اب اشرافیہ قربانی دے
موجودہ حکومت کو چاہے کہ وہ کسی بھی قسم کے سخت اقدامات اٹھانے سے نہ کترائے
پاکستان اپنی تاریخ کے مشکل ترین معاشی حالات سے گزر رہا ہے، پیٹرولیم، مصنوعات، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کم و بیش 45فیصد اضافہ کردیا گیا ہے۔ لامحالہ ان سے جڑی ہر شے کی قیمت میں اضافہ متوقع ہے۔ اشیائے خور و نوش کے نرخ آسمان سے باتیں کررہے ہیں۔
پاکستان کی محب وطن سیاسی قیادت صورتحال میں ٹھوس بہتری کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہے۔ ایک طبقہ مہنگائی کی اس لہر کا ملبہ موجودہ سیاسی رجیم پر ڈال کر کپتان کو بری الذمہ قرار دینے کا پروپیگنڈا کررہا ہے جو اتنا آسان نہیں۔ ماضی میں بھی حکومتیں ریاست کے معاملات چلانے کے لیے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لیتی رہی ہیں لیکن کسی نے ان کے آگے ملک کو گروی نہیں رکھا لیکن کپتان نے جو معاہدے کیے وہ آنے والی حکومت کے لیے بارودی سرنگیں ثابت ہو رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ 18سے 25 مئی کے دوران قطر میں آئی ایم ایف کا جائزہ اجلاس تھا۔
اس اجلاس کے اعلامیہ میں لکھا ہے کہ عمران خان کی حکومت نے گزشتہ ریویو میں جن پالیسیوں سے اتفاق کیا تھا فروری 2022میں ان سے خود ہی انحراف کیا۔ اس انحراف میں تیل اور بجلی پہ دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ بھی شامل تھا۔ یہ وہ بارودی سرنگ تھی جو کپتان نے اپنے اقتدار کا سورج غروب ہوتے دیکھنے کے بعد نصب کی۔
اگر کپتان کو اقتدار سے زیادہ ملک عزیز ہوتا تو یہ لوگ ان معاہدوں سے انحراف نہ کرتے لہذا قوم پہ یک مشت بوجھ نہ پڑتا بلکہ مرحلہ وار پڑتا۔ لیکن انھیں تو پاکستان کی فکر تھی ہی نہیں، ہم اپنے کالم میں بارہا اس بات کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ وہ کسی خاص ایجنڈے پر آئے تھے، یہ تو بھلا ہو مولانا فضل الرحمان کا جو اس طوفان بدتمیزی کے آگے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر ڈٹ گئے اور ان ہی کی شبانہ روز کاوشوں کے نتیجے میں ملک کی جان وقت سے پہلے چھوٹ گئی اگر ایسا نہ ہوتا تو نجانے حالات مزید کتنے خراب ہوتے۔
ہم بات کررہے تھے کپتان کے ارادوں اور اقدامات کی چونکہ یہاں پاکستان کی فکر تو تھی ہی نہیں، بس اپنا شملہ اونچا ہونا چاہیے تھا لہذا کپتان نے فوراً بجلی کے بلوں میں سبسڈی دے دی، یہ طے کیے بنا کہ یہ پیسے کہاں سے آئیں گے؟ یکم مارچ کو تیل کی قیمتوں پر بریک لگانے کا اعلان کرنے سے پہلے اقتصادی رابطہ کمیٹی تک سے نہیں پوچھا گیا اور اعلان کردیا کہ تیس جون تک پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوگا۔ اس اعلان سے قومی خزانے کو روزانہ کی بنیاد پر اربوں روپے کا ٹیکہ لگایا گیا، دوسری طرف آئی ایم ایف ناراض ہوا کہ اس سے تو معاہدہ کیا گیا تھا کہ سبسڈی ختم کریں گے یہ مزید سبسڈی کا اعلان کررہے ہیں۔
اب عنان اقتدار نااہل اور نالائق کپتان کے ہاتھوں سے کھینچ لی گئی ہے۔ گیارہ محب وطن جماعتوں نے مل کر حکومت بنائی، جس میں پی ٹی آئی کے سوا ملک کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔ موجودہ رجیم نے آتے ہی جب معاملات کا جائزہ لیا تو توقع سے کہیں زیادہ خراب صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسی صورتحال میں اتحادی حکومت کے پاس بھی آپشن تھا کہ وہ لوگ سیاست بچاتے اور ریاست کی لیے مزید بارودی سرنگ انسٹال کر دیتے لیکن انھوں نے سیاست سے زیادہ ریاست کی فکر کی۔
اس وقت ان سب اقدامات کے باوجود پاکستان کا تجارتی خسارہ اس سال پچاس ارب ڈالر ہونے کی توقع ہے اس پہ لوگ سمجھتے ہیں کہ تیل پر سبسڈی دی جائے لیکن یہ سبسڈی کے پیسے کہاں سے آئیں گے؟ اس بارے میں کوئی بات نہیں کرتا۔ زرمبادلہ سنگل ڈیجٹ میں آچکا ہے۔ آئی ایم ایف نے صاف طور پر کہہ دیا ہے کہ گزشتہ حکومت نے جو معاہدے کیے انھیں پورا کرو تب پیسے ملیں گے، آئی ایم ایف سے ملنے والی رقم بڑی نہیں لیکن آئی ایم ایف سے ڈیل نہ ہوئی تو کوئی مالیاتی ادارہ یا ملک ہماری مددکرنے کو تیار نہیں ہوگا۔
موجودہ رجیم کے سامنے سب سے بڑا چیلنج دم توڑتی معیشت کو بچانا ہے۔ اس کے لیے مشکل فیصلوں کا راستہ اپنایا گیا ہے، یہ فیصلے یقینی طور پر عوام کے سینوں پر مونگ دلنے کے مترادف ہے، لیکن اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ قربانی تو دینی ہوگی، تاہم اس بار حکومت صرف عوام سے قربانی لینے کے بجائے اشرافیہ سے بھی قربانی لے۔ حکومت ملک میں فوری مالیاتی ایمرجنسی کا نفاذ کرے۔ تمام سرکاری محکموں سے اپنے اخراجات 50 فیصد تک کم کرنے کا کہا جائے۔
مفت پیٹرول، فری بجلی پر صرف کٹ نہ لگائیں، بلکہ مکمل طور پر ختم کردیں۔ سرکاری محکموں اور آفیسرز کے زیر استعمال 1300 سی سی سے بڑی سرکاری گاڑیاں واپس لے لی جائیں، چھوٹی گاڑیوں کا استعمال کیا جائے۔ ایک سے زیادہ پروٹوکول یا سیکیورٹی گاڑی پر مکمل پابندی ہو۔ بلیو بک میں درج عہدے داروں کے علاوہ جسے بھی سیکیورٹی درکار ہو وہ خود اخراجات برداشت کرے۔
پولیس سیکیورٹی میں سرکاری گاڑیاں دینا بند کیا جائے۔ تمام سرکاری دوروں کو محدود کر دیا جائے۔ تمام میٹنگز اور کانفرنسز ورچول کر دی جائیں۔ ٹی اے، ڈے اے بند کر دیا جائے۔ تمام ملٹی نیشنل کمپنیز کو دفاتر واپڈا سے سولر سسٹم پر منتقل کرنے کا حکم جاری کیا جائے۔ گھریلو استعمال کے لیے سولر سسٹم پر بغیر سود، آسان اقساط پر قرضے دیے جائیں، ان پر عائد ڈیوٹی ختم کرنے کا اعلان کیا جائے۔
دفتری اوقات دو گھنٹے بڑھا کر ہفتہ اور اتوار کی چھٹی کرکے توانائی بچائی جائے۔دوبارہ ملازمت کرنے والوں کی پینشن بند کر دی جائے۔ تمام وزرا اور پارلیمنٹیرینز کی تنخواہ اور تمام مراعات بشمول ٹی اے ڈی اے فوری بند کردیا جائے۔ صرف تنخواہ کوئی بھی وزیر یا پھر پارلیمان کا ممبر بیان حلفی دے کر لے سکے کہ اْسے ضرورت ہے۔ صدر، وزیر اعظم، گورنر، وزرائے اعلیٰ، تمام صوبائی اور وفاقی کابینہ کا بجٹ نصف کیا جائے۔ وزیر اعظم کے کیمپ آفس ختم کر دیے جائیں۔ اشرافیہ کی عیاشیوں کو نظرانداز کرکے، تمام بوجھ عوام کو منتقل کرنا سراسر زیادتی اور ملک دشمنی ہوگا۔ اس طرح معاملات ریاست چلانے میں مشکل پیش آئے گی، عوام حکومت کے خلاف ہوں گے۔
پچھلے پچھتر سال سے عوام نے ہی معیشت کا بوجھ اٹھایا ہوا ہے۔ مارشل لاء یا جمہوری دور میں کبھی بھی کسی سرکاری محکمے یا ان کے افسران کی مراعات میں کبھی بھی کٹوتی نہیں کی گئی۔ اب جب کہ کہ پاکستان بری طرح معاشی مسائل کا شکار ہے تو حکومت کو چاہیے کہ سرکاری محکموں اور افسران کو دی گئی تمام مراعات واپس لی جائیں، تاکہ ملک وقوم پر بڑھتا ہوا بوجھ کچھ کم ہوسکے۔ پاکستان کی 100فیصدعوام ٹیکس ادا کر رہے ہیں ہر عام و خاص آدمی سیلز ٹیکس کی صورت میں حکومت کو ٹیکس ادا کر رہا ہے،ایک ماچس کی ڈبیہ سے گاڑی خریدنے تک ہر آدمی سیلز ٹیکس ادا کرتا ہے۔ اور ملازمت پیشہ لوگوں کو تنخواہ ملنے سے پہلے ہی ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے ۔ جب کہ صنعتکار اس تناسب سے ٹیکس ادا نہیں کر رہا جس تناسب سے ایک نوکری پیشہ فرد ٹیکس ادا کرتا ہے۔
حکومت کو چاہے کہ تمام صنعتکاروں کو کچھ مراعات دے کر ان پر ٹیکس کی شرح بڑھا دی جائے، مگر اس صورت میں کہ اس کا بوجھ عوام پر نہ پڑے۔ بیرون ملک سے درآمد کردہ اشیا پر ڈیوٹی اور ٹیکس کی شرح دگنی کردی جائے،کیوں کہ 90فیصد عوام متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہے اس لیے یہ اضافی بوجھ صرف اشرافیہ پر ہی پڑے گا جس کی مد میں اچھی خاصی آمدن ہوگی اور وہ پیسہ ملک و قوم کے کام آئے گا۔ اگر صنعتکار حکومت کے ساتھ تعاون کریں گے تو گرتی ہوئی معیشت کو سہارا مل جائے گا جس سے بیرونی قرض اتارنے میں مدد ملے گی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی پر بھی قابو پایا جا سکے گا۔خدا نخواستہ ملکی معیشت بیٹھ گئی تو سب سے پہلے صنعتکار ہی متاثر ہوں گے۔ اور ملک خانہ جنگی کی طرف بڑھنے لگے گا۔ اب اشرافیہ کو چاہیے کہ وہ اپنا کردار ادا کریں، اور ملک پر بڑھتا ہوا بیرونی قرض اتارنے میں حکومت کی مدد کرے۔
موجودہ حکومت کو چاہے کہ وہ کسی بھی قسم کے سخت اقدامات اٹھانے سے نہ کترائے۔ خاص طور پر سرکاری اور نجی شعبوں سے کرپشن، ذخیرہ اندوزی، بجلی، گیس کی چوری روکے اور ٹیکس کی وصولیابی پر سختی سے عمل کروائے، تاکہ ملکی معیشت کو سہارا مل سکے۔ کیوں کہ جب تک آپ ان چیزوں کو صحیح نہیں کریں گے تو ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ممکن نہیں۔ پچھلے پچھتر سال سے عام عوام تو معیشت کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے اب اشرافیہ کو بھی چاہیے کہ وہ ملکی معیشت سنبھالنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے، اس لیے بہتر ہے اس بار قربانی پہلے اشرافیہ دے۔