گرینڈ ڈائیلاگ کیسے ممکن ہوسکے گا

اس کے لیے ایک طویل منصوبہ بندی پر مبنی نظام کی طرف پیش رفت کرنا ہوگی


سلمان عابد June 10, 2022
[email protected]

TANK: ایک عمومی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ پاکستان کا سیاسی مقدمہ کسی ایک فریق سے حل نہیں ہوگا۔ اگر بحران نے حل ہونا ہے تو یہ ایک اجتماعی عمل ہوگا جس میں تمام فریقین کو ایک مشترکہ ایجنڈا پر متفق بھی ہونا ہوگا اور اس پر کھڑا بھی ہونا ہوگا۔

قومی سیاست میں اسی نقطہ کو بنیاد بنا کر بہت سے سیاسی فریقین یا اہل دانش سمیت رائے عامہ کی تشکیل کرنے والے افراد یا ادارے قومی سطح پر بحران کے حل کے لیے ایک قومی گرینڈ ڈائیلاگ کی بات کرتے رہے ہیں۔ لیکن ماضی اور حال میں ہم نے سیاسی جماعتوں کی سطح پر دیگر فریقین کے ساتھ مل کر کوئی بڑا قومی ڈائیلاگ نہیں دیکھ سکیں۔ اگرچہ سیاسی محاذ پر '' میثاق جمہوریت '' کے معاہدہ کی دلیل دی جاتی ہے مگر اس میں دو مسائل تھے۔

اول یہ میثاق عملا دو بڑی جماعتوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن تک محدود تھا اور اس کو قومی میثاق بنانے یا اس میں دیگر جماعتوں کو شامل کرنے کی کوئی سنجیدہ طرز کی کوششیں ہمیں دیکھنے کو نہیں مل سکیں۔ دوئم 2006 میں ہونے والا یہ میثاق اور اس کا ایجنڈا قومی سیاست میں کوئی بڑی مثبت تبدیلی کو پیدا کرسکا جو ہماری قومی ضرورت بنتا تھا۔

اس وقت سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف نے حالیہ قومی بحران کو بنیاد بنا کر یہ اعتراف کیا ہے کہ قومی سطح پر کوئی بھی جماعت تن تنہا ان مسائل سے نہیں نمٹ سکے گی۔ ان کے بقول اگر واقعی قومی بحران کو حل کرنا ہے تو ہمیں تمام فریقین کی سطح پر ایک بڑے ''گرینڈ ڈائیلاگ'' کی ضرورت ہے۔ ماضی میں ایسی ہی ایک تجویز پیپلز پارٹی کے سینٹر رضا ربانی بھی دے چکے تھے۔ سیاسی تقسیم، محاذ آرائی، ٹکراؤ اور عدم برداشت کی پالیسی نے ہمارے قومی مسائل کی سنگینی کو اور زیادہ خطرناک کر دیا ہے۔

ایسی بداعتمادی کے ماحول میں محض سیاسی فریقین ہی نہیں بلکہ ریاستی اداروں یا ادارہ جاتی سطح پر بھی ہم ایک سیاسی تقسیم اور ٹکراؤ یا اختلافات کی جھکیاں دیکھ رہے ہیں۔ ایسے میں بنیادی نوعیت کا سوال یہ ہی بنتا ہے کہ قومی سیاست میں مفاہمت کی سیاست اور معیشت کی مضبوطی کو یقینی بنانے کے لیے '' گرینڈ ڈائیلاگ'' کون کرے گا، کیسے کرے گا اور کیوں تمام فریقین اس پر بیٹھنے کے لیے تیار ہوںگے اور کون اس میں بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوگا۔

ایک طرف عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف کھڑی ہے تو دوسری طرف ماضی کی تمام حزب اختلاف کی جماعتیں جو آج حکومت میں ہیں کھڑی نظر آتی ہیں۔ دونوں سیاسی قوتیں ایک دوسرے پر سیاسی برتری قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ فوری طور پر گرینڈ ڈائیلاگ کی دی جانے والی تجویز پر عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف نے مسترد کر دیا ہے۔

اب اگر قومی گرینڈ ڈائیلاگ ہونا ہے اور اس میں عمران خان اس کا حصہ نہیں بنتے تو مفاہمت کا یہ عمل کیسے آگے بڑھ سکے گا۔ عمران خان یا ان کی جماعت کو باہر نکال کر قومی گرینڈ ڈائیلاگ اول تو ہو نہیں سکے گا اور اگر ہوگا تو اس کی کوئی ساکھ نہیں ہوگی۔

ماضی میں قومی گرینڈ ڈائیلاگ میں سیاست دانوں یا سیاسی جماعتوں کے ساتھ اسٹیبلیشمنٹ، بیوروکریسی یا عدلیہ کو حصہ بنانے پر رائے عامہ تقسیم رہی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ایسا کرنے سے سیاسی قوتوں کا قد کاٹھ کمزور ہوگا۔ اس کے برعکس کچھ لوگ ''قومی ڈائیلاگ'' کی بحث کو ہی اسٹیبلیشمنٹ کے اپنے ایجنڈے سے جوڑ کر دیکھتے ہیں اور ان کے بقول یہ ایجنڈا ان ہی کا ہوتا ہے۔ جب ''قومی گرینڈ ڈائیلاگ '' کے بارے میں سیاسی تقسیم پہلے ہی گہری ہو تو اس پر ''اعتماد سازی '' کا فقدان مل بیٹھنے کے معاملات کو بھی پس پشت ڈال سکتا ہے ۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ موجودہ سیاسی حالات، سیاسی طریقہ کار، حکمرانی کا نظام، طاقت کے مراکز میں موجود تقسیم یا ٹکراؤ، ایک مخصوص طبقہ کی فیصلہ سازی میں اجارہ داری، حکومتوں کو کمزور کرنا، گرانا یا بنانے کا کھیل سب ہی طور طریقے ہمیں آگے کے بجائے پیچھے کی طرف دھکیل رہے ہیں۔محض قومی سیاست ہی نہیں بلکہ قومی معیشت کے بحران نے ہمیں زیادہ مشکل مقام پر کھڑا کر دیا ہے۔ سیاست اور جمہوریت میں بنیادی طور پر سیاسی دروازوں کو بند نہیں رکھا جاتا بلکہ بات چیت، مفاہمت اور قومی مفاد کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنے کی پالیسی ہی کامیابی کی کنجی ثابت ہوتی ہے۔ سیاسی جماعتوں اور قیادت کا کام ہی مخالف فریقین سمیت دیگر فریقین کو جوڑ کر بحران کا حل تلاش کرنا ہوتا ہے۔

پاکستان کو اگر واقعی آگے بڑھنا ہے تو اسے ایک نیا سیاسی، انتظامی، قانونی اور معاشی یا انصاف پر مبنی فریم ورک کی ضرورت ہے جو ملک میں حقیقی حکمرانی کے نظام میں افادیت سمیت شفافیت اور جوابدہی کا نظام قائم کرسکے۔ یقینا یہ کام ایک بڑے مکالمہ کی طرف توجہ دلاتا ہے اور یہ مکالمہ روایتی انداز میں نہیں بلکہ تمام فریقین کو شامل کرکے غیر معمولی اقدام کرنا ہوگا۔ ایسا کام جو ہمیں ایک بڑا سیاسی روڈ میپ دے سکے۔

قومی ڈائیلاگ کی ضرورت اس لیے بھی بنتی ہے کہ ہمیں اپنے آپ کو بھی اور ملک سمیت اس کے اداروں کو بھی ٹکراؤ کی سیاست یا پالیسی سے باہر نکلانا ہوگا لیکن ٹکراؤ اور بداعتمادی کو ختم کیے بغیر مکالمہ کے مطلوبہ نتائج نہیں مل سکیں گے۔ ایک اور مسئلہ سیاسی جماعتوں کا اپنا سیاسی نظام ہے جو عملا غیر جمہوری، شخصیت پرستی اور ذاتی مفاد پر مبنی سیاست سے جڑا ہوا ہے۔ اگر قومی ڈائیلاگ کی شکل یہ ہونی ہے کہ سیاسی فریقین سب کو تو درست کرنا چاہتے ہیں یا سب کو جوابدہ بنانا چاہتے ہیں مگر خود انفرادی سطح یا جماعتی یا حکومتی سطح جوابدہی یا اپنے اندر اصلاحات کے لیے تیار نہیں ہوںگے تو مسائل کا حل کسی بھی صورت میں ممکن نہیں ہوگا۔ سب کو اپنی اپنی سیاسی انا پرستی یا ایک دوسرے پر سیاسی غلبہ جنگ یا ریاستی و قومی مفاد کے مقابلے میں ذاتیات پر مبنی اقتدار کی جنگ سے خود کو بھی باہر نکالنا ہوگا اور دوسروں کو بھی نکال کر آگے بڑھنے کے لیے مکالمہ کو ہی بنیاد بنانا ہوگا ۔

لیکن یہ کام محض ایک قومی سطح پر مبنی ڈائیلاگ یا اس میں طے ہونے والے فریم ورک سے ممکن نہیں بلکہ اس کے لیے ایک طویل منصوبہ بندی پر مبنی نظام کی طرف پیش رفت کرنا ہوگی جو لانگ ٹرم، مڈٹرم اور شارٹ ٹرم منصوبہ بندی کے خاکہ کو پیش کرسکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں