علی سفیان آفاقی
روزنامہ نوائے وقت میں رائٹر اور افسانہ نگار علی سفیان آفاقی نے مضامین لکھنے شروع کیے
جیسے ہی ہندوستان کا بٹوارا ہوا اور نیا ملک پاکستان عالم وجود میں آیا تو لاہور کی فلم انڈسٹری بھی لاہور سے بمبئی شفٹ ہوگئی تھی اور لاہور میں فلم زبوں حالی کا شکار تھی۔ لاہور فلم اسٹوڈیو اجڑگیا تھا۔
پھر آہستہ آہستہ لاہور میں فلم کے کاروبارکا آغاز ہوا، پاکستان کی پہلی فلم '' تیری یاد'' جو قیام پاکستان سے قبل 1947 میں شروع ہوئی تھی وہ فلم 7 اگست 1948 میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم کے ہیرو دلیپ کمار کے چھوٹے بھائی ناصر خان تھے اور ہیروئن آشا پوسلے تھی، یہ فلم ناکام ہوگئی تھی۔
پھر لاہور میں فلمی صحافت نے زور پکڑا۔ ہندوستان سے ماہنامہ شمع دہلی، کہکشاں بمبئی اور فلم فیئر میگزین آنا شروع ہوئے تھے لاہور سے بھی ماہنامہ شمع نکلتا تھا جس کے ایڈیٹر تجمل حسین، ایک رسالہ فلم لائٹ جو ماہنامہ تھا اس کے ایڈیٹر عیسیٰ غزنوی تھے اور اسی دوران شاعر شباب کیرانوی نے بھی لاہور سے ماہنامہ پکچرز کا آغاز کیا۔ پھر روزنامہ نوائے وقت میں رائٹر اور افسانہ نگار علی سفیان آفاقی نے مضامین لکھنے شروع کیے۔
ان کی دوستی شباب کیرانوی سے بہت اچھی تھی ایک دن انھوں نے شباب کیرانوی کو ایک ہلکی پھلکی رومانٹک مزاحیہ کہانی سنائی اور کہا '' شباب صاحب! یہ کہانی فلم کے لیے بڑی موزوں ہے'' اور اس طرح آفاقی کی کہانی سے شباب کیرانوی نے باقاعدہ اپنا پروڈکشن ادارہ بنایا اور اپنے ایک کیمرہ مین دوست کو بطور پروڈیوسر ساتھ لیا، اسی دوران علی سفیان آفاقی نے شباب کیرانوی سے کہا '' میں کراچی میں ایک نوجوان سے ملا ہوں وہ ہو بہو مشہور انڈین فلمی ہیرو راج کپور لگتا ہے۔ میں اس کو لاہور بلواتا ہوں میرا اس سے رابطہ ہے۔
پھر وہ نوجوان سید کمال لاہور میں آ کر جب شباب کیرانوی سے ملا تو شباب صاحب اسے دیکھ کر حیرت زدہ ہوگئے، بولے '' ارے بھئی! یہ تو دوسرا راج کپور ہے۔'' فلم کا نام پھر ٹھنڈی سڑک رکھا گیا اور نئے ہیرو سید کمال کے ساتھ ایک نئی لڑکی مسرت نذیر کو ہیروئن کاسٹ کیا گیا، فلم میں کمال کو بالکل راج کپور کا گیٹ اپ دیا گیا، وہ فلم ریلیز ہوئی اور اس نے شاندار کامیابی حاصل کی۔ اپنی فلم کی کامیابی کے بعد شباب کیرانوی نے پھر باقاعدہ فلم سازی کا آغاز کردیا تھا اور پھر انھوں نے اپنی فلموں کے ذریعے بے شمار نئے آرٹسٹوں کو متعارف کرایا، جو لاہور کی فلم انڈسٹری میں چھا گئے تھے۔
فلم ''ٹھنڈی سڑک'' 1957 میں ریلیز ہوئی تھی اور کمال کے ساتھ مسرت نذیر بھی معروف ترین فنکاروں میں شمار کیے جانے لگے۔ مسرت نذیر اردو اور پنجابی فلموں کی نامور ہیروئن بن گئی تھی اور کمال پاکستان فلم انڈسٹری کا پہلا چنچل ہیرو بن کر منظر عام پر آیا تھا۔
کمال کے بعد وحید مراد، محمد علی اور ندیم فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوئے تھے، ہدایت کار حسن طارق بھی منظر عام پر آچکے تھے کئی فلمیں ہٹ ہو چکی تھیں، علی سفیان آفاقی کی حسن طارق سے اچھی دوستی تھی۔ انھوں نے حسن طارق کے اشتراک سے پھر خود فلم سازی کا آغاز کیا اور پہلی فلم کنیز کے نام سے پروڈیوس کی، کہانی مکالمہ و اسکرین پلے خود لکھے اور فلم میں وحید مراد، زیبا، محمد علی، صبیحہ خانم، ادیب طالش اور لہری کو کاسٹ کیا۔
اس زمانے میں علی سفیان آفاقی کراچی کے مشہور فلمی ہفت روزہ نگار کے لیے بھی مضامین لکھا کرتے تھے اور ایڈیٹر الیاس رشیدی صاحب نے نگار پبلک فلم ایوارڈز کا بھی آغاز کردیا تھا۔ جس سال فلم کنیز ریلیز ہوئی فلم بینوں میں بہت پسند کی گئی اور بزنس کے اعتبار سے بھی کامیاب رہی اور پھر اس سال فلم کنیز کو کئی نگار ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔
بحیثیت فلم ساز اور ایڈیٹر علی سفیان آفاقی کی فلم انڈسٹری میں دھوم مچ گئی تھی۔ کنیز بلیک اینڈ وہائٹ فلموں کے دور میں بنائی گئی تھی، یہ فلم 26 نومبر 1965 میں ریلیز ہوئی تھی اور فلم نے گولڈن جوبلی منائی تھی۔ علی سفیان آفاقی بحیثیت فلم ساز و ہدایت کار بھی خم ٹھونک کر فلم انڈسٹری میں آگئے اور چھا گئے تھے اور پھر انھوں نے یکے بعد دیگرے کئی فلمیں پروڈیوس بھی کیں اور ڈائریکشن بھی دی تھی۔
فلم آس میں شبنم کے ساتھ محمد علی کو ہیرو کاسٹ کیا۔ پھر انھوں نے سزا کے نام سے ایک فلم بنائی جس میں ایک نیا ہیرو متعارف کرایا۔ جمیل اور اس کے ساتھ روزینہ کو ہیروئن کاسٹ کیا مگر یہ فلم بری طرح ناکام ہوئی اور ہیرو جمیل بھی فلاپ ہو گیا۔ آفاقی صاحب نے اس فلم سے بڑا نقصان اٹھایا تھا اور پھر انھوں نے اپنی پروڈکشن بند کردی تھی اور بحیثیت رائٹر ہی اپنے کیریئر کو آگے بڑھایا، اس دوران شباب کیرانوی کی فلم دامن اور چنگاری کے مکالمے لکھے، حسن طارق کی فلم دیور بھابھی کے مکالمے لکھے، فلم ساز سلیم اشرفی کی فلم بندگی کے مکالمے و اسکرین پلے لکھے۔
علی سفیان آفاقی کی لکھی ہوئی فلموں میں بندگی، پلے بوائے، مس کولمبو، الوداع نہ کہنا کو فلم بینوں نے بڑا پسند کیا تھا۔ انھوں نے شمیم آرا پروڈکشن کے ساتھ بھی کچھ وقت گزارا تھا اور ہدایت کارہ شمیم آرا کی فلموں کے لیے بھی مکالمہ اور اسکرین پلے لکھے تھے پھر اردو فلموں کو زوال آنا شروع ہوا اور پنجابی فلمیں اردو فلموں پر چھا گئیں اردو فلموں سے متعلق ہدایت کار رائٹرز اور موسیقار بدحالی کا شکار ہونے لگے اور متبادل تلاش کرنے لگے۔ علی سفیان آفاقی بھی دوبارہ سے صحافت کی طرف آگئے اور انھوں نے نوائے وقت گروپ میں شمولیت اختیار کرلی اور فیملی میگزین سے وابستہ ہوگئے تھے اس دوران انھوں نے فلمی دنیا سے متعلق اپنی یادداشتوں کو تحریری شکل میں لکھنا شروع کردیا اور اس سلسلے کا عنوان طلسماتی الف لیلیٰ رکھا ان کی یہ یادداشتیں پڑھنے والوں میں بڑی مقبول ہوتی چلی گئیں اور ان فلمی یادداشتوں کو دیگر کئی ڈائجسٹوں نے بھی اپنے صفحات پر جگہ دی۔
میری علی سفیان آفاقی سے کراچی میں بھی اور پھر جب میں لاہور میں نگار ویکلی کا نمایندہ بن کر گیا تو بہت سی ملاقاتیں رہیں ، مگر میری کراچی میں ان کے ساتھ پہلی ملاقات بڑی دلچسپ تھی۔ یہ اکثر و بیشتر جب کراچی میں نگار فلم ایوارڈ کی تقریبات ہوتی تھی تو یہ کراچی ضرور آتے تھے۔ اسی دوران دکھی پریم نگری نے پہلی بار میرا تعارف علی سفیان آفاقی سے کرایا تھا اور کہا تھا کہ'' یہ نوجوان رائٹر اور شاعر بھی لاہور کی فلم انڈسٹری میں اپنی قسمت آزمانا چاہتا ہے آپ اس کو کیا مشورہ دیں گے'' تو انھوں نے کہا کہ '' پہلے یہ اپنی کچھ شاعری تو سنائیں'' تو میں نے اپنی چند غزلیں ان کو سنائی تھیں انھوں نے وہ غزلیں پسند کرتے ہوئے کہا تھا۔ '' بھئی ! اچھی شاعری کرنا اور فلموں کے لیے گیت لکھنا دو مختلف باتیں ہیں فلمی دنیا میں چاہے کوئی بھی شعبہ ہو بڑی گروپ بندی ہوتی ہے اور اس گروپ بندی میں کسی بھی شاعر کو اپنے لیے جگہ بنانا بڑا مشکل امر ہوتا ہے ، آپ لاہور آئیں ضرور آئیں اور اعتماد کے ساتھ وہاں اپنے قدم جمانے کی کوشش کریں'' میں نے علی سفیان آفاقی کی ایک ایک بات کو گرہ میں باندھ لیا تھا۔ ان دنوں اداکار رنگیلا نے دو فلمیں ایک ساتھ شروع کی تھیں ایک ''کبڑا عاشق'' اور دوسری فلم ''صبح کا تارہ'' کے نام سے۔ رنگیلا جب بھی کراچی آتے تو میری ان سے ملاقات رہتی تھی، جب رنگیلا کو میں نے اپنے چند گیت اور غزلیں سنائیں تو انھوں نے میری شاعری کو سراہتے ہوئے مجھے اپنی فلم '' صبح کا تارہ '' کے لیے گیت لکھنے کا موقعہ دیا اور میں نے فلم کے لیے جو پہلا گیت لکھا وہ مہدی حسن کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا۔ فلم کے موسیقار کمال احمد تھے۔ جب علی سفیان آفاقی کو میرے اس گیت کے بارے میں پتا چلا تو وہ بڑے خوش ہوئے اور بولے '' یونس ہمدم! تم خوش قسمت ہو کہ تمہیں لاہور میں جلد ہی ایک اچھی پروڈکشن مل گئی۔ اب تم ترقی کی منزل کی طرف بڑھتے چلے جاؤ گے'' پھر جتنا عرصہ میں لاہور میں رہا علی سفیان آفاقی سے مختلف فلموں کے سیٹوں پر ان سے میری ملاقاتیں رہتی تھیں۔ وہ بہت ہی شگفتہ مزاج اور خوش لباس انسان تھے۔ ان سے مل کر مجھے ہمیشہ بڑی طمانیت اور حوصلہ ملتا تھا۔ پھر وہ آنکھوں کی بیماری میں مبتلا ہوگئے، پھر مزید بیماریوں نے بھی ان کو گھیر لیا تھا۔ میں بھی فلم انڈسٹری کے زوال کے بعد لاہور سے واپس کراچی آگیا تھا۔ انھوں نے ایک لمبی عمر گزاری تھی اور پھر 28 جنوری 2014 میں بیماری کی حالت ہی میں لاہور میں ان کا انتقال ہو گیا تھا۔
علی سفیان آفاقی فلمی دنیا کا ایک بڑا نام تھا۔ بہت سی شخصیات کو انھوں نے فلمی دنیا سے متعارف کرایا اور کئی نئے چہرے بھی فلمی دنیا کو دیے۔ شباب کیرانوی ان ہی کی ایک کہانی کی وجہ سے فلم سازی کے میدان میں اترے تھے۔ میری دعا ہے اللہ کریم ، علی سفیان آفاقی کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کی مغفرت فرمائے۔ (آمین)