شایدکہ وہ نہ سمجھیں مری بات
کراچی کےشہریوں کایہ حال ہےکہ مرےکومارے شاہ مدار۔دیگرجرائم میں اضافہ اپنی جگہ ،بھتہ پہلے جرائم پیشہ افراد وصول کرتے تھے
ویسے تو پورا ملک ہی قتل وغارت گری، بدامنی اور قانون شکنی کی زد میں ہے۔کبھی اسلام آباد عدالت پر حملہ ہوجاتا ہے، توکبھی پشاور کے قصہ خوانی بازار کو خون میں نہلادیا جاتا ہے۔لیکن ملک کے سب سے بڑے شہر کاحال کچھ زیادہ ہی خراب ہے۔شہر دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ، جرائم پیشہ افراد کی جنت اور مختلف مافیاؤں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔گزشتہ دنوں چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران پولیس اور رینجرز کی جانب سے پیش کردہ رپورٹس پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔ان کا کہنا تھا کہ چھ ماہ کے دوران 10 ہزارسے زائد افراد گرفتارکیے گئے، لیکن اب تک چالان صرف 175افراد کے پیش کیے جا سکے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات کا پولیس اور رینجرز کے سربراہ کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
کراچی میں 5ستمبر2013 سے جرائم پیشہ افراد کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن جاری ہے جو بڑے بڑے دعوؤں کے ساتھ شروع کیاگیا۔ مگر 6 ماہ گذرجانے کے باوجود بہتری تو کجا، حالات مزید ابتر ہوئے ہیں۔ہوسکتا ہے کہ کچھ حلقوں کو اس آپریشن سے ہنوز کوئی امید وابستہ ہو، لیکن اس شہرکے باسیوں کو اس کے نتیجے میں کسی بہتری کی توقع نہیں ہے۔ کراچی کے شہریوں کا یہ حال ہے کہ مرے کو مارے شاہ مدار۔دیگر جرائم میں اضافہ اپنی جگہ ،بھتہ پہلے جرائم پیشہ افراد وصول کرتے تھے،اب پولیس بھی اس میں شریک ہوچکی ہے۔جگہ جگہ پوزیشن سنبھال کر چیکنگ کے نام پر شہریوں بالخصوص نوجوانوں کی جیبیں صاف کی جارہی ہیں۔دوسری طرف رینجرز جو اس شہر میں گزشتہ دودہائیوں سے تعینات ہے،وہ جرائم میں کمی لانے میں مصروف تو ہے مگر ابھی تک مطلوبہ نتائج سامنے نہیں آئے۔جمعے کو رینجرز کی گولی سے ایک اور بے گناہ شخص ہلاک ہوگیا۔ اس سے قبل سرفراز شاہ نامی نوجوان بھی رینجرز کی گولیوں کا نشانہ بن چکا تھا۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 6ماہ مکمل ہونے کے باوجود مطلوبہ نتائج حاصل کیوں نہیں ہوسکے۔ تو اس سوال کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ 1860ء کے انتظامی اور پولیس ڈھانچے کے ساتھ کراچی جیسے میٹروپولیٹن شہر میں انتظامی امور نہیں چلائے جاسکتے۔ ان صفحات پر بارہا اظہار کیا گیا ہے کہ کراچی کے مسئلے کا حل نہ موجودہ پولیس سسٹم کے ذریعے ممکن ہے اور نہ رینجرز کو مزید اختیارات تفویض کرنے سے حاصل ہوسکتا ہے بلکہ پورے انتظامی ڈھانچہ کی تشکیل نوکی ضرورت ہے۔ یہ بات4ستمبر کو آپریشن شروع ہونے سے ایک روز قبل سینئرصحافیوں اورتجزیہ نگاروں سے وزیر اعظم کی ملاقات کے موقعے پر بھی کہی گئی تھی اور پھر اکتوبر کے پہلے ہفتے میں آپریشن کا جائزہ لینے کے لیے جب وزیر اعظم دوبارہ کراچی تشریف لائے اور صحافیوں سے ملاقات کی، تب بھی ان سے یہی بات کی گئی کہ جرائم پر قابو پانے کے لیے پولیس کی تشکیل نو بہت ضروری ہے۔مگر نقار خانہ میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔جب وفاقی سے صوبائی تک دونوں حکومتیں یہ طے کیے بیٹھی ہوں کہ چاہیے کچھ ہوجائے اقتدار و اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل نہیں کرنا اور اسی نوآبادیاتی ڈھانچے کے ساتھ محض لیپا پوتی کرنا ہے،تو پھر کسی مثبت نتیجہ کی توقع کرنا عبث ہے۔
کراچی ملک کا واحد تجارتی مرکز ہے، جہاں رسمی سیکٹر کے علاوہ غیر رسمی سیکٹر(Informal)سیکٹر میں روزگارکے بے پناہ ذرایع موجود ہیں۔جس کی وجہ سے پورے ملک کے علاوہ افغانستان،بنگلہ دیش اور برما وغیرہ کے باشندے روزگار کی تلاش میں یہاں آتے ہیں۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد سے اب تک اس شہر کے لیے ٹھوس بنیادوں پرطویل المدتی پالیسی تشکیل دینے کی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔شہر کا پہلا اور آخری اقتصادی سروے 1951 میں کیا گیا۔اس کے بعد اس قسم کی کوئی زحمت نہیں کی گئی۔ قیام پاکستان کے بعد ہندوستان کے مختلف حصوں سے ہجرت کرکے آنے والی کمیونٹیز کی ایک بہت بڑی تعداد نے اس شہر کو اپنا مستقل مسکن بنایا۔یہ حکومت کی ذمے داری تھی کہ وہ مقامی سندھی اور بلوچ آبادی کے ساتھ نئے آنے والوں کو ہم آہنگ کرنے کے لیے کوئی عمرانی معاہدہ تشکیل دیتی۔مگر نہ کسی حکومت نے اس جانب توجہ دی اور نہ ہی سیاسی جماعتوں نے اس کی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کی۔نتیجتاً شہر میں پہلا لسانی فساد جنوری1965ء میں صدارتی انتخابات کے بعد ہوا، جب فوجی آمرایوب خان نے دھاندلی سے محترمہ فاطمہ جناح کو شکست دینے کے بعد اس شہر میں کامیابی کا جشن منانے کی کوشش کی۔ اس کے بعد دوسرا فساد 1972ء میں لسانی بل کی منظوری کے موقع پر ہوا۔ جس کے برپا ہونے میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے پھیلائی گئی غلط فہمیوں کا کلیدی کردار تھا۔1985ء کے بعد یہ شہر مختلف نوعیت کے فسادات میں گھرا ہونے کے علاوہ جرائم کی بھی آماجگاہ بن گیا ہے۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں کراچی سب سے زیادہ نظر انداز کیے جانے والا شہر بن گیا۔اس دوران ایک طرف فرقہ واریت اور دوسری طرف لسانی تفاوت کو ہوا دی گئی تا کہ سیاسی جماعتوں کی عوامی قبولیت کو کم کیا جا سکے۔بعد میں قائم ہونے والی حکومتوں میں نہ ویژن تھا اور نہ جرأت و حوصلہ کہ وہ شہر میں پائیدار امن کے لیے کوئی ٹھوس اور دیرپا اقدام کرتیں۔29برس سے تسلسل کے ساتھ بدامنی جاری ہے، لیکن کسی وفاقی یا صوبائی حکومت نے شہر کے مسائل حل کرنے اور اس کا اربن تشخص برقرار رکھنے کے لیے کسی قسم کی ٹھوس حکمت عملی تیار کرنے پر توجہ نہیں دی۔بلکہ سیاسی نمبر اسکورنگ کرکے اس شہر کے مسائل کو مزید پیچیدہ بنادیا۔یوں اس شہر کی آبادی کے ساتھ اس کے مسائل بھی بڑھتے چلے گئے۔حکمرانوں کی موقع پرستی اور سیاسی جماعتوں کی نااہلی کے سبب مڈل کلاس اربن معاشرت کا یہ شہر آہستہ آہستہ مختلف مافیاؤں کی گرفت میں جاچکا ہے۔جن کی سرپرستی مختلف سیاسی جماعتیں اور اسٹبلشمنٹ کے بعض مضبوط گروپ کر رہے ہیں ۔نتیجتاً اس وقت سے شہر مسلسل ابتری کی راہ پر گامزن ہے اور اس میں بہتری کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔
دنیا کے تقریباً سبھی ممالک میں بڑے شہروں کے لیے الگ انتظامی ڈھانچہ ہوتا ہے، جو ان شہروں کا انتظام چلاتا ہے۔دور کیوں جائیں پڑوسی ملک بھارت میں انگریز نے جانے سے قبل تین شہروں ممبئی، کلکتہ اور مدراس(چنائے) میں پولیس کمشنریٹ قائم کردی تھی۔ کراچی کی آبادی اس وقت اتنی نہیں تھی کہ یہاں میٹروپولیٹن سسٹم نافذ کیا جاتا۔ لیکن قیامِ پاکستان کے فوراً بعد جب کراچی دارالحکومت بنا اور اس کی آبادی میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہونا شروع ہوا،تو جنوری1948ء میں کراچی کے لیے ممبئی طرز کی پولیس کمشنریٹ کا مسودہ قائد اعظم کو پیش کیا گیا۔اس میں انگریزی کی کچھ غلطیاں تھیں ، جن پر سرخ نشان لگا کر مسودے کوواپس بھیج دیا گیا ۔ اس کے بعد بانیِ پاکستان بیماری کے سبب زیارت چلے گئے اور پھر ان کا انتقال ہوگیا، یوں کراچی کے لیے پولیس کمشنریٹ کا تصور سرخ فیتے کی نذر ہوکر رہ گیا۔اس کے بعد کسی بھی حکومت نے کراچی کو ایک نیم خود مختار میٹروپولیٹن بنانے پر توجہ نہیں دی۔
پرویز مشرف کے دور میں مقامی حکومتی نظام کے ذریعے ملک میں ایک تین درجاتی نظام رائج کرنے کی کوشش کی گئی۔اس نظام میں بے شک کئی نقائص تھے، لیکن اس نے حکمرانی کی ایک سمت کا بہر حال تعین کیا تھا۔ مگر پیپلز پارٹی نے اپنے فیوڈل پس منظر کی وجہ سے اور مسلم لیگ(ن) نے محض پرویز مشرف دشمنی میں اس نظام کو چلنے نہیں دیا۔حالانکہ اگر اس نظام میں موجود خامیوں کودور کرتے ہوئے بعض کلیدی تبدیلیوں کے ساتھ جاری رکھا جاتا، تو پاکستان کے شراکتی جمہوریت کی طرف بڑھنے کے روشن امکانات تھے۔اس بات میں دو رائے نہیں کہ عوام کی براہ راست شرکت کے بغیر ہرجمہوری نظام ادھورا ہوتا ہے۔سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بھی ملتان میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یہی کہا کہ مقامی حکومتی نظام کے بغیر جمہوریت ادھوری رہتی ہے۔ کراچی ہو یا کوئی اور شہر حکومتی منصوبہ سازوں اور سیاسی جماعتوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ شہروں میں آبادی کا بڑھتا ہوا حجم اور تیزی کے ساتھ ہوتی اربنائزیشن کے نتیجے میں ان گنت مسائل جنم لے رہے ہیں۔ان مسائل سے نمٹنے کے لیے سب سے پہلے نوآبادیاتی ذہنی کیفیت (Mindset)سے باہر نکلنا ہوگا۔دوسرے اقتدار واختیار کو حقیقی معنوں میں نچلی سطح تک منتقل کرنا ہوگا ۔جس طرح بھارت ہر اس شہر کو میٹروپولیٹن قرار دے کر انتظامی بااختیاریت دیتا ہے، جس کی آبادی دس لاکھ(ایک ملین) یا اس سے زائد ہوجائے۔ ہمیں بھی اسی طرح اپنے بڑے شہروں کے لیے ایک علیحدہ انتظامی ڈھانچہ تشکیل دینا ہوگا۔اگر فی الوقت یہ ممکن نہیں تو کم از کم کراچی، لاہوراور راولپنڈی سمیت ملک کے ان تمام شہروں میںجن کی آبادی دس لاکھ یا اس سے تجاوز کرچکی ہے وہاں پولیس کمشنریٹ ہی قائم کردی جائے، تاکہ دقیانوسی پولیس سسٹم سے کسی حد تک نجات اور عوام کو امن وامان کے ساتھ جینے کا حق مل سکے ۔