عذاب زندگی

اہل سیاست کبھی بھی ملک کی خوشحالی کے لیے مراعات ختم کرنے کو تیار نہیں


م ش خ June 10, 2022
[email protected]

مقام افسوس ہے کہ قوم کے لیے اہل سیاست نے کبھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا، مفلوک الحال اور بے سر و ساماں قوم روز نئے تماشے دیکھتی ہے، ایک دوسرے کے اقتدار کو تبدیل کرنے میں صرف مصروف ہیں۔ اقتدار کی دوڑ میں جب جیت جاتے ہیں تو ماضی کی حکومت کا سوم اور چہلم بڑی شان سے مناتے ہیں، کبھی اس بات پر زور نہیں دیا کہ خزانہ خالی ہے اقتدار سے قبل مہنگائی نے قوم کو ملیا میٹ کر دیا ہے۔

ہمیں اقتدار سے کیا لینا دینا بس بلند و بانگ دعوؤں کے پہاڑوں پر کھڑے ہو کر ماضی کا رونا رویا جاتا ہے، کئی کئی بار اقتدار پر رہنے والے حضرات کو معلوم نہیں کہ ملک کہاں کھڑا ہے؟ پہلے حکومت کو گرانے کے لیے اتحاد کیے جاتے ہیں پھر جو اقتدار میں ہیرو ہوتا ہے اس کی خامیوں پر تفصیلی روشنی ڈالنا اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ آنے والے الیکشن میں قوم کو کیا حساب کتاب دیں گے۔

ارے جناب! آپ تو اتحادی ہیں، ہمت و استقلال سے کھڑے رہیں، صورت حال چہ معنی دارد کی شکل اختیار کر گئی ہے، انگریزوں کو ہم سے جدا ہوئے پون صدی ہوگئی ہے مگر ہم ان کے اصولوں کو نہ اپنا سکے، اخبارات میں یہ گیت بغیر موسیقی کے بہت شور سے بجتا رہا کہ وزرا اور افسران کا پٹرول کوٹہ کم کیا جائے گا۔

پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سینیٹ میں اپوزیشن نے پٹرولیم مصنوعات پر احتجاج کیا، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ برسر اقتدار جماعت کے حضرات نے ان سے اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کیوں نہیں کیا۔ صرف اس لیے کہ کرتا دھرتا ناراض نہ ہوجائیں۔ مہنگائی کی شرح 20.40 فیصد تک ہوگئی، یعنی گھی، انڈے، آلو، بریڈ، سرسوں کا تیل، خوردنی تیل، دالیں، چینی، پٹرول اور ڈیزل سمیت 28 ایشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، ایک سابق وزیر اعظم ایک نجی چینل پر کہہ رہے تھے کہ وزیر کو جو سرکاری پٹرول ملتا ہے وہ دس دن بھی نہیں چلتا، ہمیں دفتر بھی جانا ہے جو آدمی محکمے کا کام کرتا ہے اسے تو پٹرول ملنا چاہیے، انھیں وزرا کی تنخواہ کم ملنے پر بھی اظہار تشویش ہے، انھوں نے کہا کہ ہمارے وزرا ویل آف نہیں ہیں، جو آدمی محکمے میں کام کرتا ہے اسے معقول رقم دینی چاہیے۔

اب کیسے یقین دلایا جائے کہ وفاقی وزیر کے ہمراہ جو ایک طویل پروٹوکول ہوتا ہے تو کیا جو گاڑیاں پیچھے چلتی ہیں وہ الٰہ دین کے چراغ سے چل رہی ہوتی ہیں؟ اہل سیاست کبھی بھی ملک کی خوشحالی کے لیے مراعات ختم کرنے کو تیار نہیں، کوئی یہ پوچھے کہ وزرا دفتر تو جاتے ہیں مگر 5 سال میں کبھی شاذ و نادر اپنے حلقے میں جاتے ہیں انھیں پتا ہی نہیں کہ جس حلقے سے جیتا ہوں وہاں کے مسائل کیا ہیں؟

قارئین گرامی! قیمتیں عالمی منڈی کے مطابق غریب کی تنخواہیں سبزی منڈی کے مطابق اور سہولتیں مویشی منڈی کے مطابق پی ڈی ایم نے تو کمال کر دکھایا۔ پٹرول، ڈیزل، مہنگائی ہوگئی، اپوزیشن ہو یا برسر اقتدار جب مراعات کی بات ہوتی ہے تو سب ایک جھنڈے تلے ہوتے ہیں۔ ماضی میں عمران خان کی حکومت میں اپوزیشن قوم کی بہت ہی خیر خواہ تھی، جب کہ عمران خان سے وہ بہت ناراض تھے، قومی اسمبلی میں جب اراکین کی تنخواہ بڑھانے کی بات ہوئی تو قوم حیران رہ گئی کہ دشمنیاں ختم، سب ایک پلیٹ فارم پر کھڑے نظر آئے اور مراعات کے حوالے سے عمران خان کی کابینہ اور اپوزیشن نے مل کر ہاتھ اٹھایا اور پھر سب مراعات سے عمل پیرا ہوئے۔

پی ڈی ایم کے سربراہ نے کہا ہے ارکان پارلیمنٹ کی مراعات ختم کی جائیں، اس میں انھوں نے معزز اداروں کو بھی شامل کیا ہے کاش آپ قومی اسمبلی کے ممبر ہوتے تو یقینا آغاز اپنے آپ سے کرتے، مگر یہ ہو نہیں سکا، اصولی طور پر تو سب سے پہلے قربانی مہنگائی کے حوالے سے قومی و صوبائی اسمبلی کو دینی چاہیے، جس کی تنخواہ 30 ہزار ہے اور بوسیدہ موٹرسائیکل پر سفر کرتا ہے کبھی اس سے پوچھا کہ یہ زندگی کس عذاب میں ہے، روز وفاقی وزرا اور دیگر حضرات غیر ملکی دورے کر رہے ہیں، ان دوروں کا کیا فائدہ ہے؟ ان پر بھی مکمل روشنی ڈالی جائے۔

کیا کسی ملک سے گوشت کے حوالے سے تجارتی مقاصد پورے کیے؟ گائے کا گوشت 900 روپے، بکرے کا گوشت 1600 روپے فروخت ہو رہا ہے، غیر مسلم ممالک کے ساتھ اس حوالے سے تجارتی بات چیت کا آغاز ہوا ہے اسے جلد ازجلد ممکن بنائیں، بڑے بڑے آڑھتی نے اس میدان کو یرغمال بنا رکھا ہے، پرائس کنٹرول کے حوالے سے مکمل ٹھنڈ ہے۔ ان کی کارکردگی قوم کو نظر نہیں آتی، کہاں ہیں کرتا دھرتا، پورے ملک میں ان کی وجہ سے بحرانی کیفیت ہے۔ مہنگائی نے قوم کو مفلوک الحال کردیا ہے ماضی میں ان پارٹیوں نے پی ٹی آئی کے خلاف مہنگائی کے خلاف ثابت قدم ہو کر قوم کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا تھا۔

اب مہنگائی پی ٹی آئی کے دور سے زیادہ ہوگئی ہے، جس کا ان دونوں پارٹیوں کو بھی احساس نہیں ہے مگر جب الیکشن کے وقت ووٹ کا دروازہ کھلے گا تو دیکھیں گے کہ لوگ کس دروازے سے گزریں گے، پٹرول کی وجہ سے لوگ بے زار نظر آتے ہیں، یہ ہم نہیں کہہ رہے، حق و سچ انٹرنیٹ پر آپ بھی دیکھ رہے ہیں۔ جناب وزیر اعظم کہتے ہیں لوڈ شیڈنگ صرف دو گھنٹے ہوگی، کے الیکٹرک والوں نے ہماری طرح آپ کا بیان خوش دلی سے سن لیا مگر لوڈ شیڈنگ روز 6 سے 7 گھنٹے ہو رہی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب 7 گھنٹے بجلی گھر میں نہیں آ رہی تو یقینا میٹر بند ہوتا ہے جن غریبوں کے گھر اے سی نہیں ہے، پھر بل اتنے زیادہ کیوں آ رہے ہیں؟ محترم حکمران صاحب! بیانات کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے وزرا اپنی وزارتوں پر بھرپور توجہ دیں اسے چیک کیا جائے کہ بل پھر بھرپور کیوں آ رہے ہیں؟ چاروں صوبوں میں سبسڈی ختم کردی گئی ہے، ٹھیک ہے مان لیا اس بات کو، مگر بلوں پر توجہ دی جائے، جب 24 گھنٹے میں 10 گھنٹے لائٹ نہیں ہے تو پھر بل کیوں بڑھ رہے ہیں؟ غریب تو مر گیا، جنھیں احساس کرنا چاہیے انھیں تو بجلی فری مل رہی ہے، لہٰذا ہر اس چیز پر توجہ دے حکومت جو قوم کے لیے درد سری بنی ہوئی ہے، لوگ کہتے ہیں جب تک ہمارے اہل سیاست بیانات کے میدان سے باہر نہیں آتے قوم ان کی شکر گزار نہیں ہوگی، قوم اب مسائل کا حل چاہتی ہے۔

قومی اسمبلی میں اپوزیشن نہ ہونے کے برابر ہے اور جو ہیں ان میں چند لوگ ڈیسک بجا رہے ہیں، سیاسی بیانات پر راقم پھر باور کرا رہا ہے کہ ان سیاسی بیانات کا خاتمہ کریں کہ اس ملک کو اب مسائل کے دھبوں سے صاف کرنا ہوگا، تاکہ اعلیٰ وسائل کی سفیدی ہو سکے وفاقی وزیر فرما رہے تھے عمران خان اور سابق وزیر خزانہ معاہدے پر چلتے تو اس وقت پٹرول 300روپے لیٹر ہوتا، انھوں نے معاہدے کی خلاف ورزی کی قوم کی بہتری کے لیے سوچا اور آپ کا یہ بیان قوم کے ووٹر ان کی سوچ میں بہت زیادہ اضافہ کرسکتا ہے کیونکہ عمران خان نے سبسڈی دے کر آج قوم کو سوچنے پر مجبورکردیا ہے آپ اخراجات میں کمی کو زیرو کرتے مگر قوم کو آپ بھی سبسڈی دیتے تو یقینا قوم آپ کی مشکور ہوتی، اب تو چہرے بھی بدل گئے لہٰذا نظام کو بھی بدلا جائے۔

جناب وزیر اعظم ! کئی بار پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں ، انھیں معلوم ہے کہ مسائل کیسے حل ہوں گے۔ وہ وزرا اور مشیروں کو بتائیں کہ اب کام کرنا ہے، بیانات کا سلسلہ ختم کریں، کیونکہ اہل سیاست کے لیے آنے والا الیکشن بغیر لائحہ عمل کے لمحہ فکریہ ہوگا۔ اس کا ابھی سیاست دانوں کو احساس نہیں ہے، اب اہل سیاست کو شوخ و چنچل بیانات سے پرہیزکرنا چاہیے، مملکت خداداد پر خاص توجہ دی جائے کہ الیکشن میں ووٹر سوچ میں پڑ جائے گا کہ میں اپنا ووٹ کسے دوں؟ یہ اسی صورت میں ہے کہ حکومت مسائل کے پہاڑوں کو اپنی محنت، توجہ اور انکساری سے توڑ دے اور اگر وہ یہ کرنے میں کامیاب نہ ہوئی تو پھر الیکشن میں یہ اعزاز و اکرام کس کو ملتا ہے یہ وقت بتائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں