خیال آفاقی کی تین کتابیں
اقبال کے منتخب اشعار کی شرح ’’ اذان اقبال ‘‘ جو خصوصاً نوجوان طبقے کے لیے لکھی گئی ہے
ISLAMABAD:
خیال آفاقی اس اعتبار سے منفرد حیثیت کے مالک ہیں کہ آپ بیک وقت شاعر ، ناول نگار ، افسانہ نگار ، ڈرامہ نگار اور سوانح نگار بھی ہیں۔ تنقید بھی آپ کا شعبہ رہا ہے۔ آپ کی ناول نگاری پر تو پی ایچ ڈی بھی کی گئی ہے۔ نثر کے حوالے سے آپ کا سب سے اعلیٰ اور افضل کام سیرت النبیؐ پر تصنیف کردہ معرکۃالآرا کتاب ''رسول اعظمؐ'' ہے۔
جو محاکاتی انداز میں لکھی گئی ہے ، اسے ایک شاہکار تالیف کا درجہ حاصل ہو چکا ہے۔ اپنی بے مثال خوبیوں کی بنا پر اہل ذوق اور عاشقان نبی مکرم ﷺ میں خاص مقبولیت حاصل کرچکی ہے۔ اقبالیات پر بھی آپ کا خاصا کام ہے ، جسے بھی عوام الناس میں خاص مقبولیت حاصل ہے۔ علامہ اقبال کی سوانح پر '' شاعر اسلام '' ایک منفرد تالیف ہے۔
اقبال کے منتخب اشعار کی شرح '' اذان اقبال '' جو خصوصاً نوجوان طبقے کے لیے لکھی گئی ہے ، خاص پذیرائی حاصل کرچکی ہے۔ نثری ادب میں آپ کی بھرپور شمولیت اور خدمات کے ساتھ آپ کی خصوصی پہچان شاعری ہے جو روایتی اور عام مروجہ طرز شاعری سے ہٹ کر ہے اس کی وجہ دراصل حضرت اقبال سے آپ کی روحانی وابستگی ہے۔ آپ علامہ کو اپنا مرشد تسلیم کرتے ہیں۔ آپ کی شاعری پر بھی رفاہ انٹرنیشنل یونی ورسٹی فیصل آباد سے تحقیقی مقالہ لکھا جا رہا ہے۔
پروفیسر صاحب کی شعری تخلیقات میں ان کے دس بڑے شعری مجموعوں میں سے اس وقت تین مجموعے ہمارے پیش نظر ہیں۔ شب نامہ ، رود خیال اور ''نفسِ جبرئیل۔'' یہ تینوں کتابیں اپنے شعری طرز کے حوالے سے اس بات کو ثابت کرتی نظر آتی ہیں کہ مرید اقبال خیال آفاقی کی فکر پر ان کے پیر و مرشد علامہ اقبال سایہ فگن ہیں۔ مذکورہ کتب ثلاثہ سے بطور نمونہ چند اشعار بغیر کسی تبصرہ قارئین کے ذوق مطالعہ کی نذر کیے جاتے ہیں تاکہ ہمارے اس بیان کی تصدیق ہو سکے کہ خیال آفاقی کی روح میں روحِ اقبال اپنی فیض رسانی کیے ہوئے ہے اور اس بات کو بھی تقویت مل سکے کہ کلام خیال پر کلام اقبال نور فشاں ہے۔ ''شب نامہ'' کے چند گوہر آبدار ملاحظہ کیجیے:
اذان سن کے فقط جھکا دیا بھی تو کیا
دل و نگاہ اگر خو گر نماز نہیں
متاع بینش محمود کھو گئی شاید
کوئی شمار گر دانشِ ایاز نہیں
متاع ہوش کہ جس کو ہوس نے لوٹ لیا
کسی کے کام کی نکلی ، نہ میرے کام آئی
بدن کے شیش محل میں ہے عشق روح رواں
مثالِ شمع فروزاں حیات عشق سے ہے
نمودِ زندگی کا راز کیا ہے؟
یہ صورت کیا ہے' یہ آواز کیا ہے؟
یہ بات تو اب کسی مزید ثبوت کی محتاج نہیں کہ پروفیسر خیال آفاقی کو حضرت علامہ اقبال سے والہانہ عشق ہے۔ فکر اقبال سے ہم آغوش ہو کر یہ خاکسار کچھ کہنے کی ادنیٰ سی کوشش کرتا ہے۔ تاہم میں جانتا ہوں کہ مرد قلندر اقبال کی پیروی بھی کوئی سہل کام نہیں ہے کہ یہ خوش نصیبی ہر ایک کو نصیب ہو سکے لہٰذا سپر انداز ہو کر پروفیسر صاحب کو کہنا پڑتا ہے۔
کہاں سے لاؤں میں وہ نئے نوازیٔ اقبال
جگر میں سوز نہیں دل میں وہ گداز نہیں
مذکورہ کتاب '' شب نامہ '' میں زیادہ تر نظمیں ہیں اور بقول ڈاکٹر رفیق خاور خیال آفاقی بنیادی طور پر نظم کا شاعر ہے اور شب نامہ کی بیشتر نظمیں اردو شعری ادب میں شاہکار نظمیں کہلانے کا حق رکھتی ہیں۔
دوسری کتاب ''رودِ خیال'' کی شعریت کی بھی ایک جھلک ملاحظہ کیجیے۔
کون ہے جو روبرو ہے آئینے کے سامنے
کیا خبر میں ہوں کہ تو ہے آئینے کے سامنے
میں نے سمجھا تھا کہ میں ہوں محوش آرائش مگر
اب کھلا کہ تو ہی تو ہے آئینے کے سامنے
میں آئینہ ہوں مجھے اپنے روبرو رکھیے
میرا بھرم نہ سہی اپنی آبرو رکھیے
منزل مری وہی ہے جہاں سے چلا تھا میں
جنت بدر کہو نہ مجھے میں سفر میں ہوں
یہ ایک حقیقت ہے کہ عشق ہی وہ جذبہ ہے جو انسان کو کیا سے کیا بنا دیتا ہے اور اس کے ہاتھوں ناممکن بھی ممکن ہو جاتے ہیں۔ خیال آفاقی کو بھی عشق نے اپنی آگ میں تپا کر کندن بنا دیا ہے۔ چنانچہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے پیش نظر تیسرا شعری مجموعہ '' نفسِ جبرئیل'' ہمارے اس بیان کی کس حد تک تائید کرتا ہے:
حسن اگر آج بھی ادنیٰ سا اشارہ کر دے
عشق ہستی سے گزر جائے تماشا کر دے
جب تک نہ ہو عمل میں یقیں کی شمولیت
بے روح ، بے سرور ہے طرز عبودیت
ہے رنگ و نسل سے بھی زیادہ تباہ کن
مسلک کا اختلاف ، عقیدے کی عصبیت
کتب ثلاثہ سے اخذ کردہ یہ چند اشعار قارئین کو یقینا خیال آفاقی کے مزاج سخن سے آشنا کرانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ پروفیسر صاحب بھی اپنے استاد و مرشد کی طرح شاعری کو محض اپنے خیالات و افکار کے اظہار کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ جس طرح فرسودہ اور روایتی غزل کے لیے کہا جاتا ہے کہ اس کا مطلب محبوب (عورت) سے بات کرنا ہے ، لیکن پروفیسر خیال آفاقی غزل کو نئے معنی پہناتے ہیں اور جب محبوب سے باتیں کرتے ہیں تو ان کا محبوب بھی وہ نہیں ہوتا جس کو شاعری میں ایک خیالی دیوتا بنا کر رکھا گیا ہے۔ اصل میں ان کا محبوب وہ ہے جو کائنات کی ہر مخلوق کا محبوب ہے پھر مستانہ وار نعرہ بلند کرتے ہیں۔
میرے سخن میں تیری خو ، میری غزل کا رنگ تو
میرے ہر ایک شعر میں تیرا خیال تیری بات