حسن جاوید اور ’’شہر بے مھر‘‘
ناول کے لکھنے اور اس کے 32 ابواب کا میل جوڑنے میں ایک خاص مہارت دکھائی گئی ہے
VEHARI:
کراچی میں جمہوری حقوق کی جدوجہد میں ترقی پسند اور سوشلسٹ خیالات کے طلبہ نے اپنی معاشی تنگ دستی اور جھونپڑ پٹی کی نا آسودہ زندگی کے باوجود اور سماجی ناہمواری کی پرواہ کیے بغیر اپنی طلبہ تحریک اور جدوجہد کو جِلا بخشی تاکہ ایک غیر طبقاتی سماج قائم کیا جائے اور استحصال کی قوتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے سماج کی تمام پرتوں کی منڈلی بنا کر اس وطن میں عوامی جمہوری راج قائم کیا جائے۔
پاکستان کے قیام کے ابتدائی سالوں میں جہاں کمیونسٹ فلسفے کی طلبہ تنظیم ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ڈاکٹر سرور اور ڈاکٹر ادیب کا اہم کردار رہا ، وہیں کمیونسٹ پارٹی پر بندش کے بعد سوشلسٹ خیالات کی طلبہ تنظیم کا بھی بہت سرگرم حصہ رہا۔ این ایس ایف کے ابتدائی سالوں میں کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ میں تحرک پیدا کرنے کا نشان این ایس ایف کے حصے میں آیا ، جس نے طلبہ کی مدد سے جنرل ایوب کے ون یونٹ کے خلاف سندھ سے لے کر پورے ملک کو منظم کیا۔ وہیں این ایس ایف کی تنظیم نے سوشلسٹ خیالات کے معراج محمد خان ، علی مختار رضوی ، ایسے ملکی سطح کے رہنما بھی دیے جنھوں نے ملکی سیاست میں نظریاتی اور سیاسی رواداری کی مثالیں قائم کیں۔
ڈی ایس ایف اور این ایس ایف کی ان طلبہ تنظیموں نے متعدد طلبہ کے سیاسی شعور کو مہمیز کیا اور سماج کے مختلف شعبہ جات میں کارہائے نمایاں ادا کیے ، یہ وہ وقت تھا کہ معاشی تنگ دستی سے بے پرواہ یہ طلبہ بہتر سماج کی تعمیر کے خواب سجائے میلوں سفر کو بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے، طلبہ سرگرمی میں جہاں توصیف احمد خان مصروف تھے ، وہیں اس تحریک میں متحرک تین حسن جاوید بھی شامل تھے، اس وقت دقت یہ تھی کہ ایک حسن جاوید ڈی ایس ایف اور دو حسن جاوید کا تعلق این ایس ایف سے تھا۔
تینوں حسن جاوید طلبہ حقوق کی جدوجہد میں یکسو اور متحرک تھے مگر طلبہ سرگرمی میں حسن جاوید کی شناخت دوستوں کے لیے مسئلہ بنی ہوئی تھی۔ سو عمدا یا ازراہ تفنن تینوں کی شناخت کے پہلو اس طرح نکالے گئے کہ حسن جاوید '' لمبا '' حسن جاوید ''چھوٹا '' اور حسن جاوید ڈاکٹر ، عجیب طرح داری کا زمانہ تھا کہ دوستوں کی مشکلات کو آسان کرنے کے لیے مجال کہ تینوں حسن جاوید کے نام بگاڑنے پر کسی کے ماتھے پر شکن آئے۔
سب قہقہے لگاتے مسکراتے ، اپنے عزم کے ساتھ ایک بہتر سماج کی کوششوں میں ساتھ ساتھ جتے رہے اور اب تک کسی نہ کسی طرح اس سماج میں روشن خیالی اور انسانی قدروں کی سر بلندی کے لیے جتے ہوئے ہیں۔ یہ بھی عجب اتفاق ہے کہ تینوں حسن جاوید کا رشتہ سیاست اور نظریات سے نہ صرف جڑا ہوا ہے بلکہ تینوں کا کتاب سے رشتہ اٹوٹ ہے ، آج ڈاکٹر حسن جاوید این ایس ایف کی تاریخی دستاویز '' سورج پہ کمند '' تو دوسرے حسن جاوید سیاسی طور سے متحرک اور روشن خیال ادارے بدلتی دنیا کی تمام پبلیکیشنز کے ہنستے مسکراتے منتظم ہیں جب کہ حسن جاوید قیصر ایک مستند صحافی کے ساتھ بہترین ناول نگار کی حیثیت سے اپنا نظریاتی اور تاریخی فرض ادا کرنے میں ہنوز متحرک ہیں۔
حسن جاوید نے دوستوں کی سہولت کے لیے اپنے کمیونسٹ فکر والد '' قیصر'' کا نام لگا کر اپنے صحافتی اور قلمی سفر کو جاری رکھا ، آج ہم اس حسن جاوید کی اہم ناول '' شہر بے مھر '' کے کرداروں کے سماجی احساسات کے وہ گوشے زیر بحث لائیں گے جو آج بھی اس پراگندہ سماج میں دندنا رہے ہیں۔
حسن جاوید کا '' شہر بے مھر '' ناول کا بظاہر مرکزی خیال سماج میں بڑھتے ہوئے اس ناسور کا لگتا ہے جو خود کو کسی قانون اور ضابطے کا پابند نہیں سمجھتا اور نہ ہی اس کے نزدیک رشتوں اور سماجی جڑاؤ کی کوئی اہمیت ہے، البتہ اس سفاک کردار میں کہیں نہ کہیں جمالیاتی حس ضرور اپنا سر ابھارتی ہے۔
جس پر یہ کردار اس پر قابو پانے میں ناکام ہے ، حالانکہ اس '' ہٹیلا '' کردار کی زندگی میں نہ ناکامی ہے اور نہ ہی وہ زندگی میں ناکام رہنا چاہتا ہے۔ فتح کا یہی زعم اسے سماج کی تمام قدریں پامال کرنے کی چھوٹ دیتا ہے جسے یہ کردار اپنا ''حق'' سمجھ لیتا ہے اور اسی حق کے لیے وہ ذات کے ظلم سہنے سے لے کر ہر فرد کو اپنے ظلم کا عادی بنا دینا چاہتا ہے اور سب کو اپنی آنکھ سے دنیا دیکھنے پر مجبور کرتا رہتا ہے۔
حسن جاوید کا ناول ترتیب اور خیال کی بہتی رو میں لکھا گیا شہر اور حالات کا وہ خوبصورت نوحہ ہے جس میں بے رحمی سے جہاں سماج کے رستے زخموں کو دکھایا گیا ہے ، وہیں اس ناول میں کرداروں کے ذریعے سماجی شعور کی جوت جگانے کی بھی عمدہ کوشش کی گئی ہے۔
ناول کے لکھنے اور اس کے 32 ابواب کا میل جوڑنے میں ایک خاص مہارت دکھائی گئی ہے ، جو قاری کو ناول کے انجام کی تڑپ میں مبتلا کردیتی ہے۔ '' شھر بے مھر'' میں جہاں بر بربریت دندنا رہی ہو ، وہیں سماج میں نظریاتی کجی کو بڑی خوبصورتی سے استاد کرم علی ذریعے سماج کے سیاسی شعور کو بلند کرنے کا کام کیا گیا ہے۔ میرے مطالعے میں یہ ناول سفاک اور بے رحم سماج میں نظریاتی دیپ جلانے کا حسین زاویہ ہے۔ یہ ناول اپنے نامکمل نظریاتی خواب یا کتھارسس نکالنے کا وہ شعوری بہاؤ ہے جو سماج کی سیاسی اور نظریاتی قدروں کو جوڑنے اور نا امید نہ ہونے کا ایک سنجیدہ پیغام ہے۔
غور کیجیے کہ سفاکی اور بے رحمی سے مزین شہر میں کس خوبصورتی سے سیاسی ، سماجی اور نظریاتی کرداروں شکیل ، رضیہ اور مکرم کی جہد مسلسل کی تخلیق کی گئی ہے کہ شکیل اور رضیہ مکمل جمالیاتی جولانی لیے ہوئے ہیں مگر ان میں نظریہ کی استقامت زیادہ اہم ہے جب کہ استاد کرم علی کی اس بے رحم شہر کے سفاکانہ چلن میں جرات کو دکھا کر سماج کا استحصال کرنے والی قوتوں کے چہرے سے نقاب اتاری گئی ہے۔ استاد مکرم کے لہجے میں کہ '' تحاریک بنتی ہیں ، ٹوٹتی اور کچھ کامیاب ہو جاتی ہیں مگر تحاریک میں مقصد سے وابستگی جس سطح کی ہوتی ہے۔
تحاریک کی سرگرمی بھی اسی کے تحت ہوتی ہے، مقصد سے وابستگی اور قیادت کا حالات کو سمجھنے کی صلاحیت تحریک کو زندہ رکھتی ہے ، جب تک تضاد موجود ہے اس کا اظہار نئی تحریک کی شکل میں ہوتا رہتا ہے۔ مصنف نے مارکس کے فلسفے کو ایک جملے میں مکرم کی زبانی ادا کروا کر کہ '' ایک تضاد حل ہونے کے بعد دوسرا تضاد بھی فورا پیدا ہو سکتا ہے جو کسی دوسری تحریک کا باعث ہوتا ہے'' کے ذریعے یہ بات بتانے کی کوشش کی ہے کہ سفاک سماج میں بھی علم و شعور اور نظریاتی سوچ ہمت نہیں ہارتی اور انسان اپنی امید جہد مسلسل میں ہی پیدا کرتا ہے۔
حسن جاوید کا یہ ناول آج کے سیاسی اور نظریاتی تضادات میں امید و جستجو کے سفر کی جانب بڑھنے کا ایک روشن خیال حوالہ ہے جو ضرور ناول کی دنیا میں نئے دیپ جلائے گا۔