراسٹرکچر کی تعمیر پر توجہ مرکوز کی، مشرق وسطیٰ، جنوبی افریقہ ، جنوبی ایشیا سمیت دنیا بھر میں بڑے منصوبے مکمل کیے۔ دونوں ممالک کے درمیان عشروں پر محیط قریبی، تاریخی، دوستانہ تعلقات ہیں۔ ہمارا تجارتی حجم دوستانہ تعلقات کی عکاسی نہیں کرتا۔ ترکی کے سرمایہ کار پاکستان میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں، دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے رکاوٹوں کو دور کیا جائے گا۔

اس حوالے سے تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں میٹرو، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ سمیت دیگر شعبوں میں ترکی کی کمپنیوں نے بھرپور معاونت فراہم کی، سرمایہ کاروں کے ویزا مسائل حل کریں گے،ہمارا باہمی تجارتی حجم 1.1 ارب ڈالر ہے، جسے تین برسوں میں 5 ارب ڈالر تک لے جایا جا سکتا ہے۔ ترک کمپنیوں کے ساتھ پاکستان میں برے رویے پرمعذرت کرتا ہوں، ضمانت دیتا ہوں پاکستان میں سرمایہ کاری کریں، ان کاریڈ کارپٹ استقبال کریں گے۔ پاکستان اور بھارت کو باہمی مفید تجارت سے بہت کچھ حاصل کرنا ہے۔

تاہم 5 اگست 2019 کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات ،کشمیری عوام پر مظالم اور حق خودارادیت سے انکار کے تناظر میں اس پیش رفت کا تصور مشکل ہے،وہ تعلقات معمول پر لانے کے لیے اپنے اقدامات پر نظرثانی کرے۔وزیراعظم نے کالعدم تحریک طالبان سے متعلق کہا کہ کابل حکام نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔انھوں نے دہشت گرد تنظیموں کے خلاف سخت کارروائی اورمحفوظ پناہ گاہیں ختم کرنے کا عہد بھی کیا ہے۔ہم دہشت گردی کو شکست دینے اور خطے میں امن و استحکام کے لیے تمام راستے اپنائیں گے۔

وزیراعظم کا دورہ ترکی خاصا اہم ہے۔ترکی یورپ کا دروازہ ہے جو یورپ اور مشرق وسطیٰ کو ملاتا ہے۔ترکی نیٹو تنظیم کا اہم رکن ہے اورپچھلے کچھ برسوں سے ترکی کی معیشت نے خاصی ترقی کی ہے۔پاکستان میں بھی ترک اداروں نے مختلف شعبوں میں سرمایہ کررکھی ہے۔گو آج کل ترکی کی معیشت دباؤ میں ہے لیکن اس کے باوجود ترکی کی ترقی کا سفر رکا نہیں ہے۔پاکستان کو موجودہ حالات میں غیرملکی سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے کیونکہ پاکستانی معیشت مشکلات سے دوچار ہے ، موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ مثبت مذاکرات کیے ہیں ،یوں عالمی سطح پر پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بہتر ہوگئی ہے۔

پاکستان میں ٹیکس وصولی کے اعدادوشمار بھی حوصلہ افزاء ہیں۔فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے رواں مالی سال کے پہلے گیارہ ماہ کے دوران ٹیکس وصولیوں کے عبوری اعدادوشمار جاری کردیے ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ ایف بی آر نے رواں مالی سال کے گیارہ ماہ کے دوران 5349ارب روپے کی عبوری خالص ٹیکس وصولیاں کی ہیں ۔

یہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے دوران اکٹھے ہونے والے محصولات سے 28.4 فیصد زیادہ ہے۔ ٹیکس وصولیوں میں لارج ٹیکس پیئر یونٹ کراچی سر فہرست رہا۔ کراچی نے رواں مالی سال کے پہلے گیارہ ماہ کے دوران41فیصد ریونیو گروتھ کے ساتھ1396.78 ارب روپے اکٹھے کیے ۔ ملک کی معیشت کے لیے یہ اچھی پیش رفت ہے، اگر پاکستان کے ٹیکس سٹسم میں ایسے اداروں اور طبقوں کو بھی شامل کرلیا جائے تو محصولات کی وصولی بہت بہتر ہوسکتی ہے۔

کیونکہ پاکستان کی معیشت کو غیرمعمولی مشکلات کا سامنا ہے۔ پاکستان میں توانائی کے مختلف ذرائع کے نرخ خاصے زیادہ ہیں جس کی وجہ سے گھریلو صارفین کے ساتھ ساتھ کاروباری طبقہ بھی متاثر ہورہا ہے۔نیپرا نے اپریل کے لیے ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 3.99 روپے فی یونٹ بجلی مہنگی کرنے کی منظوری دیدی ہے ، اس اضافے سے بجلی صارفین پراکیاون ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا، اس اضافے کا اطلاق ڈسکوز کے تمام صارفین ماسوائے لائف لائن صارفین پر ہو گا،اس کا اطلاق کے الیکٹرک صارفین پر بھی نہیں ہو گا۔

بجلی کے نرخوں میں مزید اضافے کی باتیں بھی ہورہی ہیں۔ملک میں مینوفیکچرز کے لیے سستی توانائی بہت ضروری ہے تاکہ ان کی پیداواری لاگت کم ہوسکے۔امید یہی ہے کہ حکومت اس سلسلے میں بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرے گی۔

وفاقی حکومت لگژری اشیاء کی درآمد پر عائد پابندی میں بھی نرمی کررہی ہے، غیر ملکی امداد پر چلنے والے منصوبوں،صنعتی یونٹس و مینوفیکچررز کو درکار صنعتی آلات و مشینری،خام مال اور درمیانی سامان کی درآمد پر پابندی کا اطلاق نہیں ہوگا۔ حکومت آیندہ مالی سال میں صرف اتنی ہی سی کے ڈی گاڑیوں کی درآمد کی اجازت دے گی جتنی تعداد مالی سال 2021-22میں درآمد کی گئیں۔

آٹو انڈسٹری کے لیے آیندہ مالی سال ایک سخت ترین سال ثابت ہوگا جس میں گاڑیوں کی طلب میں نمایاں کمی ہوگی۔ 2021-22میں گاڑیوں کی مجموعی فروخت 3لاکھ56ہزار یونٹس تک رہنے کا امکان ہے۔ پاکستانی آٹو انڈسٹری کی نمو متاثر ہونے سے حکومت کے ریونیو میں بھی نمایاں کمی ہوگی۔ مقامی گاڑیوں میں حکومتی محصولات کا شیئر 35فیصد ہے۔ یوٹیلیٹی اسٹورز پر مختلف برانڈز کے گھی اور کوکنگ آئل کی قیمتوں میں اضافہ کردیا گیا۔یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن نے قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ۔

پاکستان کی معیشت کی جو حالت ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ خارجہ محاذ پر بھی پاکستان کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ امریکا اور مغربی یورپ کے ساتھ اچھے تجارتی مراسم قائم رکھنا اور انھیں مزید بہتر کرنا انتہائی ضروری ہے۔ مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب 'یو اے ای 'قطر 'بحرین'کویت اور عمان کے ساتھ تعلقات کو مزید بڑھانے کے لیے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہ خطہ پاکستان کے لیے سونے کی کان ہے۔

حالیہ برسوں میں تیل پیداکرنے والے امیر عرب ممالک نے بھارت میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے حالانکہ ان کی ترجیح پاکستان ہونا چاہیے تھی لیکن پاکستان میں چند برسوں سے جاری سیاسی عدم استحکام ' نظریاتی خلفشار اور اس سے پیدا شدہ انتہا پسندوں کو مضبوط اور بااثر بنانے کی کوششیں 'غیر ملکی سرمایہ کاری کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن کر سامنے آئیں۔

خارجہ پالیسی کے محاذ پر پاکستان یہ فیصلہ نہیں کر پایا کہ وہ مشرق اور مغرب کے ساتھ تعلقات میں توازن کیسے برقرار رکھے۔ خارجہ پالیسی میں موجود اس سقم اور خامی کے باعث پاکستان امریکا اور مغربی یورپ سے دور ہوا لیکن چین اور روس کے قریب بھی نہ جا سکا۔ عرب ممالک کے ساتھ پاکستان کے گہرے تعلقات رہے ہیں لیکن یہ تعلقات سرد مہری کا شکار ہوئے ' اسی وجہ سے سعودی عرب اور یو اے ای کی سرمایہ کاری بھارت منتقل ہوئی۔

کئی خارجہ معاملات پر پاکستان اور عرب ملکوں کی راہیں الگ الگ رہیں۔ پاکستان نے ترکی اور ملائیشیاء کے قریب ہونے کی کوشش کی لیکن خارجہ پالیسی میں موجود ابہام کے باعث ان دونوں ملکوں کے ساتھ بھی پاکستان غیرمعمولی تجارتی اور سٹریٹیجک تعلقات قائم کرنے میں ناکام رہا۔ پاکستان کو اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

وزیراعظم پاکستان کا ترکی کا حالیہ دورہ اسی سلسلے کی ایک کڑی لگتا ہے۔ پاکستان ترکی کے ساتھ تعلقات کو آگے بڑھا کر عالمی سطح پر کئی کامیابیاں حاصل کر سکتا ہے۔ اسی طرح ترکی بھی پاکستان کے ساتھ تعاون کر کے کئی مسائل سے عہدہ برا ہو سکتا ہے۔پاکستان کے لیے دہشت گردی کا خاتمہ کرنا اور افغانستان میں قیام امن انتہائی ضروری عوامل ہے۔

ترکی مشرق وسطیٰ میں بھی اثرورسوخ رکھتا ہے اور وسط ایشیا میں بھی ترکی کا اثر موجود ہے۔ افغانستان میں بھی ترکی کا اثرورسوخ اچھا خاصا ہے۔ لہٰذا وقت کا تقاضا یہی ہے کہ پاکستان اور ترکی اپنی باہمی شراکت داری بڑھائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں