طِفل تسلیاں
موجودہ حکومت نے بھی آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے آگے گھٹنے ٹیک دیے
MADRID:
کسی بھی اچھی حکومت اور عوام کے مسائل کا ادراک رکھنے والے حکمرانوں کی پہچان یہ ہے کہ وہ لوگوں کی مشکلات کم کرنے اور انھیں آسودہ و خوش حال زندگی فراہم کرنے کے لیے ایسے ٹھوس، جامع اور عملی اقدامات اٹھاتے ہیں کہ جن کے نفاذ سے لوگوں کو سہولتیں اور آسانیاں میسر آتی ہیں۔
غریب طبقہ اور عام آدمی اپنی نجی زندگی میں سکون و اطمینان محسوس کرتا ہے۔ بچوں کی تعلیم و علاج معالجے سے لے کر ان کی خوراک و رہائش تک کے تمام مسائل حکومت اپنے ذمے لے لیتی ہے۔ جب لوگ اپنی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے کسی کے محتاج نہیں رہتے بلکہ حاکم وقت ان کے دستگیر بن جاتے ہیں تو پھر نہ صرف ایک فرد یا گھرانہ بلکہ پورا معاشرہ پرسکون ہو جاتا ہے، برائیاں اور جرائم کے راستے مسدود ہو جاتے ہیں۔ امن و امان قائم ہو جاتا ہے، یوں ملک ترقی و کامیابی کی سمت رواں دواں ہو جاتا ہے۔
اس کے برعکس جب حکمران عوام کے مسائل و مشکلات سے غافل ہو جاتے ہیں، لوگوں کے دکھوں اور تکالیف سے آنکھیں بند کرلیتے ہیں، ان کی ساری توجہ ، دھیان اور کوشش محض اپنے ذاتی ، خاندانی اور سیاسی مفادات کے تحفظ اور اپنی دولت ، بینک بیلنس اور جائیدادوں میں اضافے کی طرف مائل ہو جاتی ہے تو پھر لوگوں کے درمیان ان کے خلاف نفرت، غصہ، بے چینی، انتشار اور افراتفری پھیل جاتی ہے۔ عوام الناس ایسے حکمرانوں کے خلاف احتجاج کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور جب عوام سڑکوں پر سراپا احتجاج ہوتے ہیں تو حکومت مخالف حلقوں کو سنہری موقع ہاتھ آجاتا ہے۔
وہ اپنے جذباتی نعروں اور شعلہ بیانی سے چنگاریوں کو ہوا دے کر آگ بھڑکانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یوں حکومت کے خلاف احتجاج کا سلسلہ دراز ہوکر باقاعدہ ایک تحریک کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ ملک میں امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ انتشار اور افراتفری پھیل جاتی ہے۔ معاشی و سیاسی عدم استحکام سے ملک کی بنیادیں ہلنے لگتی ہیں، وطن عزیز میں گزشتہ چند سالوں سے ایسی ناگفتہ بہ صورت حال کا عوام کو بار بار سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
عمران حکومت کے دور میں عوام کو بڑی امیدیں اور توقعات تھیں کہ خان صاحب پہلی مرتبہ اقتدار میں آئے ہیں، انھوں نے عوام سے ان کے مسائل کے حل، غربت کے خاتمے، نوکریوں کی فراہمی، مہنگائی کا قلع قمع کرنے، بدعنوانی کے جڑ سے خاتمے، کڑے احتساب، ملک کو قرضوں سے نجات دلانے، آئی ایم ایف کی غلامی سے آزادی سمیت کئی بلند و بانگ دعوے کیے تھے لیکن خان صاحب کے تقریباً چار سالہ دور اقتدار میں عوام اس '' تبدیلی'' کے منتظر ہی رہے کہ جس کے ہمالیائی دعوے خان صاحب بڑے طمطراق سے کیا کرتے تھے۔
ان کے دور میں معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ، پاکستانی روپیہ گرتا رہا ، جب کہ ڈالر کی اڑان اونچی ہوتی گئی۔ ملک پر اندرونی و بیرونی قرضوں کا بار ماضی کے تمام ریکارڈ سے بلند تر رہا۔ غربت ، مہنگائی بے روزگاری نے عوام کی زندگی میں نارسائیوں کا زہر گھول دیا ، عام آدمی کے روزمرہ استعمال کی اشیا آٹا ، چاول ، چینی ، گھی ، تیل ، سبزیاں ، گوشت ، انڈے ، دودھ وغیرہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ بجلی ، گیس، پٹرولیم کی مصنوعات کے نرخوں میں بار بار اضافہ ہوتا رہا ، عام آدمی کے لیے گھر کا کرایہ دینا ، بجلی گیس کے بل ادا کرنا ، بچوں کو تعلیم فراہم کرنا ان کے علاج و معالجے کا انتظام کرنا اور دو وقت کی روٹی فراہم کرنا جوئے شیر لانے کے برابر ہوگیا۔
پھر وہی ہوا کہ عمران حکومت کے خلاف عوام میں بے چینی، اضطراب، غصہ اور نفرت کے جذبات پروان چڑھنے لگے جس کا فائدہ اپوزیشن نے اٹھایا۔ لوگوں کو یہ باور کرایا کہ عمران خان عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہوگئے۔ ان کے دور میں بجلی، گیس اور تیل کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ ناقابل قبول ہے۔ عمران حکومت عوام کی دشمن ہے۔ یہ لوگوں سے جینے کا حق چھین رہی ہے وغیرہ وغیرہ لہٰذا اس حکومت کا خاتمہ کرنا ازبس ضروری ہے۔ ہم اقتدار میں آ کر عوام کو ریلیف دیں گے ان کے مسائل حل کریں گے۔
ساڑھے تین سال ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے بعد بالآخر اپوزیشن کی فریاد سن لی گئی۔ عمران خان تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے محروم ہو کے بنی گالا سدھار گئے اور شہباز شریف نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھال لیا۔ موصوف نے اپنی پہلی تقریر میں عوام کو ریلیف فراہم کرنے ، معیشت کی بحالی اور ملک کو مستحکم کرنے کے حوالے سے حسب عادت بلند و بانگ دعوے کیے، عوام کو امید ہو چلی کہ یہ تجربہ کار اور جہاں دیدہ لوگ ہیں، عمران خان کے مقابلے میں ان کے پاس کہنہ مشق ٹیم موجود ہے جو ملک کو معاشی گرداب سے نکال کر عام آدمی کی توقع کے مطابق انھیں ریلیف فراہم کرے گی۔
بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہوں گی، مہنگائی کا گراف نیچے آئے گا ، غربت و بے روزگاری کا خاتمہ ہوگا، عام آدمی کی قوت خرید میں اضافہ ہوگا اور لوگوں کے دیرینہ مسائل کے حل کی راہ ہموار ہوگی، لیکن افسوس کہ عوام کی امیدیں خاک میں مل گئیں۔ موجودہ حکومت نے بھی آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے آگے گھٹنے ٹیک دیے اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں دوسری مرتبہ اضافہ کردیا۔ آج ڈیزل کی نئی قیمت 204 ، پٹرول 210 اور مٹی کا تیل 181 روپے تک پہنچ گئے ہیں جو ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں۔ ڈالر 200 روپے سے زائد یہ بھی قومی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔
یکم جولائی سے بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 7.91 روپے اضافہ ہوگا، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مکمل سبسڈی ختم ہونے تک ابھی مزید اضافہ ہوگا ، گیس اور بجلی کی قیمتیں بھی وقفے وقفے سے بڑھیں گی جس کے شبے میں مہنگائی کا خوفناک طوفان آئے گا اور عام آدمی کو بہا کر لے جائے گا۔ شہباز حکومت میں روزمرہ استعمال کی اشیا، آٹا، گھی،تیل، مرغی کا گوشت، سبزیاں وغیرہ کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو رہی ہیں، عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے حکومت کے تمام تر دعوے نقش برآب ثابت ہوئے ہیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے قوم سے خطاب کے دوران کہا کہ میں نے دل پر پتھر رکھ کر پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے۔ قبل ازیں وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اپنے کپڑے بیچ کر آٹا سستا کروں گا ، اگر حکمران واقعی غریبوں کے ہمدرد ہیں تو انھیں چاہیے کہ وہ مراعات یافتہ طبقے جن میں حکمران، افسران، ججز صاحبان، بیورو کریٹس، اراکین اسمبلی اور صاحب ثروت لوگ شامل ہیں، ان کی مراعات اور سہولیات میں کمی کریں، غیر پیداواری حکومتی اخراجات ختم کریں، عوام کو جھوٹے دعوؤں اور طفل تسلیوں سے زیادہ دیر تک بہلایا نہیں جاسکتا۔ حکومت کو عوام کے غصے کا سامنا بہر صورت کرنا پڑے گا۔