معیشت کو گرداب سے باہر نکالیں
صوبوں نے توانائی بحران سے نمٹنے کے لیے بازار رات ساڑھے آٹھ بجے بند کرنے پر اصولی اتفاق کیا ہے
قومی اقتصادی کونسل (این ای سی) کے اجلاس میں صوبوں نے ملک میں توانائی بحران سے نمٹنے کے لیے بازار رات ساڑھے آٹھ بجے بند کرنے پر اصولی اتفاق کیا ہے۔ اسلام آباد میں وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت این ای سی کے اجلاس میں اہم مشاورت مکمل کرلی گئی، جس میں تمام وزرائے اعلیٰ نے توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے ملک گیر اقدامات پر وفاقی کابینہ کے فیصلوں کی تائید کی ہے۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ حکومت نے نہ صرف معیشت کو صحیح سمت دی بلکہ اپنے مختصر دور میں توانائی کے شعبے میں اصلاحات کے ساتھ ساتھ اندرونی و بیرونی شعبوں میں مزید عدم توازن کو ٹھیک کرنے کے لیے اصلاحاتی اقدامات اٹھائے ہیں۔
حکومتی سطح پر جو اقدامات معاشی و اقتصادی بحران پر قابو پانے کے لیے کیے جا رہے ہیں، وہ صائب ہیں، جیسا کہ ہمارا کاروباری کلچر بن چکا ہے کہ ہمارے یہاں رات گئے تک دکانیں کھلی رہتی ہیں، آٹھ یا سولہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ دیہاتوں اور شہروں میں جاری ہے۔
ایسے میں تاجر برادری کو کاروباری کلچر کو ترک کرکے روایتی کلچر کو اپناتے ہوئے الصبح ہی اپنی دکانیں کھول کر کاروبار کا آغاز کر دینا چاہیے' تاکہ انھیں کاروبار کی برکتیں حاصل ہوں اور ان کے جائز منافع اور رزق میں مزید اضافہ ہو۔ ملک میں معاشی ایمرجنسی سے بچاؤ کا واحد حل یہی ہے کہ جو اوقات کار حکومت طے کرے، اس پر عمل کیا جائے' بجائے احتجاج کی روش اپنا کر ملکی معیشت کو نقصان پہنچایا جائے۔ کاروباری طبقات کو معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان میں جو طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔
وہ اینڈکنزیمر ہے۔ مینو فیکچرز پر جو سینٹرل ایکسائز ٹیکس عائد کیا جاتا ہے، وہ بھی صارف سے وصول کیا جاتا ہے، کہا جاتا ہے کہ عوام ٹیکس نہیں دیتے لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے، بلکہ اشیائے وخور و نوش سے لے کر بجلی، پانی، سوئی گیس کے بلز پر لاتعداد ٹیکسز کی بھر مار ہے، حتیٰ کہ ٹی وی کی لائسنس فیس بھی شامل ہے، عوام جی ایس ٹی، ایکسائز ڈیوٹی، انکم ٹیکس جیسے لاتعداد ٹیکسز کے بوجھ تلے کچلے جا رہے ہیں۔ لاتعداد فلاحی ادارے اور ٹرسٹ اور وقف جن کی آمدنی کروڑوں اور اربوں روپے میں ہے۔
انھیں سرکاری مراعات یعنی کنالوں اور ایکٹروں کے حساب سے مفت یا ٹوکن پرائس پر زمین الاٹ کردی جاتی ہے،عمارتیں تعمیر کرنے کے لیے سرکاری خزانے سے مدد فراہم کی جاتی ہے اور بھی ٹیکس استثناء دیے جاتے ہیں، اب وقت آگیا ہے کہ حکومت نجی شخصیات یا اداروں کو اس قسم کی سرکاری مراعات ختم کردی جائیں، جس کاروباری شخصیت، سلیبریٹی نے کوئی فلاحی ٹرسٹ بنانا ہے تو اپنی جیب سے بنائے، اسے عوام سے چندہ اکٹھا کرنے کی بھی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ حکومت فلاحی اداروں کو جو سہولت دیتی ہے، وہ پیسہ سرکاری ہستالوں اور تعلیمی اداروں پر خرچ کیا جائے تو زیادہ فائدہ مند ہے۔
پاکستانی معیشت حقیقی معنوں میں اس وقت آئی سی یو میں ہے، روپے کی سانس اکھڑ رہی ہے۔ درآمدات اور برآمدات کا توازن بری طرح مجروح ہو کر رہ گیا ہے۔ اس صورتحال سے نکلنے کا بظاہر واحد راستہ آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرنا ہے۔
ان شرائط پر عمل کرنے سے یقیناً مہنگائی میں اضافہ ہوگا، جس سے عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ ہوجائے گا اور اگر عالمی مالیاتی فنڈ کا یہ پروگرام اختیار نہ کیا جائے تو خاکم بدہن پاکستان میں سری لنکا جیسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔ ماضی میں پاکستان سمیت کئی ترقی پذیر ممالک نے آئی ایم ایف کا پروگرام کامیابی سے مکمل بھی کیا، اگر اداروں میں موجود بد انتظامی پر قابو پا لیا جائے تو اب بھی اس گرداب سے نکلا جا سکتا ہے۔
ناقدین کا خیال ہے کہ ملکی معیشت میں بہتری لانا اتنا آسان نہیں ہے جتنا بتایا جا رہا ہے یا اُمید دلائی جا رہی ہے۔ دراصل یوکرین کی جنگ نے عالمی معیشت کو متاثر کیا ہے۔ وزارتِ خزانہ نے کہا ہے کہ اخراجات میں زیادہ سبسڈیز اور گرانٹس مالیاتی کھاتوں پر نمایاں بوجھ ڈال رہے ہیں۔ معاشی ماہرین نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے کہ تجارتی خسارہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ جوں جوں درآمدات بڑھ رہی ہیں، درآمدات کو سنبھالنا ممکن نہیں ہو پا رہا۔ افراطِ زر بھی بڑھ رہا ہے جس کے نتیجے میں شرح سود میں اضافہ ہوا ہے۔ اب اس میں مزید اضافہ متوقع ہے۔
یہ بات سب کے علم میں ہے کہ ہماری مجموعی صنعتی پیداوار میں کمی ہو رہی ہے۔ برآمدات کے مقابلے میں درآمدات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اسمگلنگ میں اضافے کی وجہ سے ہماری اپنی صنعتیں دباؤ کا شکار ہیں۔ توانائی کے بحران اور توانائی کی قیمتوں میں آئے روز ہونے والے اضافے اور ٹیکسوں کی بھرمار کی وجہ سے ہمارے پیداواری اخراجات ریکارڈ حد تک بڑھ چکے ہیں جس کی وجہ سے ہم اب عالمی منڈیوں میں مقابلے کے قابل ہی نہیں رہے۔ افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ سابقہ حکومت کے 44 ماہ کے دوران زراعت سمیت پیداواری شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔
ہمارا سب سے بڑا اور اہم برآمدی شعبہ ٹیکسٹائل کپاس کی پیداوار میں تقریباً 60 فیصد کمی ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ ہمیں اپنی کپاس کی ملکی ضروریات پوری کرنے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کرکے اسے باہر سے درآمد کرنا پڑا جس سے ہماری معیشت مزید دباؤ میں آگئی۔ دوسرے گندم اور چینی کے بحران پر قابو پانے کے لیے ان کی درآمد پر بھی بھاری زرمبادلہ خرچ کرنا پڑا۔
سابقہ حکومت پیداواری شعبے کو بحران سے نکالنے کے بجائے اپوزیشن کے ساتھ سیاسی جنگ میں مصروف رہی۔ جس کی وجہ سے ملک و قوم کے مسائل میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ مالی سال 2022 میں صنعتی نمو میں کمی کی پیشگوئی کی گئی ہے، کرنسی میں گروٹ، تیل اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے جب کہ زراعت کا شعبہ جی ڈی پی بڑھانے کے لیے مثبت اشارے دے رہا ہے۔ افراطِ زر کی شرح مالی سال 2022 میں 11 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے۔
تیل اور گیس کی بڑھتی قیمتیں افراطِ زر پر مزید دباؤ بڑھائیں گی۔ گزشتہ کچھ برس میں ہماری درآمدات بہت بڑھ گئی ہیں جس کی وجہ سے معیشت پر بہت بوجھ ہے۔ ہمیں غیرضروری درآمدات پر پابندی لگا دینی چاہیے۔ آج بھی ہمارا پیسہ درآمد کردہ مکھن، چاکلیٹ، کار، موبائل فونز، کاسمیٹکس، ملبوسات، کتے اور بلیوں کے کھانے اور اسی طرح کی دوسری چیزوں پر خرچ ہو رہا ہے۔ یہ امر خوش آیند ہے کہ موجودہ حکومت نے کئی اشیا کی درآمد پر پابندی لگا دی ہے تاکہ ہم زرمبادلہ کو بچا سکیں۔ دوسرا اہم چیلنج قرضوں کی واپسی ہے۔
حکومت کو پوری کوشش کرنی چاہیے کہ وہ مزید قرضے نہ لے، توازن ادائیگی قائم کرے تاکہ اس کو مزید قرضے لینے کی ضرورت نہ پڑے۔ کیونکہ جب قرضے زیادہ لیں گے تو یقینا اس پر سود بھی دینا پڑے گا جس سے مزید مسائل بڑھیں گے۔ ملکی برآمدات کو بڑھانے کے لیے روپے کی قدر میں کمی کی گئی لیکن اس کمی کی وجہ سے ہمارا امپورٹ بل تو بڑھا لیکن ایکسپورٹ بل نہیں بڑھ سکا۔ لہٰذا ہمیں روپے کی قیمت میں مزید کمی نہیں کرنی چاہیے۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت وطنِ عزیز میں سیاسی عدم استحکام کے باعث ملکی معیشت کو شدید دباؤ کا سامنا ہے، جب کہ عوام کو ریلیف ملنے کی امیدیں بھی دم توڑتی ہوئی محسوس ہورہی ہیں، کیونکہ آئی ایم ایف سے قرض کی اگلی قسط انتہائی سخت شرائط کے ساتھ ہی جاری ہوگی۔ ملکی معیشت اس وقت جن مشکلات سے دوچار ہوچکی ہے اس سے عام فرد سے لے کر پالیسی ساز اور تمام اسٹیک ہولڈرز بخوبی واقف ہیں۔
کیا ایسے وقت میں جب معیشت تباہی کے دہانے پر ہو، ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبا جارہا ہو، صنعتی پہیہ رک چکا ہو یا عوام کے مسائل میں بے پناہ اضافہ ہوتا جارہا ہو، مہنگائی میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہو رہا ہو تو کیا ہمیں زیب دیتا ہے کہ ملک میں روزانہ کی بنیاد پر جلسے جلوس کرتے رہیں، سیاسی کشیدگی کو بڑھاتے رہیں۔ پاکستان کے سیاست دانوں کا سیاست اور حکومت کرنے کا انداز ہماری سیاسی تاریخ کا انوکھا باب ہے۔ کیا ہماری قومی ذمے داری نہیں بنتی کہ تمام اسٹیک ہولڈرز اور پالیسی ساز ادارے سر جوڑ کر بیٹھیں اور معیشت کو گرداب سے باہر نکالنے کی جامع حکمت عملی ترتیب دیں۔