دکھ کہاں سے آتے ہیں
یاد رکھو جب جانے کا وقت آن پہنچتا ہے تو کشتی کبھی خالی واپس نہیں جاتی ہے
SIALKOT:
1775، بہار کے دنوں میں دوستوں کو جب معلوم ہوا کہ عظیم فلسفی ڈیوڈ ہیوم ان سے جدا ہونے والا ہے تو وہ اس کو آخری احترامات پیش کرنے کی خاطر جمع ہوئے۔ ان میں سے اکثر دل ہی دل میں یہ جاننے کے لیے بے تاب تھے کہ ہیوم اپنے آخری سفر کی تیاری کس انداز میں کرتا ہے ''مجھے فکر یہ ہے کہ '' اس نے دوستوں کو بتایا ''میں قیرون ملاح سے کیوں کر ملوں گا جو مردہ روحوں کو دوزخ کے دریا کے پار پہنچاتا ہے۔ میں اس جہاں میں تھوڑے سے زیادہ قیام کے لیے کیا بہانا کروں گا؟ میں اس سے التجا کروں گا کہ اے نیک دل قیرون ذرا صبر کرو تھوڑی دیر مجھے رہنے دو۔
برس ہا برس سے میں لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتا رہا ہوں، زندگی کے چند سال اور مجھے مل جائیں تو مجھے ان توہمات کے خاتمے دیکھنے کی تسلی ہوجائے گی، جن کے خلاف میں لڑتا رہا ہوں لیکن یقینی بات ہے کہ قیرون میری التجا سن کر برافروختہ ہو جائے گا اور غصے سے چلائے گا او خوابوں میں گم رہنے والے لا علاج شخص تمہاری خواہش کبھی پوری نہ ہوگی تم نے مجھے بے وقوف سمجھ رکھا ہے کہ اس بہانے میں تمہیں ایک زندگی دے دوں گا او کاہل، آوارہ گرد اور احمق رجائیت پسند فوراً میری کشتی میں بیٹھ۔''
یاد رکھو جب جانے کا وقت آن پہنچتا ہے تو کشتی کبھی خالی واپس نہیں جاتی ہے اور جب انسان کشتی میں بیٹھا آخر ی سفر طے کر رہا ہوتا ہے تو اسے اپنی گذاری ہوئی زندگی کی ساری باتیں، ساری غلطیاں، ساری زیادتیاں، سارے ظلم و ستم، ساری نا انصافیاں ایک ایک کر کے یاد آرہے ہوتے ہیں۔ ساری عیش و عشرت، ساری لذتیں، سارے گناہ ایک ایک کرکے اس کی آنکھوں کے سامنے سے گذر رہے ہوتے ہیں، جن کی خاطر وہ اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں کو ذلیل وخوار کرتا رہا انھیں اذیتیں اور تکلیفیں پہنچاتا رہا۔ انھیں بے چین، بے سکون اور تنگ کرتا رہا لیکن اس وقت بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے، وہ جھوٹی شان و شوکت، وہ ہیرے جواہرات کے ڈھیروں، زمینوں اور جاگیروں اور ملوں جنھیں وہ اپنے پیچھے چھوڑ آیا ہے۔ دیکھتا ہے کہ اس کے اپنے اور غیر گدھوں کی طرح ان چیزوں کو نوچ رہے ہیں۔
سقراط کہتا تھا اپنے آپ کو پہچانو، عظیم ادیب دستوئیفسکی ''کراما زوف برادران'' میں لکھتا ہے ''انسانی زندگی کا راز محض زندہ رہنے میں ہی نہیں بلکہ یہ جاننے میں ہے کہ زندہ کیوں رہا جائے۔ بے شک انسان کے اردگرد روٹیوں کا ڈھیر لگا ہو لیکن جب اس کے ذہن میں اس بات کا واضح تصور نہ ہو کہ اس کے لیے زندہ رہنا کیوں ضروری ہے وہ زندہ رہنے کے لیے راضی نہیں ہوگا اور وہ روئے زمین پر موجود رہنے کے بجائے اپنے آپ کو فنا کر دینا زیادہ پسند کرے گا '' یونانی فلسفی تھیلس کو سقراط سے پہلے '' سات دانا آدمیوں '' میں ایک خیال کیاجاتا ہے۔ اس نے کہا تھا کہ '' دنیا کا سب سے مشکل کام خود کو جاننا ہے۔''
دوسری طرف سدھارتھ ابدی سچائی کی تلاش میں تھا کہ جو تمام دکھوں اور دنیاوی بندھنوں سے نجات دلا دے اسی تلاش کے دوران وہ '' گیا '' کے قریب پہنچا اور تقریباً چھ برس تک وہاں ریاضتوں اورکٹھن مشقوں میں مشغول رہا ان ریاضتوں کے باعث وہ نہایت دبلا اور کمزور ہوگیا ، آخر اس نے کٹھن ریاضتوں کو بھی ترک کردیا اور یہ تہیہ کرکے ایک شجر پیپل کے نیچے بیٹھ گیا کہ اس وقت تک یہاں سے نہیں اٹھے گا جب تک کہ نروان نہ پالے۔ اس کی یہ مراد پوری ہوئی اور وہ '' بدھ '' یعنی بصیرت یافتہ بن گیا۔
نروان پا لینے کے بعد گوتم بدھ نے سوچا کہ اس بصیرت کو دوسرے انسانوں تک بھی پہنچانا چاہیے ، چنانچہ اس نے پیروکار بنائے جو بڑھتے بڑھتے سنگھ یعنی جماعت کی شکل اختیار کر گئے۔ بدھ نے وہ راستہ دیکھ لیا تھا جو تمام دکھوں کی فنا ، نجات اور نروان تک لے جاتا تھا وہ سارناتھ کی طرف گیا اور ہرن باغ میں پہلا وعظ کیا '' اے بھکشوؤ ، دنیا میں دو انتہاؤں سے بچنا چاہیے ایک خواہشات کے پیچھے بھاگنا اور نفسانی لذت میں کھو جانا اور دوسری ، کٹھن ریاضتیں اورخود اذیتی ، بدھ نے اپنی فکری عمارت کا بنیاد انسانی دکھ کی حقیقت پر رکھی۔
آئیں! یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ دکھ ہوتے کیا ہیں؟ اور یہ آتے کہاں سے ہیں؟ دراصل تمام دکھ نا سمجھی کے ناجائز بچے ہوتے ہیں۔ سقراط کہا کرتا تھا کہ '' میں ایک بات جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا ۔'' جب آپ یہ جان لیتے ہیں کہ آپ کچھ نہیں جانتے تو پھر جاننے کی کوشش کرتے ہیں ، جس طرح انسان بھوت پریت سے ڈرتا ہے اسی طرح دکھ جاننے سے ڈرتے ہیں ، جب آپ جان لیتے ہیں تو دکھ آپ سے دور بھاگنا شروع کر دیتے ہیں۔ زندگی کے آغاز میں انسان کچھ نہیں جانتا تھا تو وہ ہر چیز سے ڈرتا تھا ہر چیز اسے ڈراتی تھی وہ بار بار خوفزدہ ہوجاتا تھا۔
اسی لیے آغازکی زندگی بہت دکھی تھی ، پھر جیسے جیسے اس نے سوچنا شروع کیا تو اس کے جاننے کی شروعات کا آغاز ہوا۔ جیسے جیسے اس نے جاننا شروع کیا تو اس کے خوف اس سے ڈرنے لگے اور جب آپ کے خوف جو اصل میں سب سے بڑے جھوٹے ہوتے ہیں۔ آپ سے ڈرنے لگیں تو یہیں سے دکھوں کے مرنے اور خوشیوں کے زندہ ہونے کا آغاز ہونے لگتا ہے کیونکہ خواہشات خوف سے جنم لیتی ہیں خوفزدہ انسان خواہشوں اور چیزوں کے پیچھے بھاگتا ہے کیونکہ وہ اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتا ہے جب کہ جاننے والا انسان اپنے آپ کو محفوظ سمجھتا ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ دکھ آپ کے بن بلائے و ہ مہمان ہوتے ہیں جنھیں آپ کبھی اپنا مہمان ہی بنانا نہیں چاہتے ہیں۔
انسانوں کی اکثریت کا سب سے وحشت ناک پہلو یہ ہے کہ وہ کبھی اپنے آپ کو جاننے کی کوشش نہیں کرتے ہیں۔ انھیں ساری عمر یہ معلوم ہی نہیں چل پاتا ہے کہ وہ اصل میں ہیں کیا اور وہ چاہتے کیا ہیں اور وہ پیدا کیوں کیے گئے ہیں وہ زندہ کیوں ہیں وہ ساری عمر اندھیروں سے اپنا سر پھوڑتے رہتے ہیں ان میں سے کچھ دولت کے پیچھے بھاگنا شروع کردیتے ہیں ،کچھ جاگیروں کے پیچھے پڑجاتے ہیں ،کچھ طاقت حاصل کرنے کو زندگی سمجھنے لگتے ہیں ،کچھ اختیارکے پیچھے اپنی زندگی پوری کردیتے ہیں ،کچھ اقتدار کو سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں۔
یہ سب لوگ وہ ہیں جو ناسمجھی کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں جنھیں خوف کی بیماریاں لگی ہوئی ہوتی ہیں۔ اصل میں یہ سب کے سب دکھی انسان ہوتے ہیں جنھیں پیار ، محبت کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ عظیم یونانی فلسفی پائر ہو کہا کرتا تھا ''دانا شخص خواہشات سے آزاد ہونے کے بعد دکھ سے آزاد ہو جاتا ہے وہ جان لیتا ہے کہ لوگ اپنی خواہش پوری کرنے کے لیے باہم لڑتے اور جدوجہد کے باوجود خواہ مخواہ کچھ چیزوں کو دوسری چیزوں سے بہتر تصور کرلیتے ہیں اس قسم کی جدوجہد اور کوشش بے مقصد اور لا حاصل ہے کیونکہ تمام چیزیں ایک جیسی بے تعلق اور غیر اہم ہیں۔''
بیسویں صدی کا عظیم ناول نگار کا نریڈ اپنی سوانح حیات "A Personal Record" میں لکھتا ہے۔ ''زندگی اور فن کے معاملے میں ہماری خوشیوں کے لیے ''کیوں'' سے زیادہ ''کیسے'' کی اہمیت ہے۔ فرانسیسی مقولہ کہ زندگی اور فن میں سلیقہ ہی سب کچھ ہے سو فیصد درست ہے۔ ہمارے ہنسنے، رونے میں ہی نہیں بلکہ جوش، غصہ اور محبت میں بھی سلیقہ ہونا چاہیے'' رومن فلسفی پوٹینسں کہتا ہے ''خود شناسی میں ہم خوبصورت اور اپنی ذات سے لاعلمی میں بدصورت ہوتے ہیں''۔
آئیں! ہم سب کام ملتوی کرکے پہلے اپنے آپ کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ہم اپنی زندگی کے ہر ہر لمحے سے لطف اندوز ہوسکیں ، خود بھی خوش رہ سکیں اور دوسروں کی زندگیوں میں بھی خوشیاں پیدا کرسکیں۔