ایک ڈبل روٹی کی قیمت
انقلاب فرانس پر بہت سے کتابیں اور ناول لکھے گئے
ISLAMABAD:
ہمارے یہاں کچھ برسوں بعد انقلاب کا غلغلہ اٹھتا ہے، خواہ یہ انقلابِ فرانس ہو یا انقلابِ روس۔ ان دنوں لوگ انقلاب فرانس کا ذکر کرتے رہے، یہ انقلاب جو 1789 سے 1799 کے درمیان برپا ہوا ، اس کے بارے میں پال میک کوئین نے لکھا ہے کہ '' اس ایک دہائی کے دوران فرانسیسیوں نے اپنی قوم کے اداروں کو تباہ کردیا اور انھیں دوبارہ سے تعمیرکیا۔''
ان دنوں ہم نیم دیوالیہ ہونے کے زمانے سے گزر رہے ہیں اور غذائی قلت کی خبریں بھی آرہی ہیں۔ اس لیے ہمیں انقلاب فرانس کی تاریخ سے آگاہ ہونا چاہیے بہ طور خاص ملکۂ فرانس کے اس جملے کی حقیقت کے بارے میں جو اس سے منسوب کیا جاتا ہے کہ فاقہ زدہ لوگوں نے جب اس سے کہا کہ انھیں کھانے کے لیے روٹی نہیں ملتی تو اس نے نہایت بے اعتنائی سے جواب دیا کہ پھر یہ کیک کیوں نہیں کھاتے۔ اب یہ بات کئی مستند مورخ تسلیم کرتے ہیں کہ ملکہ نے یہ جملہ نہیں کہا تھا اور یہ اس کے دشمنوں اور حاسدوں نے اس سے منسوب کردیا تھا۔
وہ 5 اکتوبر 1789 کی صبح تھی جب ورسائی کی غریب عورتیں سبزی فروشوں کے ٹھیلوں سے سبزی خریدنے کے لیے نکلیں تو ان کے مہنگے داموں نے انھیں برافروختہ کردیا۔ ان کا طیش دراصل ان کے بھوکے بچوں کے پیٹ میں رہتا تھا۔ انھوں نے آؤ دیکھااور نہ تاؤ، سبزی والوں کے ڈنڈے گھسیٹے ، جہاں سے انھیں نوکدار چیزیں ملیں، وہ انھوں نے سمیٹیں اور انقلاب کا نعرہ لگاتی ہوئی چل پڑیں۔
بعد میں ان واقعات کی نہایت شاندار روغنی تصویریں بنائی گئیں جو آج بھی میوزیم میں محفوظ ہیں۔ اس حوالے سے جو تصویر نگاہوں میں گھوم جاتی ہے وہ آزادی کی دیوی ہے، ننگے پیر اور ننگے سر، ہاتھ میں فرانسیسی جھنڈا ہے۔ ارد گرد کچھ بچے اور کچھ مسلح باغی ہیں جنھیں وہ راستہ دکھا رہی ہے۔ یہ روغنی پیٹنگ 1830 میں ایوجین ڈیکاریکس (Eugene Delacrcix) نے بنائی تھی اور اس نے بہت شہرت حاصل کی۔ فرانسیسی بادشاہ لوئی شانزدہم اور اس کی ملکہ میری انتونیت کی وہ تصویریں بھی ہیں جن میں ان کی گردنیں گلوٹین سے اڑائی جارہی ہیں۔ تاریخ کی تمام کتابوں میں اس کے حسن کے چرچے ہیں ، اس کی شاندار روغنی تصویریں فرانس اور یورپ کے میوزیم میں اس کی نزاکت اور نفاست کی گواہ ہیں۔
انقلاب فرانس پر بہت سے کتابیں اور ناول لکھے گئے۔ جے ایم تھامپسن کی ضخیم کتاب '' انقلابِ فرانس'' کا ترجمہ بی جے سنگھ نے کیا جسے بہت اہتمام سے ہمارے معروف شاعر اور دانشور شارب ردولوی نے ترقی اردو بورڈ نئی دہلی سے شایع کرایا۔ یہ کتاب یوں تو بے شمار تاریخی حقائق کو سامنے لاتی ہے لیکن اس میں دنیا کے بدنام زمانہ جیل بیستائل کا قصہ ہے۔ یہ دراصل پیرس کا پرانا قلعہ تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دن میں بھی اس کی کوٹھریوں اور راہ داریوں میں رات جیسا اندھیرا رہتا ہے۔ ہمارے ادیب اور دانشور ڈاکٹر آغا افتخار حسین نے انقلاب فرانس پر دو ناول لکھے۔ جن میں سے ایک '' بادشاہ کا خون'' اور ایک ''پیرس کی رات'' ہے۔ ان ناولوں میں انھوں نے لکھا کہ انقلاب کے زمانے میں پیرس اور ورسائی کا کیا احوال تھا۔
ڈاکٹر آغا افتخار حسین کا اس زمانے میں روزنامہ ''جنگ'' میں پیرس سے آنے والا مراسلہ / کالم شایع ہوتا تھا جو علمی اور ادبی حلقوں میں ذوق شوق سے پڑھا جاتا تھا۔ اسی تسلسل میں انھوں نے انقلاب فرانس کی روداد لکھی۔ مشہور و معروف مورخ اور دانشور ول دیوراں کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے لکھا کہ بیستائل کے زندان میں شاہ اور شاہ پرستوں کی ناپسندیدہ کتابیں زنجیروں سے باندھ کر رکھی جاتی تھیں۔ یہ وہ ناقابل یقین واقعہ تھا جس پر 90 کی دہائی میں ایک کالم میں نے بھی لکھا تھا ، اسی لیے جب بیستائل کا قلعہ فرانسیسی عوام کے ہاتھوں فتح ہوا تو یہ کتابیں بھی زنجیروں سے آزاد ہوئیں۔
وہ سوشل میڈیا کا دور نہیں تھا لیکن اس وقت بھی ایک صفحے کا اسکینڈل چھاپنے والے ہر صبح شام ملکہ فرانس کے بارے میں '' گپ '' شایع کرنے میں مصروف تھے اور یہ اشتہارات پیرس کی دکانوں کی کھڑکیوں پر چپکائے جارہے تھے۔ ادھر ملکہ کو اپنے '' انجام '' کا اندازہ ہوچکا تھا ، اس لیے وہ اپنے ذاتی خطوط جلا رہی تھی اور اپنے زیورات کو اکٹھا کررہی تھی۔ جے تھامسپن لکھتا ہے کہ:
بادشاہ اپنے چند افسران اور باڈی گارڈوں کی ایک معمولی گاڑی میں روانہ ہوا جس میں وہ عموماً شکار کے لیے جایا کرتا تھا۔ اب اس کے ساتھ کوئی قافلہ نہیں تھا بلکہ ورسائی کے فرسودہ جاں شہری محافظ تھے۔ یہ ماتمی جلوس برٹش سفیر کو کسی بادشاہ کا جلوس نہیں بلکہ کسی قیدی کا جلوس لگا۔ اسے لگا جیسے کہ محافظ ایک پالتو ریچھ کو لیے جارہے ہوں۔ شہر کے پھاٹک پر یہاں بیلی نے اس کا میونسپلٹی اور دیگر رائے دہندگان کے ساتھ خیر مقدم کیا۔ اسمبلی کے صدر کی حیثیت میں کھڑے رہ کر اور پیرس کے میئر کی حیثیت میں نہ جھک کر اس نے لوئیس کو اس کے دارالحکومت کی چابیاں پیش کیں اور اس سے ہنری چہارم کے داخلے کے وقت کے الفاظ کی یاد تازہ ہوگئی جو کہ قریباً دو سو برس پہلے کہے گئے تھے۔ '' تب ( اس نے کہا تھا) بادشاہ نے اپنے عوام پر دوبارہ فتح حاصل کی تھی اور اب عوام نے اپنے بادشاہ پر دوبارہ فتح حاصل کی ہے۔''
فرانسیسی بادشاہ پر مقدمہ دسمبر 1792 میں چلا اور اسے موت کی سزا سنائی گئی۔ 22 جنوری 1793 کی صبح لوئی نے اپنی گاڑی میں 5 منٹ تک دعا کی، خاتمہ سر آپہنچا تھا اور اسے وقار کے ساتھ اپنے خاتمے سے ملاقات کرنی تھی۔
پلیس ڈی لاریولوش پر اب بھی ایک سرد دھند چھائی ہوئی تھی۔ فوجیوں نے گیلوٹین کو گھیرا ہوا تھا۔ ان کے پیچھے ایک بہت بڑا ہجوم جن میں کچھ عمارتی سامان کی ڈھیروں پر کھڑے تھے اور کچھ تولریز کے باغات کے چھجوں پر کھڑے تھے۔ خاتمے کا بڑے شدت سے انتظار کررہا تھا۔ کئی تو پورے کے پورے خاندان وہاں تھے۔
مائیں اپنی نرسوں اور بچوں کے ساتھ وہاں موجود تھیں۔ لوئیس نے گاڑی میں پانچ منٹ تک پرارتھنا کرنے کے بعد گاڑی سے باہر قدم رکھا اور اس نے پھانسی کے تختے پر چڑھنے کے لیے ایچ ورتھ کا بازو تھاما۔ جب وہ وہاں پہنچا تو اس نے نقارچیوں کو خاموش ہوجانے کا اشارہ کیا اور بہ آواز بلند کہا ''میرے عزیز لوگو! میں ایک بے گناہی سزائے موت پارہا ہوں۔'' پرویر کے حکم پر جسے سانیترے نے دیا تھا، دوبارہ نقارہ بجنے لگ گیا اور کچھ بھی سنائی نہیں دیا لیکن جس آدمی نے لوئیس کو باندھنا تھا اس سے لوئیس نے مزید کہا۔ '' مجھے امید ہے کہ میرے خون سے فرانسیسی عوام کے لیے خوش نصیبی ہوگی۔ ایک لمحہ بعد پھانسی کا بلیڈ نیچے گر گیا اور چاروں طرف فرانس زندہ باد کے نعروں کے درمیان جلادوں نے لوئیس کے کٹے ہوئے سر کو اونچا کرکے ہجوم کو دکھایا۔ سرکاری گواہ نے نوٹ کیا کہ اس وقت دن کے دس بج کر بائیس منٹ تھے۔
اس کے جسم اور کٹے ہوئے سر کو اسی دن ماڈیلین کے قبرستان میں دفنایا گیا۔ انھیں تئیس برس پہلے کے لوئیس کی شادی کی تقریب کے شکاروں اور دس اگست کو ہلاک ہوئے سوس سپاہیوں کے درمیان رکھا گیا۔ یہ حکم دیا گیا کہ قبردس فیٹ گہری کردی جائے۔
ملکہ میری انتونیت اپنے قید خانے سے برآمد ہوئی۔ اس کے بارے میں ایک مورخ نے لکھا ہے کہ اسے نہ بچنے کی امید تھی اور نہ جینے کا کوئی بہانہ اس کے دل میں تھا۔ وہ فرانسیسی ملکہ تھی اور یورپ کے ایک مشہور شاہی خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ اس کا نسبی غرور اس کے لہو میں لہریں لیتا تھا۔ وہ تمکنت سے اپنی گاڑی سے اتری اور سیڑھیاں چڑھ کر اپنی قتل گاہ تک گئی۔ کچھ لوگ اس کے لیے زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے اور کچھ مردہ باد کے، اس نے اپنی گردن گلوٹین کے نیچے رکھی، جلاد کا تیغہ دن کی روشنی میں چمکا اور اس نازنین کا خون آلود سر کٹ کر گر گیا۔ کچھ لوگ رو رہے تھے اور کچھ آفرین کہہ رہے تھے لیکن شاید کسی کے ذہن میں یہ بات نہ آئی ہو کہ یہ ایک ڈبل روٹی کی قیمت تھی۔