تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہیے
قیصر نظامانی نے کراچی ٹی وی پر سندھی ڈراموں سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا
TORONTO:
دیس کو چھوڑ کر پردیس جانے والے وہاں بس تو گئے ہیں مگر آنکھوں میں ان کے اب بھی اپنے دیس ہی کے خواب بسے رہتے ہیں۔ ان کی اولادوں کا مستقبل تو سنور گیا ہے کہ وہاں پر ترقی میرٹ پر ملتی ہے نہ وہاں مذہب آڑے آتا ہے نہ وہاں زبان رکاوٹ بنتی ہے۔
زندگی کی ساری سہولتیں وہاں ہر شہری کو میسر ہیں نئی نسل بآسانی وہاں ایڈجسٹ ہوگئی ہے مگر پرانی نسل کو اپنا وطن اپنا ماحول وہاں ہر پل یاد آتا ہے، وہ اپنے آنے کے بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں، اپنے رشتے داروں کی خوشیوں میں شامل ہو کر انھیں نہ صرف بے انتہا خوشی ملتی ہے بلکہ ایک توانائی بھی حاصل ہوتی ہے جب بیرون ملک سے آنے والوں کا جہاز اپنے وطن کی سرزمین کو چھوتا ہے تو بے پایاں خوشی میسر ہوتی ہے اور مجھے تو کراچی کی روشنیاں دیکھ کر بڑی طمانیت ملتی ہے، کراچی میرا شہر رہا ہے۔
جہاں میرا بچپن گزرا اور جوانی نے انگڑائی لی، جہاں کی مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو آج بھی سانسوں میں رچی بسی ہے۔ میرے یہاں آتے ہی دیرینہ دوستوں کی محفلیں سجنے لگتی ہیں ایک بے کراں سکون اور لذت بھری راحت ملتی ہے۔
وطن کے خواب ہیں آنکھوں میں ہر پل
محبت اس قدر ہم کو وطن سے
وطن کے پیار کا ایسا نشہ ہے
کہ کانٹے بھی لگیں اچھے چمن کے
چند روز پہلے میں جب قطر ایئرلائنز کے ذریعے کراچی پہنچا تو سوشل میڈیا میں میرے آنے کی خبر نے سارے دوستوں کو باخبر کر دیا تھا، کراچی کے دیرینہ دوست نعیم قریشی کی طرف سے ایک پیغام ملا کہ دوسرے دن امریکا ہی سے کراچی آئی ہوئی مشہور نیوز کاسٹر اور ممتاز نعت خواں راحیلہ فردوس کے اعزاز میں ایک تقریب کا اہتمام آرٹس کونسل کراچی میں کیا گیا ہے وہاں آپ نے ضرور آنا ہے۔
میں یہ بتاتا چلوں کہ ندیم قریشی شجر کاری اور ماحولیات کے سلسلے میں کراچی میں ایک طویل عرصے سے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں کراچی میں سماجی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ راحیلہ فردوس اور میں امریکا میں، ایک ہی ریاست نیوجرسی میں رہتے ہیں اور ہماری وہاں نیو یارک اور نیو جرسی کی ادبی تقریبات میں اکثر و بیشتر ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں۔
یہ وہاں نیویارک میں بھی ایک پاکستانی ٹی وی چینل کے لیے ایک خوبصورت پروگرام '' بات سے بات راحیلہ کے ساتھ'' بھی کرتی ہیں۔ جب کہ میں بھی ساز و آواز ریڈیو اور EAWAZ ٹی وی چینل پر ایک فلمی پروگرام ''بھولی بسری یادوں'' کا کو ہوسٹ ہوں اور لیاقت ملک اس پروگرام کے پروڈیوسر ہیں۔ یہ پروگرام کینیڈا، امریکا، یورپ اور پاکستان میں بھی دیکھا جاتا ہے، ندیم قریشی کی تقریب میں بہت سے دیرینہ دوستوں سے ملاقات رہی ان میں مشہور ٹی وی پروڈیوسر اقبال لطیف، انیق احمد اور دیگر کئی مقامی صحافی دوست شامل تھے۔
ابھی اس تقریب سے فارغ ہو کر گھر آیا تھا کہ کراچی کی ایک اور مشہور سماجی شخصیت اور ہمارے دیرینہ دوست حسن امام صدیقی کا فون آگیا۔ بولے ویلکم ٹو پاکستان، اینڈ اپنا کراچی، کچھ دیر ایک دوسرے کی خیریت معلوم کرتے رہے، وہ بھی چھ ماہ کا عرب امارات کا دورہ کرکے واپس کراچی لوٹے تھے۔
حسن امام صدیقی فرینڈز آف ہیومینٹی امریکا کراچی چیپٹر (پاکستان) کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر ہیں۔ فون پر ہی انھوں نے بتایا کہ جیسے ہی تمہارے کراچی آنے کی خبر ملی ہم نے آیندہ ہفتے کو کراچی پریس کلب میں تمہارے اور امریکا ہی سے آئی ہوئی راحیلہ فردوس دونوں کے اعزاز میں ایک استقبالیہ رکھ لیا ہے بس تم دونوں کو اب آنا ہے اور ہر صورت میں دوستوں کے ساتھ محفل سجانی ہے۔
کراچی کلب میں ایک ظہرانے کا اہتمام کیا گیا تھا، میں سوا بارہ بجے دوپہر کو کراچی پریس کلب پہنچ گیا، وہاں اے پی پی کے دوست سے بڑی دلچسپ باتیں رہیں اور فلمی دنیا کے بارے میں اور اس کے زوال کے بارے میں بھی تفصیل سے گفتگو رہی، پھر آہستہ آہستہ صحافی دوستوں اور ادبی دوستوں کی آمد شروع ہوگئی کچھ دیر میں پریس کلب کا کمیٹی ہال بھر جاتا ہے اسی دوران راحیلہ فردوس بھی آجاتی ہیں اور پاکستان ٹیلی وژن کے مشہور فنکار قیصر نظامانی بھی آجاتے ہیں۔
قیصر نظامانی نے کراچی ٹی وی پر سندھی ڈراموں سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا پھر اردو ڈراموں میں بھی اپنی کردار نگاری کے خوب جوہر دکھائے۔ اسی دوران ٹی وی کی ایک باصلاحیت آرٹسٹ فضیلہ قاضی کے ساتھ کئی کامیاب ڈرامے اور پھر ایک رومانی ڈرامے نے حقیقت کا روپ دھار لیا اور فضیلہ قاضی اب فضیلہ قیصر نظامانی بن گئی تھیں۔ حسن امام صدیقی نے افتتاحی کلمات ادا کرنے کے بعد ٹی وی آرٹسٹ قیصر نظامانی کو اظہار خیال کی دعوت دی۔
قیصر نظامانی نے دونوں مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے ادیب، شاعر اور فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے افراد اور دیگر شخصیات جس طرح دیار غیر میں ہماری ثقافت، شعر و ادب اور زبان کو پروان چڑھا رہے ہیں وہ قابل تحسین ہے انھوں نے خاص طور پر صحافی دوستوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ انھیں متفقہ طور پر یہ بات آگے پہنچانی چاہیے کہ سندھ کلچر ڈے صرف تھر کے علاقے، اجرک یا سندھی ٹوپی تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ کراچی بھی سندھ کا حصہ ہے۔
سندھ کلچر ڈے مناتے وقت کراچی کو بھی شامل کرنا چاہیے، کرتہ اور پاجامہ بھی سندھی ثقافت کا حصہ ہے پھر انھوں نے کہا ایک طویل عرصے کے بعد مشہور فلمی نغمہ نگار سے ملاقات ہو رہی ہے ان کے لکھے ہوئے دلکش گیت آج بھی ہماری سماعتوں میں گونجتے رہتے ہیں۔
ماہنامہ دنیائے ادب کے ایڈیٹر پروفیسر ڈاکٹر اوج کمال نے اپنے زریں خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یونس ہمدم نے فلم انڈسٹری کے اس دور میں اپنی ایک جگہ بنائی جب نامور فلمی شاعر قتیل شفائی، منیر نیازی، خواجہ پرویز، حمایت علی شاعر، سرور انور اور تسلیم فاضلی فلمی دنیا پر چھائے ہوئے تھے، اس زمانے میں کسی نوجوان شاعر کا فلمی دنیا میں اپنی جگہ بنانا بڑا مشکل امر تھا مگر یونس ہمدم نے بہت جلد اپنی پہچان پیدا کی اور یہ بھی لاہور فلم کی ضرورت بن گئے تھے اور انھوں نے بھی یادگار فلمی نغمات تحریر کیے اور یہ بھی لاہور انڈسٹری پر چھا گئے تھے۔
ان کے بعد کراچی پریس کلب کے سابق صدر طاہر حسن خان نے کہا کہ کراچی پریس کلب نے ہمیشہ ہی سے آرٹ و تہذیب کو پروان چڑھانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے اور جو شخصیات بھی اس حوالے سے کام کر رہی ہیں ہم انھیں تہہ دل سے خوش آمدید کہتے ہیں۔ یونس ہمدم اور راحیلہ فردوس ایسی نمایاں شخصیات ہیں۔ فلم ٹی وی جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے اطہر جاوید صوفی نے کہا کہ یونس ہمدم مقبول نغمہ نگار اور فلم رائٹر ہیں اور راحیلہ فردوس بھی امریکا میں پاکستانی تہذیب و تمدن اور ثقافت کے فروغ میں پیش پیش ہیں۔ راحیلہ فردوس نے بھی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہم رہتے تو امریکا میں ہیں مگر ہماری دھڑکنیں پاکستان کے ساتھ دھڑکتی ہیں۔
پھر حسن امام صدیقی نے یونس ہمدم کو دعوت کلام دیتے ہوئے کہا یہ جب بھی کراچی آتے ہیں، دوستوں کی بیٹھکیں شروع ہو جاتی ہیں۔ پھر میں نے اپنے احساسات اور خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہ پاکستان میں ہر نعمت موجود ہے ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ کراچی کو اس کا حق دیا جائے اور انسانی بنیادی حقوق کے ساتھ پاکستان میں ہر شعبے میں میرٹ اور انصاف کی فوری فراہمی کی ضرورت ہے کراچی کا حسن اسی طرح دوبارہ لوٹایا جاسکتا ہے۔ یہ ایک میٹرو پولیٹن سٹی ہے اس کی ترقی سارے پاکستان کی ترقی کی ضمانت ہے۔
مزید خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا امریکا کی مختلف ریاستوں میں ہم نے اردو کی نئی نئی بستیاں بسائی ہیں اور اب وہاں اردو ترقی کر رہی ہے اور خوب پروان بھی چڑھ رہی ہے۔ اس موقع پرکلام شاعر بہ زبان شاعر کی بھی فرمائش کی گئی۔ اس دوران راقم نے ایک قطعہ اور دو غزلیں بھی سنائیں ایک قطعہ قارئین کی نذر ہے:
وہ بھی نبھا رہے ہیں ہم بھی نبھا رہے ہیں
کاغذ کی ایک کشتی سب ہی چلا رہے ہیں
احساس بے حسی کا عالم یہ ہو گیا ہے
پھولوں کے جیسے رشتے پتھر بنا رہے ہیں