جمہوریت بمقابلہ آمریت
سی آئی اے کی ساری داستان رقم ہے، کس طرح چلی کے صدر ایلندے کو ڈکٹیٹر پنوشے کے ہاتھوں فارغ کیا گیا
ہم نے اپنے کالم میں لکھا تھا '' خان صاحب ہر گیند پر چھکے اور چوکے مارنے کی کوشش کریں گے تو آپ آؤٹ ہوجائیں گے۔'' اب کیا ہوا ، سب آپ کے سامنے ہے۔ اب تو وہ جو باتیں کرنے لگے ہیں ، الطاف بھائی بھی ان سے سو قدم پیچھے رہ گئے ہیں ۔ یہ ملک تین ٹکڑے ہو جائے گا،ایٹم بم چھین لیا جائے گا ، ملک دیوالیہ ہوجائے گا۔
فوج تباہ ہوجائے گی ، یہ انداز گفتگو کیا، ذرا تم بھی سوچو۔ پہلے فرمایا نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے ، پھرکہا، اگر نیوٹرل ہو تو نیوٹرل ہی رہو۔ پھرکہا، ہمارے لوگوں کے پاس بھی اسلحہ تھا، جب ہم نے ڈی چوک پر چڑھائی کی تھی۔ پھرکہا،میں چھ دن کے بعد واپس آرہا ہوں ، اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا۔ اس دوران پنجاب میں نیا گورنر بھی آگیا اور نیب چیئرمین بھی رخصت ہوئے۔ برف ہے کہ پگھلتی جا رہی ہے، رات ہے کہ گہری اور لمبی ہو رہی ہے۔
خان صاحب نہ شیخ مجیب ہیں ، نہ جی ایم سید نہ باچا خان ہیں۔ راولپنڈی کی کال کوٹھری میں پڑا تھا بھٹو ، جب وہ تحریرکر رہے تھے ایک کتھا '' اگر مجھے قتل کیا گیا '' مگر کہیں پر بھی بہکے نہ تھے، وہی تناظر تھا دیکھنے کا جو جناح کا تھا۔ ''اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں'' یہ فیڈریشن آئین نے نہیں بنائی ، یہ تو آئین سے پہلے موجود تھی ،آئین نے تو فقط اسے رقم کیا ہے۔ سقوط ڈھاکا جو ہوا ، اس کی وجہ یہی تھی کہ اس وقت کا طاقتور حکمران گروہ اس فیڈریشن کی تاریخی حقیقت سے انکاری تھے ، تبھی تو1973 کا آئین بنا اور اس تاریخی حقیقت کو مانا پڑا ، پھر اٹھارویں ترمیم آئی لہٰذا اب وفاق پاکستان کبھی نہیں ٹوٹے گا۔
پاکستان ٹوٹ جاتا جب آپ صدارتی نظام لا رہے تھے ، جب آپ آئین توڑ چکے تھے ، یہ تو بھلا ہو اس عدالت کا جس نے پہلی بار اس شب خون کو روکا۔ بھٹو نے وہ کتاب خون دل میں انگلیاں ڈبو کے لکھی تھی، ہر حلقہ زنجیر پر زبان رکھ کے لکھی تھی کہ اس کے سارے متاع لوح وقلم چھن گئے تھے۔ پھر اس کال کوٹھڑی کے موڑ کی ایک نکڑ پر اس کی بیٹی بھی ماری گئی تھی ، بھرے مجمعے میں ، سر عام، دن دہاڑے۔ دہشت گرد قاتل، سہولت کار اور سرپرست بھی چھپے ہوئے نہیں تھے۔ اس ملک میں خان صاحب جیسے پروجیکٹ جب بھی آئے، وہ جمہور اور جمہوریت کے خلاف ہی آئے۔ اس کی بنیاد ایوب خان نے رکھی جسے چالیس سال پہلے جنرل ضیاء الحق نے پروان چڑھایا ، دراصل یہی سازش تھی جو امریکا نے پاکستان کی رجعت پسند حکمران اشرافیہ کے تعاون سے جمہور کے خلاف تیار کی تھی۔ اس وقت کا ریکارڈ اب تو پبلک ہو چلا ،کوئی کھول کے دیکھ سکتا ہے۔
سی آئی اے کی ساری داستان رقم ہے، کس طرح چلی کے صدر ایلندے کو ڈکٹیٹر پنوشے کے ہاتھوں فارغ کیا گیا۔ چلی کے دارلحکومت سانتیا گو میں صدارتی محل کا جنرل پنوشے کی فوجوں نے محاصرہ کیا ۔ یہ 1973 کا زمانہ ہے۔ ایلندے اس وقت بہت غیرمقبول ہوچکا تھا ۔مہنگائی اور افراط زر مسلسل بڑھ رہے تھے۔جب صدارتی محل کا محاصرہ ہوا تو اس نے ہار نہیں مانی۔ ایلندے نے گرفتار ہونا پسند نہیں کیا۔
فیڈرل کاسترو کی تحفے میں ملی بندوق کی نالی کو اپنی کن پٹی پر رکھا اور ٹریگر دبایا تھا۔ ان زمانوں میں سرد جنگ جوبن پر تھی، سوویت یونین کو بھی اپنے بلاک میں آمر پسند تھے اور امریکا کو بھی۔ یہی وہ زمانہ تھا جب ڈھاکا کے پرائم منسٹر ہاؤس میں شیخ مجیب اپنے خاندان سمیت مارے گئے تھے۔ مارے تو شاہ فیصل بھی گئے تھے ، وہ بھی اپنے بھتیجے کے ہاتھوں ۔
قتل در قتل تھے تیسری دنیا کی شاہراہوں پر ، چلی تھی رسم کہ کوئی بھی ملک سر اٹھا کے نہ چلے۔ پھر سرد جنگ ختم ہوئی ۔ سوویت یونین بکھر گیا، امریکا اور اس کے اتحادیوں نے فتح کا جشن منایا۔آج خان صاحب کو پاکستان کے تین ٹکڑے ہوتے نظر آرہے ہیں ، یہ تو طالبان کا خیال یا نظریہ ہے، وہی خراسان کا، شاید نہیں خوش کرنے کے لیے خان اب کھل کر ایسی باتیں کررہے ہیں۔ دکھ خان صاحب کا نہیں ہے دکھ ان کا ہے جو آپ کو لائے تھے کہ یہ جو جمہور ہے صحیح فیصلے نہیں کرتے ، کرپٹ لوگوں کو ووٹ دیتے ہیں۔ اسی خیال کو آگے بڑھایا ضیاء الحق اور ان کے رفقاء نے ،جنھوں نے بھٹو کے خلاف وائٹ پیپر شایع کیا تھا۔ ایک لمبی داستان بنائی تھی، مظالم کی اور کرپشن کی ، مگر بھٹو کے پاس بنی گالہ جیسا محل نہ تھا نہ اس کے پاس کوئی گوگی تھی جس پر الزام ہو کہ وہ بھٹو کی بے نامی ہے۔ یوں لگتا ہے اب چالیس سال کے بعد ہمیں احساس ہوگیا ہے کہ اس ملک کی دشمن جمہوریت نہیں ، جوکرپٹ لوگوں کو ووٹ دیتی ہیں، بلکہ وہ ہیں جو مسلح ہوکر اقتدار میں آتے ہیں اور جمہوریت پسند اور انقلابی ہونے کا ناٹک کرتے ہیں۔
یہ جھگڑا پاپولر ازم بہ مقابلہ جمہور ہے۔ پاپولر ازم کی معنی ہیں ، بڑی بڑی باتیں کرو ، چوکے اور چھکے مارو ، ٹرمپ کی طرح ، بولسنارو کی طرح ، روس کے پیوٹن کی طرح کہ اس میں پیٹر دی گریٹ کی روح آگئی کہ وہ روس کی عظمت بحال کرے ، جیسے اردوان سلطنت عثمانیہ کا خواب ترکوں کو دکھا رہے ہیں۔ خان کی طرح کہ وہ ریاست مدینہ بنائے گا پاکستان کو۔ اگر ٹرمپ آجائے تو خان کے لیے امریکا اچھا ہے اور اگر بائیڈن آجائے تو برا ۔ اگر وزیر اعظم بناؤ تو ٹھیک ، ورنہ میں پارلیمنٹ میں لیڈر آف دی اپوزیشن بن کر نہیں بیٹھوں گا۔ پھر پاکستان رہے نہ رہے ، ایٹم بم رہے نہ رہے۔ خان صاحب کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ پی ٹی آئی والوں کے لیے ایک اور بری خبر یہ ہے کہ مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ اگلے صدارتی انتخابات میں اپنی پارٹی کے صدارتی امیدوار والی ریس سے بھی تیزی سے باہر جا رہا ہے۔
یوکرائن کی جنگ نے پھر سے پوری دنیا کو ایک نئے موڑ پے کھڑ اکردیا ہے ۔ دنیا پھر کے آمرتیں اور آمرانہ ذہنیت روس کو اس جنگ میں کامیاب دیکھنا چاہتی ہیں اور دنیا کی پوری جمہوری سوچ یوکرائن کے پیچھے کھڑی ہے۔ یہ جنگ بہت ہی پوسٹ ماڈرن ہے۔ سارا ویسٹ ، ساری جمہوری قوتیں اور جمہوری سوچ یوکرائن کے صدر زیلسنکی کے ساتھ کھڑی ہے اور دنیا کا پورا پاپولزم پیوٹن کے ساتھ ۔ کچھ نہیں پتا یہ جنگ کون ہارے گا ، کون جیتے گا۔ مگر اس کی ہار اور جیت سے دنیا کی نئی منزلیں ترتیب پائیں گی۔ یہ صدی انسانی حقوق کی صدی ہے۔ وہ جو ہر جمہوری آئین کا محور ہے اور اس سے بڑھ کر کوئی حقیقت نہیں ہے۔