بجٹ اکنامک سروے آدھا سچ اور پوری کہانی
دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی مگر ہم گل محمد بنے وہیں کے وہیں جمے ہوئے ہیں
اب یہ ایک سالانہ رسم سی ہے۔ اکنامک سروے اور بجٹ پیش کرتے ہوئے حکومت دُہائی دیتی ہے کہ اس نے کمال کردیا، جب کہ اپوزیشن اس کے بالکل برعکس یہ ثابت کرتی ہے کہ یہ کمال سراسر دھوکا ہے۔
اگر حکومت نئی نئی ہو تو وہ اپنے پیش رو پر سب ملبہ ڈال کر دُہائی دیتی ہے کہ جانے والوں نے ہمارے لیے جا بجا بارودی سرنگیں اور بوبی ٹریپس لگا دیے ہیں، اس لیے اگر خزانے سے فوری طور پر ریلیف کے انبار برآمد نہیں ہو رہے تو یہ ان کا قصور نہیں لیکن بہرحال حوصلہ رکھیں؛ ہم ہیں ناں ، آئے ہیں تو کچھ نہ کچھ تو کریں گے ہی! غور کریں تو یہ دونوں جانب کا آدھا آدھا سچ ہوتا ہے جب کہ پوری کہانی آپ کو خود سمجھنی پڑتی ہے۔
اس بار کا آدھا سچ نمبر ایک: اکنامک سروے یہ ثابت کرتا ہے کہ پاکستان گزشتہ دو برس میں ترقی کر رہا تھا۔ ہمارے دور میں ملکی آمدنی بڑھی، زرعی و صنعتی ترقی ہوئی، ریکارڈ ٹیکس وصولی ہوئی۔ جب کہ اب صورت حال یہ ہے کہ حکومت کی نا اہلی کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ بڑھی ہے۔ لوگوں کو اب پتہ چلے گا کہ اصل مہنگائی کیا ہے ۔ ہمارے دور میں بھی مہنگائی تھی لیکن ہم نے آئی ایم ایف کا دباؤ برداشت کیا۔
اس بار کا سچ نمبر دو؛ سابق حکومت ریکارڈ تجارتی خسارہ چھوڑ کر گئی ، زرِ مبادلہ کے ذخائر پر دباؤ اور روپے ڈالر کی شرح دگرگوں چھوڑ کر گئی۔ قرضوں کے بوجھ میں ناقابل برداشت اضافہ ہوا۔ جاتے ہوئے آئی ایم ایف سے معاہدے کے باوجود تیل اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرنے کے بجائے جامد رکھ کر خزانے پر سبسڈیز کا ناقابل برداشت بوجھ ڈال دیا۔ تیل امپورٹ کرنے کے وسائل کا یہ عالم ہے کہ بجلی پیدا کرنے والے چھ آٹھ یونٹس ایندھن نہ ہونے کی وجہ سے بند ہیں۔
ان دو طرح کے آدھے سچ کے درمیان کی کہانی عوام کو البتہ پوری معلوم ہے۔ اس لیے کہ شب و روز بھگت رہے ہیں۔ روپے کی قدر میں پچھلے سال کے دوران 26% کمی ہوئی۔ خوراک اور روزمرہ کی اشیاء کے درآمدی انحصار نے مہنگائی کے خودکار سیلاب کا سماں باندھ دیا ہے۔
دنیا بھر میں اجناس اور انرجی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور روس یوکرائن جنگ کی وجہ سے امپورٹس کی قیمتوں میں بیٹھے بٹھائے جو اضافہ ہوا ہے وہ عوام کے ذمے ہے۔ انرجی پالیسیاں پی پی پی ، مشرف دور ، ن لیگ یا پی ٹی آئی دور کی غلط تھیں یا نہیں لیکن بجلی کے جھٹکے عوام کے ذمے ہیں۔ علاج، تعلیم اور کچن کی ضروریات نے مڈل کلاس اور نچلے طبقے کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ پوری کہانی ایک فقرے میں یوں ہے کہ عوام کی پوری نہیں پڑ رہی!
اکنامک سروے کا اگر سالانہ تقابل کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ ہم اور ہماری معیشت دائرے کے سفر میں ہیں۔ کل ملکی قرضہ 2018 میں 25 ہزار ارب روپے تھا جو بڑھ کر 2022 میں 44 ہزار ارب روپے ہو گیا ہے۔
ن لیگ کی حکومت نے جی ڈی پی گروتھ چھ فیصد کے لگ بھگ چھوڑی جب کہ اس بار بھی جی ڈی پی چھ فیصد کے لگ بھگ ہے۔ صنعتی ، زرعی اور سروسز کے شعبوں کے اہداف پورے ہوئے مگر ایک شئے دونوں ادوار میں مشترک ہے، چھ فیصد کی جی ڈی پی کی شرح افزائش کے سبز قدم کے ساتھ ہی تجارتی خسارہ آسمان سے باتیں کرتا ہے، ن لیگ کا دورِ حکومت ختم ہوا تو بھی تجارتی خسارہ تاریخی تھا اور اب پی ٹی آئی کی حکومت کے اختتام پر بھی یہ تاریخی سطح پر ہے۔
سیاسی اور غیر سیاسی اشرافیہ ہے کہ استحصالی طرز یعنیRent seeking کے سانچے سے باہر نکلنے کو تیار نہیں۔ تجارتی ، صنعتی اور سروسز کا طبقہ اپنے لیے مراعات کا طلبگار ہے لیکن ٹیکس اور دستاویزی معیشت پر تیار نہیں۔ ممبران اسمبلی کی ٹیکس ڈائریکٹری اٹھا کر دیکھ لیجیے، نام بڑے اور ٹیکس کے درشن اس قدر شرمناک... مگر سب جاری و ساری ہے۔
اب حالت یہ ہے کہ بات بات پر عالم اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت کے زعم کا نعرہ لگانے والے آبادی کے اعتبار سے چھٹے سب سے بڑے ملک کے مالی استحکام کا یہ عالم ہے کہ اس کے پاس ڈیڑھ مہینے کی درآمدات کے لیے بھی زرمبادلہ نہیں ۔ جو زرِ مبادلہ ہے اس میں روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ کے ساڑھے چار ارب ڈالر اور دکھاوے کے لیے دوست ممالک کے چندارب ڈالرز ہیں۔ بیلنس آف پیمنٹ کا بحران ایک حالت مسلسل ہے۔ برآمدات کا جو مکس تیس سال پہلے تھا وہی آج ہے۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی مگر ہم گل محمد بنے وہیں کے وہیں جمے ہوئے ہیں۔
کل بھی آدھے سچ سن سن کر تالیاں بجاتے رہے اور آج بھی آدھے سچ سن سن کر تالیاں پیٹ رہے ہیں۔ پوری کہانی سامنے ہے مگر کوئی سننے کو تیار ہی نہیں۔