تعلیم پر سرمایہ کاری

پاکستانی ریاست کی آج بھی تعلیم ترجیح نہیں ہے،یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی بحران آتا ہے تواعلیٰ تعلیم کا بجٹ کم کیاجاتا ہے


Dr Tauseef Ahmed Khan June 04, 2022
[email protected]

ISLAMABAD: پاکستان تحریک انصاف کی حکومت رخصت ہوئی۔ میاں شہباز شریف کی قیادت میں مخلوط حکومت اقتدار کے منصب پر فائز ہوئی ۔ سابقہ حکومت نے اعلیٰ تعلیم کے بجٹ کو کم کردیا تھا ۔ وزارت تعلیم نے تجویز پیش کی تھی کہ اعلیٰ تعلیم کے بجٹ میں 60 فیصد کٹوتی کی جائے۔

اس تجویز پر اساتذہ اور سول سوسائٹی نے سخت ردعمل کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اس معاملہ کی گہرائی کو محسوس کیا اور اب وزیر اعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے اعلامیہ میں واضح کردیا گیا ہے کہ اعلیٰ تعلیم کا بجٹ کم نہیں ہوگا مگر وفاقی حکومت نے بجٹ میں اضافہ کا کوئی عندیہ نہیں دیا ، اگر بجٹ میں اضافہ نہ ہوا تو اس تناظر میں سرکاری یونیورسٹیاں جو پہلے ہی مالیاتی اور انتظامی بحران کا شکار تھیں ، اسلام آباد میں اعلیٰ سطح تبدیلیوں کے باوجود سرکاری یونیورسٹیوں کا بحران مزید بدتر ہوجائے گا۔

ماہرین کا تخمینہ ہے کہ ملک کی سرکاری یونیورسٹیوں کو اپنے تمام اخراجات کے لیے 100 بلین روپے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یونیورسٹیوں کی آمدنی کا ذریعہ طلبہ سے حاصل ہونے والی فیس ہے۔ سرکاری یونیورسٹیوں میں متوسط اور نچلے طبقہ کے طالب علم داخلہ لیتے ہیں۔ ملک کے اندرونی علاقوں میں قائم یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے والے طلبہ کی اکثریت کا تعلق دیہاتوں سے ہوتا ہے ، جہاں آمدنی کا تناسب شہروں کے مقابلہ میں کم ہے۔

دیہاتی والدین کے لیے بچوں کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنا بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کی بناء پر شہروں میں متوسط اور نچلہ متوسط طبقہ اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے کی جستجو میں ہے۔ ان کے بچے زیادہ فیس ادا کرنے کے قابل نہیں ہیں۔

ملک کی بیشتر سرکاری یونیورسٹیوں میں اپنے ملازمین کو پنشن کی ادائیگی کے لیے کئی برسوں سے فنڈز نہیں ہیں۔ یہ صورتحال وفاق کے زیر انتظام یونیورسٹیوں کی بھی ہے اور صوبوں کے زیر انتظام یونیورسٹیوں کی بھی ہے۔ چاروں صوبوں کی کئی یونیورسٹیوں میں کئی کئی سال پہلے ریٹائر ہونے والے اساتذہ اور غیر تدریس عملہ اسی طرح دفتروں کے چکر لگا رہا ہے۔

ان اساتذہ میں سے کئی تو اﷲ کو پیارے ہوچکے ہیں۔ ان کے لواحقین چکر کاٹتے ہیں اور ان میں سے کئی اساتذہ نے تیس سال خدمات انجام دی ہیں۔ ان کے بچے ضرور یہ سوچنے پر مجبور ہونگے کہ ان کے والد یا والدہ کو تعلیم کے مقدس پیشہ کو اختیار کرنے کے بجائے اور کسی شعبہ میں قسمت آزمانی چاہیے تھی تو انھیں یہ دن دیکھنے نہ پڑتے۔ فنڈز کی کمی کی بناء پر سندھ میں قائم وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے زیر اہتمام قائم یونیورسٹیوں میں صورتحال زیادہ خراب ہے۔ کراچی یونیورسٹی کا مالیاتی بحران گزشتہ دس برسوں سے سنگین ہوچکا ہے۔

کراچی یونیورسٹی کا ایوننگ پروگرام خودکفالت کے اصول کے تحت کام کرتا ہے۔ جس تعلیمی شعبہ میں مقررہ حد تک داخلے مکمل نہیں ہوتے وہاں داخلے اس بناء پر منسوخ کر دیے جاتے ہیں کہ اس پروگرام سے حاصل ہونے والی آمدنی سے اخراجات پورے نہیں ہونگے۔ ایوننگ پروگراموں میں فرائض انجام دینے والے اساتذہ کو دو دو سال سے معاوضہ نہیں ملا۔ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے سرکاری طور پر تو یہ بات ظاہر نہیں کی کہ ایوننگ پروگرام کی آمدنی یونیورسٹی کے ملازمین کو تنخواہیں اور لیو انکیشمنٹ کی ادائیگی کے لیے خرچ ہوتی ہے۔

کراچی یونیورسٹی کی سڑکیں ٹوٹ چکی ہیں۔ تعلیمی شعبوں میں بھی کلاس رومز کی کمی ہے ، بعض شعبوں میں اب بھی اساتذہ تختہ سیاہ پر چاک سے لکھتے ہیں۔ کئی شعبوں میں طالب علموں کو لیپ ٹاپ فراہم نہیں کیے جاتے۔ کلیہ سائنس کی تجربہ گاہوں میں کیمیکل اور آلات دستیاب نہیں ہیں اور نہ یونیورسٹی ریسرچ جرنل خریدنے کے قابل ہے۔ برسوں سے ترقی کے منتظر اساتذہ ہزاروں روپے کا کیمیکل خرید کر تجربات مکمل کرتے ہیں، یوں ان کے ریسرچ پیپرز تیار ہوتے ہیں۔ وفاقی اردو یونیورسٹی کے کراچی کے دونوں کیمپس میں عمارتیں بوسیدہ ہوچکی ہیں۔ تدریس کے لیے کمروں کی کمی ہے۔

ابھی تک اسمارٹ کلاس روم کا تصور عملی شکل اختیار نہیں کرسکا ہے۔ وفاقی اردو یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی کے طلبہ کے تھیسز بھی یورپ اور امریکا بھیجے جاتے ہیں۔ طالب علموں کو کوریئر سروس کے اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں اور یونیورسٹی غیر ملکی ماہرین کو طالب علم کے تھیسز کی جانچ پڑتال کے لیے رقم ادا نہیں کرتی۔ امریکا اور یورپی ممالک کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ کو اردو یونیورسٹی کے ایم ایس اور پی ایچ ڈی کے طلبہ کے تھیسز کی جانچ پڑتال کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یونیورسٹیوں سے زبانی امتحان لینے کے لیے آنے والے اساتذہ کو کئی برسوں سے معاوضہ نہیں ملا۔ اس صورتحال میں طالب علموں نے براہِ راست غیر ملکی ممتحن کو معاوضہ کی رقم فراہم کرنے کا آسان طریقہ دریافت کرلیا تھا۔

وفاقی اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اطہر عطاء جنھوں نے گزشتہ ہفتہ یہ عہدہ سنبھالا ہے اور وہ 23 سال کینیڈا میں تدریس اور تحقیق کے فرائض انجام دیتے رہے وہ اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ یہ صورتحال کو بہتر بنائیں گے۔

عمران خان کی حکومت نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کو یہ انوکھی تجویز دی تھی کہ یونیورسٹیاں اپنی قیمتی اراضی فروخت کرکے مالیاتی بحران کو کم کریں مگر ایچ ای سی کے چیئرمین ڈاکٹر طارق بنوری نے اس تجویز کو خطرناک قرار دیتے ہوئے یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ یوں لینڈ مافیا کا کردار سامنے آئے گا اور نیب کی مداخلت بھی اس سے شروع ہوجاتی ہے۔

یونیورسٹیاں اپنے قیمتی اثاثوں سے محروم ہوجائیں گی اور مگر یہ مسئلہ صرف محدود عرصہ کے لیے ہی حل ہوسکے گا۔ ڈاکٹر طارق بنوری پر عمران خان حکومت کا عتاب نازل ہوا اور ایک متنازعہ قانون کے تحت انھیں رخصت کردیا گیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر ڈاکٹر بنوری بحال ہوئے۔ ان کے عہدے کی میعاد گزشتہ مہینہ ختم ہوئی تو وزارت تعلیم نے اسی متنازعہ قانون کے تحت چیئرمین کے تقرر کے لیے اشتہار دے دیا۔

بھارت کے شہر کلکتہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کے 6سے زیادہ پروفیسرز کو نوبل پرائز ملا ہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے ایک پروفیسر ڈاکٹر عبد السلام کو اعزاز حاصل ہو ، یونیورسٹیاں آزادئ اظہار اور علمی آزادی کا سب سے بڑا مرکز ہوتی ہیں۔ مہذب ریاست میں یونیورسٹی کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کی جاتی اور ریاست یونیورسٹیوں کی صرف ضروریات پوری کرتی ہے۔

امریکا اور یورپی ممالک کی یونیورسٹیوں کا بجٹ بعض دفعہ پاکستان کے مجموعی بجٹ کے برابر ہوتا ہے اور کچھ امریکی یونیورسٹیوں کا بجٹ پاکستان کے بجٹ سے زیادہ ہوتا ہے۔ پاکستانی بھارت کو ہر شعبہ میں شکست دینے کے عزائم رکھتے ہیں۔ حکمراں نعرے لگاتے ہیں کہ بھارت کو شکست دیں گے مگر بھارت میں تعلیم کا بجٹ پاکستان کے مقابلہ میں کئی گنا زیادہ ہے۔ بھارت کی یونیورسٹیوں کو ریسرچ کے لیے ہر سال اربوں ڈالر ملتے ہیں۔

پاکستانی ریاست کی آج بھی تعلیم ترجیح نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی بحران آتا ہے تو اعلیٰ تعلیم کا بجٹ کم کیا جاتا ہے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے 1999ء میں ایٹمی دھماکا کیا تھا۔ امریکا نے پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد کردی تھیں تو اس وقت بھی اعلیٰ تعلیم کا بجٹ کم ہوا تھا۔

شہباز شریف اور بلاول بھٹو کو صورتحال کا ادراک کرنا چاہیے۔ یونیورسٹیوں کی گرانٹ میں کمی کے بجائے صد فی صد اضافہ وقت کی ضرورت ہے۔ حکومت کو غیر پیداواری اخراجات خاص طور پر دفاعی اخراجات پر نظرثانی کرنی چاہیے ، تعلیم پر سرمایہ کار ی نئی نسل پر سرمایہ کاری ہوتی ہے، اس حکومت کو اس اصول کو مان لینا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔