کیا ہم اذیت گھر میں رہ رہے ہیں
جب ہم اپنے 75سالوں پر نظریں دوڑاتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہم تو ایک بہت بڑے ’’ اذیت گھر‘‘ میں رہ رہے ہیں
لاہور:
بیسویں صدی کا بے حد متنازعہ اور ممتاز روسی نوبیل انعام یافتہ ناول نگار الیگزنڈر سولزے نتین کا 3 اگست 2008 کو ماسکو کے قریب ایک پر رونق علاقے میں واقع اپنے مکان میں انتقال ہو گیا۔ 89سالہ سولزے نیتسن رات کے نصف پہر تک لکھنے میں مصروف تھا اچانک حرکت قلب بند ہوگئی۔
ان کی خواہش کے مطابق انھیں پر سکون موت ملی۔ ان کی بیوی نتالیہ نے کہا کہ ''سولزے کی عتاب زدہ زندگی اس وقت شروع ہوئی تھی جب 1962 میں سولز نے نیتسن کا ایک ناول One Day in the Life of Ivan Ienisovich شایع ہوا۔
یہ ناول جب روسیوں نے پڑھا تو ان کی آنکھیں حیرت سے کھلی رہ گئیں، انھیں پہلی بار اسٹالن کے گلاگ جزیرے میں بنائے اذیت گھر کا علم ہوا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اس اذیت گھر میں مجرم کے طور پر قید کیے جانے والوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جا رہا تھا وہ کس قدر ہیبت ناک اور اذیت ناک تھا۔
سولزے نیتسن نے جو کچھ لکھا تھا ، وہ وہی تھا جس کا تجربہ اور مشاہدہ اسے یہاں اپنی قید کے آٹھ برسوں میں ہوا تھا۔ نیتسن کو اس لیبر کیمپ میں قید کی سزا اس لیے دی گئی تھی کہ اس نے 1945 میں اپنے ایک دوست کو لکھے گئے خط میں اسٹالن کے آمرانہ طرز حکومت پر شدید نکتہ چینی کی تھی۔
جب نیتسن کی80 ویں سالگرہ کے موقع پر بورس یالٹسن نے روس کا سب سے بڑا اعزاز دینا چاہا تو نیتسن نے جن الفاظ میں اسے قبول کرنے سے انکار کیا وہ سولزے جیسا بڑا اور اپنی قدروں پر مٹنے والا ادیب ہی کرسکتا تھا اس نے کہا تھا I Can not accept this award from the Supreme authority whcih has brougth Russia to ruin یہ سولز ے نیتسن کا عوامی بیان تھا جسے دم سادھے پورے روس نے سنا تھا اور اپنے اس ادیب کے حوصلے کی داد دی تھی جس نے آٹھ سال کی اسٹالن کی قید اور اس کے بیس سال کی اہل خانہ کے ساتھ ملک بدری کے باوجود حکمرانوں کے لیے سر نہیں جھکایا۔ مغرب جو عالمی جنگوں کے ہاتھوں شکستہ ہوگیا تھا اور فکری اور تخلیقی سطح پر disillusion کا شکار ہو چکا تھا۔
ادیبوں جن میں کافکا ، کامیو ، ایلن گنز برک، سیموئل بیکٹ ، آرتو نے '' ہاں '' سے زیادہ انکار میں دلچسپی لی ہر دور میں دنیا کے ہر اقرار پسند معاشرے میں ایسے دیوانے بھی ہوئے ہیں جنھوں نے برائی کو بھلائی کہنے سے ہمیشہ انکار کیا اور سزا پائی۔ سقراط نے '' نہیں '' کہا اور اسی جرم کی پاداش میں اس کو زہر کا پیالہ پینا پڑا۔ حضرت عیسیٰؑ نے '' نہیں '' کہا اور مصلوب ہوئے۔
حضرت امام حسینؓ نے ''نہیں '' کہا اور شہید ہوئے۔ امام ابو حنیفہؒ نے '' نہیں '' کہا اور بارہ سال قید رہ کر قید خانے میں ہی وفات پائی۔ برونو اور جان ہوس نے '' نہیں '' کہا اور آگ میں جلائے گئے۔ تھامس مور نے '' نہیں '' کہا اور قتل ہوا۔ سرمد نے '' نہیں '' کہا اور سر قلم کروایا۔
حسن و وفا کی پیکر طاہرہ قرۃ العین نے '' نہیں '' کہا اور ماری گئی۔ کارل مارکس نے '' نہیں '' کہا اور ملک بدر ہو کر تمام عمر فاقے کرتا رہا۔ سردار بھگت سنگھ نے '' نہیں '' کہا اور پھانسی پائی، جولیس فوچیک اور گیبریل پری نے '' نہیں '' کہا اور قتل ہوئے چلی کے صدر الندے نے '' نہیں '' کہا اور زندگی جمہوری قدروں پر نچھاور کردی۔
دوسری طرف جب ہم اپنے 75سالوں پر نظریں دوڑاتے ہیں تو ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ ہم تو ایک بہت بڑے '' اذیت گھر'' میں رہ رہے ہیں ، ایسا اذیت گھر جس میں 22 کروڑ زندہ سانس لیتے انسانوں کی حیثیت کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے، جن کے تمام خواب آنکھوں سے نوچ کر جلا دیے گئے ہیں، جو زندگی کی تمام گندگیوں میں رہتے ہیں اور ان ہی کو کھاتے ہیں۔ اختیار، حقوق، انصاف، خوشیاں، سکون، خوش حالی، چند ہزار گھروں کی لونڈی بنی ہوتی ہے پھر اس وقت اپنے آپ کو پیٹنے کا دل چاہتا ہے ماتم کرنے کو من کرتا ہے جب پورے ملک سے کہیں سے بھی کوئی ''نہیں'' کی آواز سننے کو نہیں ملتی ہے، وہ انسان جو بول سکتے ہیں، لکھ سکتے ہیں، چلا سکتے ہیں، چیخ سکتے ہیں۔
سب کے سب گونگے، بہرے بنے ہوئے ہیں ملک میں کوئی ایک بھی جیل ایسی نہیں ہے جہاں کوئی ایک مجرم ''نہیں'' کہنے والا اپنے جرم کی سزا کاٹ رہا ہو۔ پورے ملک میں کوئی ایک آواز ایسی نہیں سنائی دیتی ہے جو کہہ رہی ہو ''خدارا اس اذیت گھر کو جلا دو ! آگ لگا دو۔ اس میں بسنے والوں کو زندگی کی خوشیاں اور نعمتیں بھیک ہی میں دے دو۔'' ایسی بانجھ زمین آپ کو دنیا بھر میں کوئی اور نہیں ملے گی جہاں ہر شخص صرف اپنے لیے زندہ ہے جہاں کوئی شخص دوسروں کی طرف دیکھنے کو تیار نہیں ہے۔
آج انسانیت ہر ایمان دار کے گھر کے باہر کھڑی ہوکر بقول پی سی کوگن اس سے پوچھ رہی ہے ''دونوں میں سے کس کے مرید ہو، پیشہ ور گوشہ نشینی یا عوام سے یگانگی، جنگلوں اور پہاڑوں کی چاہت یا انسانیت کی خدمت؟ غیر ذمے دارانہ خود سری یا خیالات کا ارتباط ؟ قدرت یا ضمیر ؟ تقدیر یا تدبیر؟ قدرت کی اطاعت یا قدرت پر حکومت ؟ آرٹ آرٹ کے لیے یا آرٹ انسان کے لیے؟ زمین یا آسمان ؟ بیگانگی یا یگانگی؟ ان میں سے ایک پر زندہ درگور بنائے قدیم کا انحصار ہے اور دوسرے پر مستقبل کا دارومدار۔ تم دونوں میں سے کس کے حامی ہو؟''۔
عظیم آفاقی شاعر ٹیگور اپنی ایک نظم ''بوڑھا نوکر'' میں اس ملازم کا تذکرہ رو رو کر کرتا ہے جو لاکھ تکلیفیں جھیل کر بھی اف نہیں کرتا اور مالک کو خدا مانتا ہوا اس کی چوکھٹ پر مر جاتا ہے۔ عظیم نوبیل انعام یافتہ ادیب پاؤلو کوئیلھو"The Master" میں لکھتا ہے ''ابھی کچھ دیر پہلے تم نے مجھے معلم کہا ہے ٹھیک ہے شکریہ۔ لیکن معلم کون ہوتا ہے؟ معلم وہ نہیں جو تمہیں کچھ بھی سکھا دے، بلکہ معلم وہ ہوتا ہے جو تمہاری روح میں پہلے سے موجود صرف تمہارے حصے کے علم کو دریافت کرنے کا طریقہ سکھا دے۔ تب تم مزے سے اپنے راستے پر چلنا شروع ہو جاتے ہو۔
تمہارا ذاتی علم اس وقت تک خوابیدہ ہوتا ہے جب تک اسے جگایا نہ جائے معلم کبھی بھی مچھلی کو اڑنا نہیں سکھاتا ہے بلکہ وہ سبق بھول چکی مچھلی کو نہایت دلکش انداز میں تیرنے کی جانب راغب کردیتا ہے۔ شاید مچھلیوں کو اس علم کی ضرورت نہ پڑے مگر انسان اپنی روح کو بھول جاتا ہے اسے ضرورت پڑتی ہے لہٰذا میں نے تمہیں کچھ بھی نیا نہیں سکھایا یہ سب تم پہلے سے جانتے تھے مگر بھولے ہوئے تھے۔'' بقول ہومر کے پتھر یا لکڑی کے نہیں بلکہ گوشت پوست کے انسان ہیں۔ پیٹ بھر کے روٹی ہمارا بھی حق ہے۔
ہماری بھی ہزاروں چھوٹی چھوٹی خواہشات ہیں جنھیں ہم پورا ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم سب آزادی سے سانس لینا چاہتے ہیں۔ دنیا بھر کے باقی انسانوں کی طرح خو ش و خرم زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔
اپنے آپ کو محفوظ دیکھنا چاہتے ہیں۔ اپنے آپ کے سامنے اور اپنے پیاروں کے سامنے اپنی عزت چاہتے ہیں۔ زندگی کی لذتوں سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں۔ یاد رکھو ہماری آوازیں اگر سنائی نہیں دے رہی ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم گونگے ہوگئے ہیں۔ ہم اپنے ساتھ ہونے والی تمام ناانصافیاں دیکھ رہے ہیں یہ مت سمجھنا کہ ہم اندھے ہوگئے ہیں۔ ہم '' نہیں '' کہنا اچھی طرح سے جانتے ہیں اور اس کے نتائج سے بھی اچھی طرح واقف ہیں۔ اس لیے ہمارے صبر کا اور امتحان مت لو۔