اقتصادی سروے

مہنگائی کی شرح 11.1 فیصد ریکارڈ کی گئی


Editorial June 11, 2022
مہنگائی کی شرح 11.1 فیصد ریکارڈ کی گئی (فوٹو : فائل)

اقتصادی سروے برائے مالی سال 22۔2021 کے مطابق رواں سال جی ڈی پی شرح 5.97 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے، زراعت، صنعتوں اور خدمات کے شعبوں میں خاطر خواہ ترقی ہوئی ہے۔

رواں سال زرعی شعبے نے 3.5 فیصد کے ہدف کے مقابلے میں 4.4 فیصد ترقی کی، صنعتی شعبے نے 6.6 فیصد کے ہدف کے مقابلے میں 7.2 فیصد جب کہ خدمات کے شعبے میں شرح نمو 4.2 فیصد کے ہدف کے مقابلے میں 6.2 فیصد رہی۔

اقتصادی سروے کے مطابق رواں مالی سال کے بجٹ افراط زر کی شرح 8 فیصد رہنے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا لیکن مہنگائی کی شرح 11.1 فیصد ریکارڈ کی گئی۔

وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ مارچ سے اب تک 5.8 ارب ڈالرز کے ذخائر کم ہوچکے ہیں تاہم چین سے 2.4 ارب ڈالر جلد مل جائیں گے اور زرمبادلہ ذخائر 12 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائیں گے۔ ان حالات میں اتحادی حکومت نئے مالی سال کا بجٹ پیش کرنے جا رہی ہے جو حکومت کے لیے امتحان سے کم نہ ہو گا۔ حکومت کو عوام کو ریلیف دینے کے ساتھ معاشی نمو کو بھی مزید بڑھانے کے چیلنج کا سامنا ہے' جو اس صورت ممکن ہو سکتا ہے جب حکومت درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافے کے لیے اقدامات کرے۔

برآمدات میں اضافے کا ایکسپورٹ سیکٹر کو مراعات کے علاوہ صنعتوں کو بھی اور گیس کی بلا تعطل فراہمی سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ بہتر ہو گا حکومت نئے بجٹ میں مہنگائی کی شرح کے حساب سے تنخواہوں میں اضافے کے ساتھ بجلی اورگیس کی فراہمی کو بھی یقینی بنائے تاکہ صنعتی پہیہ رواں دواں اور پاکستان اقتصادی اہداف حاصل کرسکے۔

اس وقت دنیا کی کمزور معیشتوں کو ایک سنگین طوفان کا سامنا ہے، جس کی وجہ اجناس اور توانائی کی قیمتوں میں اضافہ، ایک مضبوط ڈالر، مرکزی بینک کی گرتی ہوئی لیکویڈیٹی اور تیزی سے پولرائزڈ اور کم ''عالمی اقتصادی'' نظام ہیں۔

دوسری جانب ہم بحیثیت قوم ایسی حالت میں ہیں جہاں غیر ضروری سیاسی بے یقینی نے شدید معاشی مشکلات اور پریشانیوں کو بڑھا دیا ہے۔ اگرچہ پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت نے پچھلی حکومتوں کی طرف سے جاری اقتصادی گراؤٹ کو ریورس کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی موجودہ معاشی خرابی بنیادی طور پر ان ساختی کمزوریوں کا مجموعہ ہے جو ہمیشہ ایک منفرد عالمی ماحول کے ساتھ موجود ہیں جو کہ زیادہ تر کمزور ابھرتی ہوئی معیشتوں میں تباہی کا باعث بن رہی ہیں۔

درحقیقت سیاسی بنیادوں پر اعداد و شمار کا جائزہ اور گرمجوش بیانات کا سلسلہ عوام کو حقائق سے بے بہرہ کرتا ہے اور ہر حکومت کے بارے میں یہی تصور پیدا ہوتا ہے کہ اس نے صرف فوائد اٹھانے اور سرکاری وسائل لوٹنے کے لیے اقتدار حاصل کیا ہے، ہر اپوزیشن نے اس تاثر کو مستحکم کرنے میں کردار ادا کیا ہے۔

تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم نے ملکی اقتصادی سروے رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے جو بیان دیا ہے، وہ انھیں تبصروں اور الزامات کا عکس ہے جو اپوزیشن میں رہتے ہوئے مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی یا دیگر سیاسی پارٹیوں کے لیڈر دیتے رہے تھے۔

اب عمران خان کہتے ہیں کہ''یہ میرے دور میں مہنگائی کی باتیں کرتے تھے، عوام کو اب پتہ چلے گا کہ مہنگائی کیا ہوتی ہے۔'' اس طنزیہ تبصرے کا سیاسی جواز تلاش کرنا تو ممکن ہے لیکن اس کے لیے معاشی یا عملی دلیل لانا ممکن نہیں۔ پاکستان کو ادائیگیوں کے توازن میں اضافے، زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی یا برآمدات کے مقابلے میں بڑھتی ہوئی درآمدات کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکلات کا سامنا ہے۔

کم آمدنی اور زیادہ اخراجات والے ملک پر کسی بھی پارٹی کی حکومت ہو، اسے ان ہی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا اور اس کا سیاسی بوجھ بھی برداشت کرنا پڑتا ہے، حالانکہ کسی بھی مہذب جمہوری ملک میں ساری سیاسی قیادت یکساں طور سے اس بوجھ کی ذمے داری قبول کرتی ہے۔

اپوزیشن لیڈر نہ تو حقائق سے انکار کرتے ہیں اور نہ ہی ان کی غیر ضروری وضاحت کے ذریعے خود کو فرشتہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ البتہ بعض اہم فیصلوں کے حوالے سے اختلاف رائے ضرور سامنے لایا جاتا ہے اور متبادل تجاویز دی جاتی ہیں کہ کسی خاص معاشی مسئلہ سے نمٹنے کے لیے کسی حکومت کے تیار کردہ لائحہ عمل کے بجائے کون سا طریقہ بہتر نتائج دے سکتا تھا۔

ایسا کرتے ہوئے بنیادی مسئلہ اور سچائیوں سے روگردانی نہیں کی جاتی۔ عام فہم انداز میں آئی ایم ایف کو ملکی معاشی مسائل کی وجہ بتایا جاتا ہے، لیکن ہر دور کی اپوزیشن یہ موقف اختیار کرتی ہے اور اقتدار سنبھالتے ہی آئی ایم ایف ہی واحد سہارا بن جاتا ہے، اگر اقتدار اور اپوزیشن میں رہتے ہوئے اس حوالے سے سیاسی رویہ میں توازن پیدا کیا جاسکتا تو عوام کے لیے حالات کو سمجھنا اور ان کا سامنا کرنا آسان ہوجاتا۔

کیا توانائی کی قیمتوں میں اضافے کے ایک فیصلے سے تمام مسائل حل ہو جائیں گے! یہ صرف اس صورت میں ممکن ہوگا ، جب آئی ایم ایف اور جی سی سی ممالک مطلوبہ تعاون فراہم کریں، جس کی توقع توانائی کی سبسڈی واپس لینے کے بعد کی جا رہی ہے۔

یہ بینڈ ایڈ لگانے کے مترادف ہے جب شدید سرجری کی ضرورت ہو۔ S&P اور Moody'sجیسی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں کے پاس ایک تصور ہے جسے '' خود مختار حد'' کہا جاتا ہے۔ اس کا بنیادی مطلب یہ ہے کہ دن کے اختتام پر آپ کی کریڈٹ ریٹنگ صرف اس ملک کی طرح اچھی ہے جہاں آپ مقیم ہیں۔

موجودہ ماحول میں سب سے بڑی مثال یوکرین ہے۔ یوکرین اسٹیل، پولٹری اور اناج کی پیداوار جیسے شعبوں میں عالمی سطح پر سب سے مضبوط اور سب سے زیادہ منافع بخش کمپنیوں کا گھر ہے، اگر یہ کمپنیاں جرمنی یا امریکا جیسے ممالک میں واقع ہوتیں تو انھیں اعلیٰ سرمایہ کاری کا درجہ دیا جاتا۔ تاہم، ان کی درجہ بندی اس حقیقت کی وجہ سے محدود ہے کہ یوکرین کی ''جنک'' ریٹنگ کم ہے، اسی طرح کا معاملہ ترکی اور ابھرتی ہوئی دیگر معیشتوں میں بہت سی کمپنیوں کو درپیش ہے۔

بلاشبہ موجودہ حکومت نے مشکل صورت حال میں اقتدار سنبھالا ہے۔ معاشی نقطہ نظر سے ان پارٹیوں کو تحریک انصاف کی پیدا کردہ مشکلات کا بوجھ اٹھانے کی ضرورت نہیں تھی لیکن سیاسی فائدے اور فعالیت کے نقطہ نظر سے یہ اقدام ضروری سمجھا گیا ، تو اب مسائل کی ذمے داری بھی اسی خوش دلی سے قبول کرنی چاہیے ، موجودہ حکومت کو چاہیے کہ وہ غیر پیداواری اخراجات کو کم کرنے کے لیے کوئی موثر اور واضح حکمت عملی سامنے لائے۔

اس کے لیے بہت مشکل فیصلے کرنے ہوں گے، جیسے بڑے انجن والی کاریں اور SUVS، درحقیقت موجودہ توانائی کے ماحول کو دیکھتے ہوئے پاکستان میں ان گاڑیوں کے موجودہ استعمال پر بھی فوری پابندی لگنی چاہیے۔

توانائی کے استعمال کو محدود کرنے کے لیے روزانہ تجارتی مراکز کو دس بجے تک بند کر دیا جائے۔ زمین اور زراعت پر ٹیکس لگانا، قابل تجدید توانائی پر کام کرنا اور بہت کچھ۔ملک کو جن چیلنجز کا سامنا ہے ان کے بارے میں ایک سنگین غلط فہمی ہوئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ مفروضہ یہ تھا کہ ''خراب حکمرانی'' اور سابقہ حکومت کی معاشی غلطیوں کی بڑی وجہ پاکستان مشکلات میں گھرا ہوا تھا۔

مندرجہ بالا اقدامات میں سے کچھ فوری طور پر کیے جاسکتے ہیں، کچھ کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہوگی لیکن سب کے لیے سیاسی رضامندی کی ضرورت ہوگی۔ ایک سنگین مس کیلکولیٹڈ سیاسی تجربے نے پاکستان کو اقتصادی چٹان کے دہانے پر پہنچا دیا ہے، اگلے چند ہفتے یا مہینے فیصلہ کریں گے کہ آیا ہم اس سے گرنے والے ہیں یا نہیں۔

پاکستان کئی دہائیوں سے ایک سنگین خامی اور ناکام معاشی پالیسی پر عمل پیرا ہے ، جب تک ہم آئی ایم ایف اور جی سی سی کے امدادی پیکیجز ملنے پر ''جشن'' منانے کی روایت ترک نہیں کریں ، اس وقت صورتحال میں بہتری نہیں آسکتی ۔ جب ہم اپنے وسائل کے اندر رہنا شروع کر دیں اور اپنے آپ کو قرضوں کے اس دائرے سے باہر نکالنے کی کوشش کریں تب کہیں جاکر ہم معاشی طور پر غیروں کے محتاج ہونے کے بجائے اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکیںگے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں