بندرگاہ پر پھنسی گاڑیوں کو ریلیز نہ کرنے سے حکومت ایک ارب روپے کے ریونیو سے محروم ہوجائے گی

ایک بار 10 فیصد ٹیکس لیکر گاڑیاں ریلیز کی جائیں، نیلامی کی صورت میں وفاقی حکومت کو 10 کروڑ روپے بھی نہیں ملیں گے


ٹیکس پالیسی کی تبدیلی نے چھوٹے درآمد کنندگان کو شدید پریشانی میں مبتلا کردیا ہے، آکشن مافیا متحرک ہوگئی۔ فوٹو : محمد عظیم / ایکسپریس

سستی اور معیاری گاڑی استعمال کرنا ہر کسی کی خواہش ہوتی ہے، آج کی تیزرفتار زندگی میں اگر گاڑی بھی تیزرفتار اور مختلف سہولتوں سے آراستہ ہو تو ہر کوئی خوشی محسوس کرتا ہے۔

ہمارے ملک میں جہاں ہر چیز کی قیمت بڑھتی جارہی ہے وہاں آٹوموبائل سیکٹر بھی مہنگائی کے طوفان سے نہیں بچ سکا۔ گاڑیوں کی قیمتیں اتنی تیزی سے بڑھ رہی ہیں کہ اب ہر کوئی اچھی گاڑی خریدنے کے قابل نہیں، ایسے میں معمولی چلی ہوئی گاڑیوں کی ملک میں درآمد (امپورٹ) ایک ایسا ذریعہ بن سکتا ہے جس کے تحت عام آدمی بھی مختلف ممالک میں تیار شدہ لیکن کچھ عرصے چلی ہوئی اچھی گاڑیاں مناسب قیمت میں خرید کر باسہولت ڈرائیونگ کی خواہش پوری کرلے۔مختلف ملکوں سے امپورٹ کی گئی گاڑیوں کی پاکستان آمد نے شہریوں کو کافی سہولت دی، درآمد کنندگان کا کاروبار تو اچھا ہوا لیکن عوام کو گاڑیوں کے انتخاب میں ورائٹی مل گئی۔ اب کچھ عرصے سے امپورٹر حضرات شدید پرشانی میں مبتلا ہیں اور ایف بی آر کے ایس آر او کلچر اور محکمہ کسٹمز کے طریقہ کار سے بہت شاکی ہیں۔

امپورٹرز کے مطابق کسٹم ڈیوٹیوں کے قوانین کو بیک جنبش قلم تبدیل کرکے درآمد کنندگان کے ساتھ بہت زیادتی کی گئی ہے۔ ان کا کاروبار ٹھپ ہوگیا ہے جبکہ زیادہ ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں کی وجہ سے ان کی گاڑیاں بنرگاہ پر کھڑے کھڑے خراب ہورہی ہیں۔ روزنامہ''ایکسپریس ''نے اسی معاملے کا صحیح اندازہ کرنے اور امپورٹرز کا موقف حکومت تک پہنچانے کے لیے ''ایکسپریس فورم'' کا انعقاد کیا جس میں متاثرہ درآمدکنندگان، کراچی چیمبر آف کامرس اور آل پاکستان موٹرڈیلرز ایسوسی ایشن کے نمائندوں نے اظہارخیال کیا، ایکسپریس فورم کے شرکا کا متفقہ موقف تھا کہ وفاقی حکومت نے کراچی کی بندرگاہ پر 6 ماہ سے روکی گئیں استعمال شدہ درآمدہ سیکڑوں گاڑیوں کی فوری کلیرنس کے اقدامات نہ کیے توری ایکسپورٹ اور مقررہ 30 مارچ 2014 کے بعد نیلامی کے عمل سے ایف بی آر ایک ارب روپے مالیت کے ریونیو کے حصول سے محروم ہوجائے گا جبکہ ممکنہ نیلامی کے عمل سے بدعنوانیوں کو فروغ اورمخصوص آکشن مافیا بھرپور انداز میں استفادہ کرے گا، مذاکرے کی تفصیلات نذر قارئین ہیں۔

ایچ ایم شہزاد (چیئرمین آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن)

محکمہ کسٹمز کی جانب سے قانون کی غلط تشریح کی وجہ سے درآمد ہونے والی استعمال شدہ گاڑیوں کی کلیرنس پیچیدہ ہوگئی ہے، اب امپورٹرز کو گاڑیاں ریلیز کرانے میں بیحد مشکلات کا سامنا ہے۔ ہم بار بار حکومت پاکستان، وزیر خزانہ اور چیئرمین ایف بی آر سے مطالبہ کرتے آئے ہیں اور اب بھی کہتے ہیں کہ وہ پرانا او ایم ختم کردیں اورایک ہی بار ڈیوٹی، ٹیکس یا پینلٹی کی مد میں 10 فیصد رقم لیکر گاڑیاں ریلیز کردے۔ اس وقت جو صورتحال ہے اس میں امپورٹرز بہت پریشان ہیں اور مقررہ تاریخ 30 مارچ کے بعد اگر ان گاڑیوں کو نیلام کیا گیا تو بھی حکومت کو 10, 15 کروڑ سے زائد نہیں ملیں گے جبکہ گاڑیوں کو 10 فیصد ٹیکس یا ڈیوٹی لیکر چھوڑنے کی صورت میں حکومتی خزانے میں ریونیو کی مد میں ایک ارب روپے جمع ہوسکتے ہیں۔



انھوں نے بتایا کہ سال 2009 ماڈل کی گاڑیاں بندرگاہ پرگزشتہ چھ ماہ سے کھڑی ہیں جو سمندرکی نمکیاتی ماحول سے خراب ہوتی جارہی ہیں ، شروع میں کسٹمز نے گاڑیاں ریلیز کیں اور آفس میمورنڈم کی غلط تشریح کی۔ جب پتہ چلا تو کسٹمز نے کہا کہ اب وزارت خزانہ کے پاس جانا پڑے گا اور ایک نیا آف میمورنڈم (اوایم) لانا ہوگا۔ ہم بار بار یہ مشورہ دیتے رہے ہیں کہ درآمدہ استعمال شدہ گاڑیوں کی ویلیو پرایک بار 10 فیصد پینلٹی کے علاوہ کسٹم ڈیوٹی اور دیگرٹیکسز وصول کرنے کے بعد انہیں ریلیز کردیا جائے لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہمارے بار بار مطالبے کے باوجود اس معاملے کو مزید الجھادیا گیا ہے۔ اب پھر اس معاملے کو کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) میں لے جایا گیا جہاں پرانے ایم او میں 2012-13 کا آفس میمورنڈم بھی شامل کردیا گیا ہے۔ ایچ ایم شہزاد کا کہنا تھا کہ موجودہ ٹیکس و ڈیوٹی کی وجہ سے چھوٹی گاڑیوں پر سرچارج 84 فیصد ہوگیا ہے جبکہ بڑی گاڑیوں پر سرچارج کی شرح 92 فیصد کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئی، اب ہم کس طرح ان گاڑیوں کو ریلیز کریں گے اور کیسے انہیں فروخت کریں گے؟ کیونکہ ساڑھے 9 لاکھ کی گاڑی ہمیں 13 لاکھ میں پڑرہی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ہماری حکومت سے درخواست ہے کہ معاملے کو سنجیدگی اور انسانی ہمدردی کے جذبے کے تحت لے کیونکہ اس میں کچھ ایسے چھوٹے امپورٹرز بھی شدید متاثر ہورہے ہیں جنھوں نے اپنی ساری جمع پونجی حتیٰ کہ بیٹیوں کے جہیزکی رقم سے بھی گاڑیاں خریدی ہیں اور اب وہ بے یقینی کا شکار ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اب بھی اگر حکومت چاہے تو معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہوسکتا ہے، اگر حکومت بھی نہیں مانتی اور ہم بھی وہیں کھڑے رہتے ہیں تو ایک بات بالکل واضح ہے کہ کسی کو فائدہ نہیں ہوگا۔ ایچ ایم شہزاد نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد سے مقامی کارساز کمپنیوں کو کوئی نقصان نہیں ہے۔ ہم تو برسوں سے یہ مطالبہ کرتے آرہے ہیں کہ ہمیں گاڑیوں کی درآمد کی اجازت دی جائے، حکام بھی کہتے ہیں کہ انڈیا سے گاڑیاں منگانی چاہئیں جو ہماری گاڑیوں کے مقابلے میں بہت سستی ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ وزیراعظم اور وزیر خزانہ ڈیوٹی کے فیصلے پر نظر ثانی کریں، ہم انھیں یقین دلاتے ہیں کہ حکومتی پالیسی پر مکمل عمل کیا جائے گا۔

انھوں نے کہا کہ اگر استعمال شدہ گاڑیوں کی امپورٹ کی اجازت مل جائے تو اس کے معیشت پر بھی انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوں گے، دنیا بھرکے تمام ملک میں حتیٰ کہ امریکا اور جاپان میں بھی استعمال شدہ کاروں کی باقاعدہ درآمدات ہورہی ہیں، ممانعت تو وہاں ہونی ٹھیک ہے جہاں مینوفیکچرنگ ہورہی ہو، ہمارے ملک کی کارساز کمپنیاں تو تقریباً سارا سامان اور پرزہ جات مختلف ممالک سے درآمد کرتی ہیں۔ ایچ ایم شہزاد نے بتایا کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک میں تیار کی گئی کسی گاڑی میں سیفٹی اسٹینڈرڈ وہ نہیں جو ہونے چاہئیں، کچھ نئی گاڑیوں میں تو سیٹ بیلٹ تک نہیں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کسٹمز حکام نے غلط طریقے سے تقریباً 422 گاڑیاں نکلوائیں، چھوٹی اور بڑی گاڑیوں پر مختلف مد میں ٹیکس اور ڈیوٹیاں ہیں، کلیئر شدہ گاڑیوں سے جو ٹیکس نہیں لیے گئے تھے وہ اب وصول کیے جارہے ہیں ۔ اب تو یہ بھی کہا جارہا ہے کہ کسٹمز نے اپنے مفاد میں امپورٹرز کو پھنسایا ہے۔ ایم ایچ شہزاد کا کہنا تھا کہ ہماری اس سلسلے میں خواجہ آصف سے بھی کئی ملاقاتیں ہوئی ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ اب ارباب اقتدار معاملے کی سنگینی کو سمجھیں ورنہ امپورٹرز کو شدید مالی پریشانیوں کا سامنا ہوگا جس کامنفی اثر قومی معیشت پر بھی پڑسکتا ہے۔

عابد نثار (رکن منیجنگ کمیٹی کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی)، چیئرمین امپورٹ اینڈ اینٹی اسمگلنگ سب کمیٹی)

عابد نثار کا کہنا تھا کہ کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی خواہش ہے کہ چھ ماہ سے التوا کے شکار اس مسئلہ جلد از جلد حل ہونا چاہیے اور ایسا فارمولہ وضح کیا جائے کہ جس میں حکومت اور متعلقہ امپورٹرز دونوں کو نقصان نہ پہنچے کیونکہ لوگوں کا بہت زیادہ سرمایہ اس بزنس میں لگا ہوا ہے۔ بندرگاہ پر پھنسی گاڑیوں کے معاملے میں حکومت کو ہی قدم اٹھانا ہوگا، کراچی چیمبر آف کامرس اس معاملے میں درآمد کنندگان کے ساتھ ہے ، وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے ملاقات میں بھی کراچی چیمبر آف کامرس نے امپورٹرز کے موقف کا ساتھ دیا تھا۔ کراچی چیمبر چاہتا ہے کہ معاملہ اس طرح طے ہو کہ حکومت یا امپورٹر کسی کا بھی نقصان نہ ہو اور عوام کو بھی فائدہ پہنچے۔ ایک سوال پرعابد نثار نے کہا کہ اس وقت ہماری مقامی کارساز انڈسٹری میں مقابلے کی فضا نہیں، استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد سے لوگوں کو سستی گاڑیاں ملیں گی جس سے مارکیٹ میں بھی مقابلے کی فضا پیدا ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ آل پاکستان آٹوموبائل امپورٹر ایسوسی ایشن کو بھی اس بات کی یقین دہانی کرانی ہوگی کہ آئندہ ایسی گاڑیاں درآمد نہ کی جائیں جو موجودہ طے شدہ limit میں نہ آتی ہوں۔ عابد نثار کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک کا ریونیو شارٹ فال کا شکار ہے، یہ معاملہ اسی صورت میں حل ہوسکتا ہے جب آئندہ ایسی سرگرمیاں دوبارہ نہ ہوں۔

ایس آر اوز راتوں رات ختم نہیں کیے جاسکتے، انھیں بتدریج ختم کرنا ہوگا اور اس میں وقت لگے گا۔ ہمارے ملک میں چھوٹی گاڑی کی قیمت کم و بیش 7 لاکھ روپے ہے، استعمال شدہ پرانی گاڑیوں کی درآمدی پالیسی یک جنبش قلم یا راتوں رات تبدیل ہوجانا بھی غلط ہے، یہ بہت بڑا المیہ ہے اور اس سے بھی مسائل جنم لیتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ اس مسئلے پر غور کرے، جاپان سے گاڑیاں آنے میں کم از کم 45 دن لگتے ہیں، ہماری کوشش ہے کہ حکومت اور امپورٹرز مل بیٹھ کر معاملہ حل کرلیں۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ حکومت کو یہ تجویز دی جاسکتی ہے کہ وہ ان روکی گئی گاڑیوں پرویلیو کے تناسب سے 10 فیصدسرچارج وصول کرے اور گاڑیاں ریلیز کردے، اس طرح جیسا کہ بتایا گیا قومی خزانے میں ایک ارب روپے آسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ امپورٹرز حضرات کو بھی چاہیے کہ وہ پینلٹی معاف کرانے کی بات کریں اور سرچارج ادا کردیں تاہم موجودہ صورتحال میں مشکل یہ ہے کہ امپورٹرز کی جانب سے کچھ گاڑیاں موجودہ شرائط و ضوابط کے تحت ہی کلیئر کرالی گئی ہیں۔ ٹیکس میں کمی سے امپورٹرز کو بھی فائدہ ہوگا اور عوام کو سستی گاڑیاں میسر آسکیں گی۔



ملک میں دستیاب گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافے کی بڑی وجہ روپے کی قدر میں کمی ہے، پورٹ پر پھنسی گاڑیوں کے معاملے پر حکومت کو ہی قدم اٹھانا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ کراچی چیمبر اس معاملے میں درآمد کنندگان کے ساتھ ہے ، ہم نے وزیر خزانہ سے ملاقات میں بھی امپورٹرز کا ساتھ دیا تھا اور ہماری تو دلی خواہش ہے کہ معاملے کو جلدازجلد حل کرلیا جائے۔ ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ اگر ٹیکس اور ڈیوٹی کا معاملہ حل نہ ہوا تو گاڑیاں آکشن میں چلی جائیں گی اور مجھے خطرہ ہے کہ اس صورتحال میں کرپشن کا بہت بڑا اسکینڈل نہ بن جائے کیونکہ جس طرح دیگر شرکا نے کہا کہ آکشن سے حکومت اور امپورٹرز کو تو فائدہ ہوگا نہیں، نیلامی کے مرحلے میں تو آکشن مافیا ہی فائدہ اٹھائے گی۔

عابد نثار نے وفاقی حکومت کو تجویز دی کہ وہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی نئی آٹو پالیسی میں ری کنڈیشنڈ اور استعمال شدہ گاڑیوں کی باقاعدہ امپورٹ پالیسی متعارف کرائے تاکہ ٹی آر، بیگیج اور گفٹ اسکیم پر استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمدات کی روایات ختم ہوسکے اور مقامی آٹو انڈسٹری میں صحت مند مسابقت کا ماحول پیدا ہوسکے جس میں مقامی اسمبلرز بھی عالمی معیار کی سیفٹی ایسیسریز کے ساتھ گاڑیاں تیار کرنے پر مجبور ہوں، نئے ماڈلز متعارف کراتے وقت بھی گاڑیوں میں عالمی معیارات کو مدنظر رکھتے ہوئے جدت لائیں اور قیمتیں بھی قابل قبول مقررکریں، انھوں نے ایف بی آر سمیت دیگر سرکاری اداروں پر زور دیا کہ وہ ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کی افزائش میں ایک FACILITATOR کا کردار ادا کریں نہ کہ انہیں نت نئے مسائل میں الجھائیں۔

نعمان معین (گاڑیوں کے متاثرہ امپورٹر )

موجودہ ٹیکس اور ڈیوٹی کی صورتحال میں 10 لاکھ کی گاڑی امپورٹر کو 18,19 لاکھ کی پڑے گی، پھر وہ کس طرح اسے 11 لاکھ میں بیچ سکتا ہے، اسے کیا فائدہ ہوگا۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت فیصلے پر فوری نظر ثانی کرے ۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت فیصلے پر فوری نظر ثانی کرے۔ انھوں نے انکشاف کیا کہ وزارت تجارت کے فیصلے برخلاف ایف بی آر کی جانب سے روکی گئی استعمال شدہ گاڑیوں سے متعلق ون ٹائم کے لیے نیا سرچارج وپینلٹی کا فارمولا متاثرین کے لیے نکیل بن گیا ہے اور ان حالات کے دیکھتے ہوئے اب کسٹمز ڈپارٹمنٹ کے ''آکشن مافیا'' زیادہ متحرک ہوگئے ہیں۔ اس مافیا کے ارکان متاثرہ درآمدکنندگان سے رابطے کرکے انھیں چند ماہ کی مدت بعد یہی گاڑیاں کم قیمت پر فراہم کرنے کی پیشکشیں کررہے ہیں جس سے اس امر کا اندازہ ہورہا ہے کہ ایف بی آر اور محکمہ کسٹمزکی ناقص حکمت عملی سے صرف چند مخصوص افراد استفادہ کرلیں گے جبکہ حکومتی خزانہ ایک ارب روپے مالیت کے خطیر ریونیو سے محروم ہوجائے گا۔

ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ ہم ٹی آر پیکیج کے تحت گاڑیاں امپورٹ کیں، کسٹمز ایجنٹوں کا امپورٹرز سے کہنا تھا کہ 2009 کی پالیسی چل رہی ہے جو 5 فیصد سستی ہے جبکہ صورتحال اس کے برعکس ہے۔ اس وقت امپورٹر کو ایک گاڑی پر 84 سے 92 فیصد زیادہ سرچارج دینا پڑرہا ہے، اب ہم کس طرح گاڑی کلیئر کرائیں گے اور کیسے بیچیں گے؟۔ انھوں نے کہا کہ اس معاملے کو حکومت سنجیدگی اور انسانی ہمدردی کے جذبے کے تحت حل کرنے کی کوشش کرے کیونکہ اس میں بہت سے لوگوں نے اپنی زندگی بھر کی کمائی لگادی ہے، کئی لوگ تو بیٹیوں کے جہیز کی رقم سے گاڑیاں امپورٹ کرنے آئے تھے۔ ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ اگر حکومت ہمیں براہ راست امپورٹ کی اجازت دے دے تو بہت ہی اچھا ہوگا، اس طرح ہمیں بھی اور حکومتی ٹیکس نیٹ کو بھی فائدہ پہنچے گا۔

سب سے اہم بات یہ ہوگی کہ گاڑیوں کی قیمتیں نہیں بڑھیں گی۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت ٹیکس اور ڈیوٹیوں کے معاملات کے علاوہ ایک اور پریشان کن صورتحال یہ ہے کہ امپورٹ کی گئی گاڑیاں بندرگاہ پر کھڑی کھڑی خراب ہورہی ہیں، سمندری ہوا، نمکین پانی اور مختلف اقسام کے کیمیکلز کے اثرات گاڑیوںکو متاثر کررہے ہیں۔ نعمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسئلے کومزید الجھانے سے بچانے کیلیے معاملے کے حل کی راہ میں رکاوٹ بننے والی بیوروکریسی سے بچاجائے۔ اب اہم بات یہ ہے کہ 30 مارچ کی تاریخ گزرگئی تو پورٹ پر موجود گاڑیاں نیلامی (آکشن) میں چلی جائیں گی ، ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ تمام امپورٹرز ایک فورم پر نہیں ہیں، اگر سب ایک ہی بات کریں تو معاملات بہتر ہوسکتے ہیں۔نعمان معین نے بتایا کہ جن لوگوں نے غلطی سے زائد عمر کی گاڑیاں منگوالی ہیں اور انہیں اب موجودہ سرچارج اور ڈیوٹی ٹیرف پر گاڑیوں کی کلیرنس انتہائی مہنگی پڑ رہی ہیں وہ اب انہیں ری ایکسپورٹ کرنے کی کوششیں کررہے ہیں لیکن محکمہ کسٹم کی جانب سے عدم تعاون اورری ایکسپورٹ کو وزارت تجارت اسلام آبادکے ''این اوسی'' سے مشروط کیے جانے کے باعث کئی گاڑیوں کی ری ایکسپورٹ بھی رکی ہوئی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔