خالص زنانہ بولی

گزشتہ کالم میں ریختی کا ذکر ہوا تو رَوانی میں یہ بتانا رہ گیا کہ یہ کیا چیز ہے


گزشتہ کالم میں ریختی کا ذکر ہوا تو رَوانی میں یہ بتانا رہ گیا کہ یہ کیا چیز ہے ۔ فوٹو : فائل

(دوسرا اور آخری حصہ)

زباں فہمی142

حسب وعدہ اس موضوع پر دوسری اور آخری قسط لیے آپ کی خدمت میں حاضرہوں۔ یوں تو یہ موضوع ایسا ہے کہ اس پر بہت تفصیل سے خامہ فرسائی کی جاسکتی ہے، مگر بندے کو تنگی قرطاس و تنگی وقت دونوں کا احساس دامن گیر ہے۔

یوں تو زنانہ بولی سے متعلق چند اہم کتب اور بعض مخصوص لغات یا فرہنگ پچھلے کوئی سو سال میں مرتب کی گئیں، مگر اس باب میں ایک مبسوط، ضخیم وجامع لغت /دائرہ معارف (Encyclopaedia)کی ترتیب اَزبَس ضروری ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ جب ہمارے معاشرے میں اہل علم کی محدود تعداد، مزید محدود ہوتی جارہی ہے ، بقول شاعر ع جو بادہ کش ہیں پرانے، وہ اٹھتے جاتے ہیں، تو ایسے میں اس طرف کس کی توجہ مبذول ہوتی ہے۔

گزشتہ کالم میں ریختی کا ذکر ہوا تو رَوانی میں یہ بتانا رہ گیا کہ یہ کیا چیز ہے۔ ناواقفین کے لیے ایسی تمام اصطلاحات کا برمحل مفہوم بیان کرنا ضروری ہے۔ آسان الفاظ میں ریختی سے مراد شاعری کی وہ مخصوص قسم یا صنف ہے جو عورتوں کے جملہ معاملات، انھی کے لہجے میں بیان کرتی ہے۔

اس صنف کی ابتداء کسی عورت نے نہیں، بلکہ مرد شاعر نے کی اور یہ تأثر بالتحقیق غلط ہے کہ یہ لکھنؤ کی ایجاد ہے یا مغل دور سلطنت کے آخری دنوں میں ابتذال کی فضا ء میں پروان چڑھی۔ ہاں البتہ اسے عروج یقیناً اُسی دور میں حاصل ہوا۔

ریختی کے موجد، اور اولین صاحب ِدیوان شاعر، گجرات /دکن کے قدیم اردو شاعر، ہاشمی بیجاپوری (سید میراں عرف میاں خاں، نیز تخلص ہاشم) عادل شاہ بیجاپوری کے عہد (1656ء تا 1672ء ) میں ہوگزرے ہیں۔ مہدوی فرقے کے پیرو، اس نابینا، ناخواندہ، مگر پُرگو شاعر ہاشمی نے اپنے عہد کی عورت کے مسائل اُسی کی مخصوص بولی میں پیش کرنے کے لیے ''ریختی'' ایجاد کی۔

اُن کے کلام پر گجراتی کے ساتھ ساتھ ہندی، فارسی اور قدیم دکنی بولی کی نمایاں چھاپ ہے۔ ویسے انھیں اپنے مرشد شاہ ہاشم مہدوی کی فرمائش پر کہی ہوئی ''مثنوی یوسف زلیخا'' سے شہرت ملی۔ (اسی نام کی ایک مثنوی عہد اورنگزیب عالمگیر کے ایک گجراتی /دکنی شاعر شیخ امینؔ نے بھی لکھی جو بہرحال ہاشمی کے مدتوں بعد کا شاعر ہے)۔ مضامینِ قاضی (احمد میاں) اخترجوناگڑھی، غزل نما از محترمہ اداجعفری اور اردو ادب کی مختصر تاریخ از ڈاکٹر انورسدیدمیں منقول تذکرے سے اُن کے کلام کے نمونے ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔ کچھ مثالیں یہاں پیش کرتا ہوں:

گد اہوکر منگوں (مانگوں)گی یوں مِرا سب کام ہوئے (ہوجائے) گا

سخن اب شاہ ہاشم سے درَس (درشن)کا دان (بھیک) جو پاؤں

کاں (کہاں) بھاگنا بولو ایتا (اتنا) اُجڑی، جلے اس بھاگ سوں (تقدیر سے)

جلنا پڑا ہے رات دن اس بے کلی کی آگ سوں (بے کلی کی آگ سے)

اگر لاویں (لائیں) گے سوکن کو، رہوں گی اُس کی باندی ہو (ہوکر)

(کہ) بی بی آئی پکا روں گی، میں سب انکار چھوڑی (چھوڑ چکی) ہوں

کہو کوئی ہاشمی ؔ کو جا، اتا (اب) آنا جو بھاتا نئیں (نہیں)

خدا کی سوں (قسم) کٹھِن رُت ہے، شتابی (جلدی) آؤ ساون میں

میری تو اوڑھنی سرکی، پیا نے ڈھیٹ ہو (کر) کھینچی

سو ٹکڑے ہوکے رہ گئی ہے ، کناری ہاتھ میں میرے

ہمارے نہایت مشفق بزرگ معاصر ڈاکٹر انورسدید (مرحوم) نے اسی شاعر کی مثنوی ''احسن القصہ'' کو ہاشمی کی الہامی قوت کا مظہر قرار دیا کہ اُس نے باصرہ (یعنی بینائی) کی کمی کو غزل میں سامعہ (سماعت، سننے کی حس، طاقت) اور لامسہ (چھونے کی حس یا صلاحیت) کے ذریعے پورا کیا۔ بقول ڈاکٹر صاحب ، ہاشمی کی شاعری میں دکنی عورت اپنے حسن کی چھب نرالے انداز میں دکھاتی ہے اور مرد چکور کی طرح اُس کا طواف کرتا ہے۔

ایک اور بیان بھی ملاحظہ فرمائیں:''ہاشمی کی غزلیں اپنے مزاج کے اعتبار سے ریختی کی صنف کے زیادہ قریب ہیں۔ ان کے یہاں جسم اور جنس کے ہزار روپ ملتے ہیں''۔ (تاریخ ادب اردو ازڈاکٹر جمیل جالبی جلد اوّل ، ص 364)۔

محولہ بالا (یعنی اوپر حوالے کے طور پر پیش کیا ہوا) آخری شعر تو بہت صاف زبان میں ہے۔ ریختی کی متعدد مثالیں اس سے کہیں زیادہ زنانہ بولی میں، لکھنؤ کے شعراء نے یوں پیش کیں کہ بس اس صنف کا مکمل باب انھی سے منسو ب ہوگیا۔ ریختی گو شعراء میں بعض عورتیں بھی شامل تھیں، معزز کے ساتھ ساتھ طوائفیں بھی! بقول انورسدید، ''غزل کی بگڑی ہوئی صورت، ریختی، لکھنؤ کے مصنوعی معاشرے کی مقبول لیکن مُبتذَل صنف سخن ہے۔

اس صنف شاعری میں عورتوں کی زبان میں مخصوص محاورے، اشارے کنائے اور بیشتر جنس آمیز اشعار کہے جاتے تھے''۔ انھی نقاد کے بقول ہاشمی کے کوئی سو سال بعد، صدیق قیس ؔ نے اس صنف میں خوب کمال دکھایا، مگر ہنوز اس کا کوئی نام نہ تھا۔ سعادت یارخان رنگین ؔ نے اسے باقاعدہ صنف، ریختی کا درجہ دے کر اس میں مہارت حاصل کی، ان کے بعد، انشاء اللہ خان انشاءؔ اور جان صاحب بھی مشہور ہوئے۔ نمونہ کلام پیش خدمت ہے:

مدت میں ملاقات میسر جو ہوئی ہے+اب دل یہی کہتا ہے کہ اس بات کی ٹھہرے (رنگینؔ)

باجی کہتی ہے کہ اک مردُؤئے پر غش ہے تو +مفت ایسا بھی کسی شخص پہ بہتان ہے تو (انشاءؔ)

تجھ سے جب تک نہ ملی تھی ، مجھے کچھ دکھ ہی نہ تھا+ہاتھ مَلتی ہوں تِری بات میں کیوں مان گئی (بے غمؔ)

کیا مردُؤوں سے آنکھ لڑاتی ہے بیِسوا+نرگس ! تری تو آنکھ کا پانی ہی ڈھل گیا (عبداللہ خان جانؔ)

آخری شعر میں بہت مشہور محاورہ ''آنکھ کا پانی ڈھلنا'' یعنی بے حیا ہوجانا استعمال ہوا جو خالص زنانہ ہے، مگر معیاری زبان اور عام بول چال کا حصہ ہے۔ اسی سے مماثل محاورہ ہے، ''دِیدوں کا پانی مرنا''، یہ بھی زنانہ بولی کا نمونہ ہے۔ بہت آسان محاوروں میں ''آنکھ میں شرم ہونا'' (یعنی لحاظ کرنا) بہت مشہور ہے۔ اسی طرح برجستہ لکھتے ہوئے یاد آیا کہ ''دیِدہ ہَوائی'' بھی بے شرم (اورقدرے بدکردار) کے معنوں میں مستعمل ہے، یہ بھی زنانہ بولی کی دین ہے۔

زنانہ بولی کا احاطہ کرنے کو کئی لغات مرتب وشایع کی گئیں، مگر ہنوز یہ موضوع اپنی وسعت کے لحاظ سے محققین کے لیے بڑی کشش رکھتا ہے۔ متعدد کاوشوں (بشمول لغات النساء از سید احمد دہلوی، لغات الخواتین از اشہری، لغاتِ نسواں از منیر لکھنوی، ڈپٹی مولوی نذیر احمد، علامہ راشدا لخیری، ناصر نذیر فراق ؔدہلوی، میر باقر علی داستان گو، آغا حیدر، میرزا فرحت اللہ بیگ ومیرزا فہیم بیگ چغتائی، نیز فرہنگ آصفیہ، نوراللغات، جامع اللغات ودیگر کے بعد، محترمہ وزیر بیگم ضیاء (ادیب فاضل، جامعہ پنجاب) کی ''محاوراتِ نسواں''، اواخر 1936ء میں منظرعام پر آئی جو محولہ تمام کتب کا نچوڑ اور اس پر مستزاد نیا موادبالتحقیق لیے ہوئے تھی، یہی لغت دوبارہ 1944ء میں شایع ہوئی۔ اس کی پہلی اشاعت پر ، اورینٹل کالج، لاہور کے پرنسپل مولوی شفیع ،ایم۔اے نے تعارف لکھا جبکہ دوسری اشاعت پر شمس العلماء احسان اللہ خاں تاجور (یعنی احسان اللہ خاں درانی تاجورؔ نجیب آبادی:1894 - 1951 ) نے تعارف اور محترمہ خدیجہ بیگم فیروزالدین (انسپیکٹریس آف اسکولز، سینٹرل سرکل، پنجاب) نے دیباچہ تحریر کیا۔

موصوفہ کی اس سے قبل ایک کتاب ''آرائش جمال'' شایع ہوچکی تھی۔ اس کے سرورق کے فوری بعد والے صفحے (Sub-title) پر یہ عبارت درج کی گئی ہے: ''محاوراتِ نسواں یعنی دہلی و لکھنؤ کی بیگمات اور قلعہ معلّیٰ کی شہزادیوں کی ٹکسالی بولی اور لوچ دار ، نرم بیگماتی زبان کا بے نظیر مجموعہ۔ مشرقی تمدن، زنانہ جذبات، توہّمات اور رسوم کا دل آویز مرقّع۔ تالیفِ لطیف محترمہ وزیر بیگم ضیاء، ادیب فاضل، پنجاب یونیورسٹی، مصنف ''آرائش ِ جمال''، بتنقیح استاذی المکرم حضرت پروفیسرسید اولادحسین شاداںؔ بلگرامی''۔

محاورات ِ نسواں کے مقدمے بعنوان 'عرضِ حال' میں محترمہ وزیربیگم صاحبہ نے لکھا:''اردو زبان باوجود سیاسی مخالفتوں کے، عالمگیر ہو رہی ہے اور اس کی مقبولیت کا اندازہ اخباروں اور کتابوں کی تعداد سے نہیں بلکہ اس امر سے بخوبی ہو سکتا ہے کہ ہندوستان کے ہر صوبے، ہر بازار اور ہر اسٹیشن پر اردو زبان ہی مشترکہ زبان کے طور پر بولی اور سمجھی جاتی ہے اور یہ شرف کسی دوسری زبان کو حاصل نہیں۔

ایں سعادت بزورِ بازو نیست

تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

اس عالمگیر ترقی کے باوجود آج تک محاوراتِ نسواں کی کوئی ایسی کتاب شائع نہ ہوئی جو عصمتِ مآب خواتینِ ہند کے ہاتھوں میں دی جا سکے، اور جو اُن کے جذبات اور احساسات کا مرقع ہو سکے۔ چونکہ مردوں کی نسبت عورتوں کی گفتگو اور بول چال زیادہ لطیف اور پاکیزہ ہوتی ہے، اس لیے عورتوں کی زبان ہی کو ٹکسالی زبان سمجھا جاتا ہے۔ اس سے زیادہ واضح ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ 'مادری زبان' اس کا لقب ہے''۔

یہاں جوش ِتحریر یا شوق دعویٔ اولیت میں محترمہ نے یہ بات نظرانداز کردی کہ اُن سے قبل اس ضمن میں متعدد کوششیں ہوچکی ہیں اور اُس بنیادی مواد کے بغیر لغت تالیف کرنا اُن کے لیے ہرگز آسان نہ تھا۔ آگے چل کر انھوں نے تحریک آزادی کی رہنما محترمہ امجدی بانو بیگم (زوجہ رئیس الاحرار مولاناجوہرؔ) کا یہ بیان بھی نقل کیا جو اُنھوں نے کلکتہ میں خواتین کانفرنس کے اجلاس کی صدارت فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:

''.... محاورات کے لحاظ سے ہمیشہ عورتوں ہی کی زبان ٹکسالی سمجھی گئی۔ اردو کا پہلا وطن دہلی تھا۔ لیکن جب قلعہ معلیٰ کی شہزادیاں، شاہان اودھ کے محل میں آئیں تو اُن کے ساتھ اردو بھی دلی سے فیض آباد اور وہاں سے لکھنؤ پہنچی۔

عورتوں کی زبان کا مردوں کے لیے اختیار کرنا اس قدر مشکل تھا کہ بڑے بڑے شاعر بھی اسے نباہ نہ سکے۔ بلاشبہ ریختی گویوں (یعنی ریختی گو شعراء۔ س ا ص) نے اپنی ریختی میں عورتوں کا منہ چڑانے کی ضرور کوشش کی ہے لیکن جو محاورات ان کی زبان پر چڑھے، وہ سراسر بازاری تھے۔ اس میں بھی شک نہیں کہ بعضے ریختی گویوں نے خوب چربا اتارا ہے، پھر بھی اصل اصل ہے اور نقل نقل''۔ اس بیان سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ ہمارے ہردل عزیز رہنما جوہرؔ مرحوم کی بیگم صاحبہ میں بھی یہ صلاحیت موجود تھی کہ اگر زبان وادب کی تحقیق وتحریر میں دخل دیتیں تو یقیناً اردو کو ایک معتبر خاتون قلم کار میسر آجاتی۔ اب اس لغت سے کچھ خوشہ چینی ہوجائے:

اَٹھوارہ (لکھنؤ) (یعنی لکھنوی خواتین کا روزمرہ۔ س ا ص): یعنی آٹھ دن۔ عورتوں کی زبان پر بہت کثرت سے ہے، جیسے اَٹھوارے کے اَٹھوارے یونہی گزرتے ہیں، نہانا روزی نہیںہوتا (یعنی روزانہ نہیں ہوتا۔ س ا ص)، کوستی ہیں تو کہتی ہیں، تجھ پر اَٹھوارہ نہ کٹے۔

آٹے کے ساتھ گھُن بھی پِس گیا: قصوروار کے ساتھ بے قصور بھی مارا گیا، بڑے آدمی کے ساتھ، غریب کا بھی نقصان ہونا۔ (ہم نے یوں سنا اور پڑھا: گندم کے ساتھ گھُن پِسنا۔ س ا ص)

اُجلی: دھوبن، جیسے اُجلی نے کوئی کپڑا کھودیا

احسان لے جہان کا، نہ لے شاہجہان کا: یہ ذومعنی ہے (یعنی دُہرے معانی کا حامل۔ ذومعنی کہنا اور لکھنا غلط العام وغلط العوام ہے۔ س ا ص)، ایک معنی تو ظاہر ہیں کہ اگر احسان لے تو ساری دنیا کے آگے التجا لے جائے اور نہ لے تو بادشاہ سے بھی کچھ غرض نہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ احسان نہ جہان کا اُٹھائے نہ جہان کے بادشاہ کا اُٹھائے۔

اَدھر چلنا (دہلی) (یعنی دہلی کی خواتین کا روزمرہ۔ س ا ص): اِترا کر چلنا، زمین پر پاؤں نہ رکھنا (ویسے زمین پر پاؤں نہ رکھنا بھی محاورہ ہے۔ س ا ص)

آنچل پَڑنا: عورتوں کا خیال ہے کہ اگر کوئی کوکھ کی بیماری والی عورت، اپنا آنچل کسی بچے پر، ٹوٹکے کے طور پر ڈال دے تو وہ بچہ اور اُس کی ماں اِس بلا ۔یا۔مرض میں گرفتار ہوجاتی ہے۔ (یہ توہم ہے، مگر آ ج کے دور میں بھی ایسے توہمات عام ہیں۔ س ا ص)

آنکھوں کا تیل نکالنا: دِیدہ ریزی کرنا، گوٹہ کِناری یا سِینے پرونے یا لکھنے پڑھنے وغیرہ کا کام کرنا۔

بَڑ ما: جو بڑی نہ ہواور اپنے آپ کو بڑی امّا ں سمجھے۔

اب ہم ایک اور اہم لغت، لغات النساء کی بات کرتے ہیں جو ہمارے ملک کی نامور ادیبہ، شاعرہ اور محقق محترمہ وحیدہ نسیم صاحبہ (9ستمبر 1927ء بمقام حیدرآباد، دکن تا 27اکتوبر 1996ء بمقام کراچی، پاکستان۔ ریختہ ڈاٹ آرگ پر تاریخ پیدائش غلط درج ہے۔ س ا ص) نے بہت عرق ریزی سے مرتب کی۔ اسے خراج تحسین پیش کرنے والوں میں جوش ؔ ملیح آبادی جیسا ماہرِلسان بھی شامل تھا۔ اس لغت کا تعارف نامور محقق، پروفیسر ڈاکٹر اَیوب قادری صاحب نے لکھا اور اختتام پر جوشؔ کے الفاظ بھی نقل کیے۔ آئیے اس لغت کے چنداقتباسات دیکھتے ہیں:

آگ پانی: عورتیں مِرگی جیسے مرض کا نام نہیں لیتی ہیں، بلکہ اس کو آگ پانی کی بیماری کہتے ہیں، کیونکہ یہ اَذیت ناک مرض جان لیواہوتا ہے اور مریض کو آگ یا پانی کے دیکھنے سے دورہ پڑجاتا ہے۔ (میری رائے میں یہ کوئی پرانا قیاس یا وہم ہوگا کیونکہ خاکسار نے مرگی کا کوئی ایسا مریض نہیں دیکھا۔ س ا ص)

اَم چُوریا آم چُور: کیریوں کے ٹکڑوں کو سُکھا کر بنائی ہوئی کھٹائی جو دال میں استعمال ہوتی ہے۔ کنایہ ہے، دبلی پتلی عورت سے۔ تھی وہ مم چمرَخ ہوگی اور بھی اَم چُور سی۔ (آج کل بہت سے لوگ اَم چُور کے نام سے بھی ناواقف ہیں۔ س ا ص)

بُرا آزار: عورتیں دِق (تپ دق۔ س ا ص) کو کہتی ہیں۔ ...... ع ہے بُرا آزارنرگس کو، نہ دیویں فالسے! (جان صاحب)۔ یہ ریختی کا مکمل شعر ہے جوعبارت میں درست پڑھنے میں نہیں آرہا (س ا ص)

پنچائتی سالا: ہر شخص سے رشتہ جوڑنے والا

چک چک لوندے کھانا: گھی میں تر بَتَر نوالے کھانا

وحیدہ نسیم صاحبہ کی لغت میں ایک بڑا حصہ دکنی ذخیرہ الفاظ کا بھی ہے۔ اثنائے تحقیق ہمیں ایک بہت مفید نگارش انٹرنیٹ پر نظر آئی۔ اس سے محض ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:

''آسمان پو تھو کے تو اپن پوچ گرتا: (یعنی آسمان پر تھوکا۔یا۔چاند پرتھوکا، اپنے منھ پرآتا ہے۔ س اص): دکنی کے اس محاورے میں اُس بے وقوف کی طرف اشارہ ہے کہ جو غصہ میں آپے سے باہر ہوجاتا ہے اور آسمان کی طرف منھ اُٹھاکر تھو کتا ہے۔ اس بے وقوف کو یہ نہیں معلوم کہ یہ تھوک خود اُس کے منھ پر گرے گا''۔ ( دکنی محاورات' کہاوتیں اور ضرب الامثال۔ از۔ ڈاکٹرعطا اللہ خان حیدرآبادی، مقیم شکاگو، امریکا)۔ اس موضو ع پر دستیاب دیگر مواد میں بہت ساری باتیں ایسی ہیں کہ ناصرف پڑھنے میں مزہ دیتی ہیں بلکہ لسانی تحقیق کا کوئی نہ کوئی نیا باب بھی وَا کرتی ہیں۔ یہاں ایک ہندووانہ محاورہ بھی دیکھیں:''اب کھائی تو کھائی، ا ب کھاؤں تو رام دُہائی: یہ عورتوں کی زبان ہے۔

رام دہائی یعنی خدا کی پناہ۔ اگر کسی کام کا انجام برا ہو تو اس کو دوبارہ کرنا حماقت ہے۔ چنانچہ اگر کسی معاملہ میں نقصان اٹھانا پڑے تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے کہ ایسا کام دوبارہ نہیں کروں گا''۔ موضوع کو سمیٹنا نہایت دشوار ہے، بس ایک کوشش ہے کہ قارئین کرام اس اہم باب کی طرف بھی متوجہ ہوں۔

{اخذ واستفادہ: فرہنگ آصفیہ ،لغات النساء از وحیدہ نسیم،محاوراتِ نسواں از وزیر بیگم ضیاء، آن لائن دستیاب مواد بشمول دکنی محاورات' کہاوتیں اور ضرب الامثال۔ از۔ ڈاکٹرعطا اللہ خان حیدرآبادی، مقیم شکاگو، امریکا، ہندوستانی معاشرے میں 'عورت ' سے منسوب محاورات اور کہاوتیں ازفردوس انجم شیخ آصف، ہندوستان، الف۔ کی کہاوتیں، منقولہ ویب سائٹ، کہاوتیں محاورے اوراُن سے منسوب دل چسپ کہانیاںازمدثراعجاز، لاہور}

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں