سندھ عوام جاننے کے حق سے محروم کیوں
سندھ میں سب کچھ اچھا ہے، سب کو اس نعرہ پر یقین نہیں کرنا چاہیے
لاہور:
پاکستان پیپلز پارٹی، ذوالفقار علی بھٹو نے 1967 میں استحصال کے خاتمہ، عام آدمی کو روٹی، کپڑا اور مکان کی فراہمی کے نعرہ پر قائم کی تھی۔ ان نعروں کی بناء پر پیپلز پارٹی ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن گئی۔
اس جماعت نے ایوب خان اور ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف تاریخی جدوجہد کی۔ پہلے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو منتخب وزیر اعظم کی حیثیت سے پھانسی پانے کا اعزاز حاصل ہوا۔
دوسری چیئرپرسن نصرت بھٹو جمہوریت کی طویل جدوجہد میں شوہر اور دو بیٹے کھو بیٹھیں۔ تیسری چیئرپرسن بے نظیر بھٹو کو دہشت گردوں نے شہید کیا ، بعد ازاں بلاول بھٹو چیئرپرسن کے عہدہ پر فائز ہوئے، ان کے والد آصف علی زرداری شریک چیئرمین بنے۔ آصف زرداری کے دورِ اقتدار میں 18ویں ترمیم ہوئی، صوبوں کو خودمختاری ملی اور پیپلز پارٹی بلاشرکت غیرے 14 سال سے سندھ میں برسر اقتدار ہے۔ پیپلز پارٹی حکومت کو ترقی پسند قوانین بنانے کا اعزاز حاصل ہوا مگر اسی حکومت کو بیشتر قوانین پر عملدرآمد نہ کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔
2005 میں پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو اور مسلم لیگ ن کے مرد آہن میاں نواز شریف لندن میں ایک میثاق جمہوریت پر متفق ہوئے۔ اس میثاق میں کہا گیا تھا کہ اگر ان کی جماعتیں اقتدار میں آگئیں تو عوام کے جاننے کے حق کو یقینی بنانے کے لیے آئین میں ترمیم کریں گی۔
ریاستی ادارے کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے ریاستی اداروں کے معاملات کو عوام کے سامنے کھولنے سے بدعنوانی کا راستہ ختم ہوجائے گا۔ یورپ میں تمام ممالک نے عوام کے جاننے کے حق کو یقینی بنانے کے لیے قوانین بنائے ہیں اور معلومات کی فراہمی میں حائل رکاوٹوں کو ختم کیا ہے۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں کو بدعنوانی کے الزامات کی بناء پر برطرف کیا گیا۔ اس بناء پر میثاق جمہوریت میں اس شق کی اہمیت بڑھ گئی تھی۔ سابق صدر آصف زرداری نے میثاق جمہوریت کے مطابق آئین میں ترامیم کے لیے راہ ہموار کی جو 2010 میں اٹھارہویں ترمیم منظور ہوئی اور عوام کے جاننے کے حق کو یقینی بنانے کے لیے اس میں ایک نئی شق (19-A) شامل کی گئی۔
پیپلز پارٹی کی جدوجہد سے متاثر بعض دانشور یہ سمجھتے تھے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت پر بدعنوانی کے الزامات غلط ہیں اور ان الزامات کے پس پشت دیگر مقاصد تھے۔ اس بناء پر ان دانشوروں کو یقین تھا کہ اس شق کے منظور ہونے کے بعد پیپلز پارٹی تیسری قانون سازی کرے گی اور ان پر عملدرآمد بھی ہوگا۔ تاریخی المیہ یہ ہے کہ 2008 سے 2022 کی تاریخ گواہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے ریاستی اداروں کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے قانون سازی میں کوئی دلچسپی نہیں لی اور اگر مجبوراً قانون بن گیا تو اس قانون پر عملدرآمد کے لیے مکینزم بنانے سے گریز کیا۔
سابق صدر پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں اطلاعات کے حصول کا پہلا قانون وفاق میں نافذ ہوا تھا۔ اس وقت کی سندھ کی حکومت نے اس قانون کو معمولی ترمیم کے ساتھ سندھ میں نافذ کیا تھا۔ اس زمانہ میں پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمن اور فوزیہ وہاب نے قومی اسمبلی میں اس قانون کو بہتر بنانے کے لیے آواز اٹھائی تھی۔ فرحت اﷲ بابر میڈیا پر آواز بلند کرتے تھے۔
2008میں پیپلز پارٹی وفاق اور صوبہ سندھ میں برسرِ اقتدار آئی ، 2013 میں میاں شہباز شریف نے پنجاب میں اطلاعات کے حصول کا ایک بہتر قانون بنایا ۔ پرویز خٹک کی قیادت میں تحریک انصاف نے خیبر پختون خوا میں حکومت قائم کی تو وہاں اور زیادہ بہتر قانون بنا ۔ ان دنوں صوبوں میں ان قوانین کے تحت انفارمیشن کمیشن قائم ہوئے جنھوں نے انقلابی فیصلے دیے۔
میاں نوازشریف کے دور میں وفاق میں ایک متبادل قانون بنانے پر پیش رفت ہوئی ۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے اس قانون کے انفارمیشن کمیشن کے اختیارکو محدود کیا ،اس انفارمیشن کمیشن نے توشہ خانہ کے تحائف کے بارے میں معلومات عام کرنے ، سینیٹ کے ملازمین کی فہرست اشاعت اور سپریم کورٹ کے ملازمین کی سینیارٹی لسٹ کو عام کرنے کے بارے میں فیصلے دیے۔
عمران خان کی حکومت نے کمیشن کے اقدامات کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا مگر عدالت عالیہ نے عوام کے اطلاعات کے حق کو یقینی بنانے کے لیے تاریخ ساز فیصلے صادر کیے۔ سندھ میں کونسل آف پاکستان نیوزپیپرز (CPNE) اور بین الاقوامی امدادی اداروں کے ساتھ مل کر آگہی کی مہم چلائی ۔ اراکین اسمبلی، صوبائی وزراء اور وزیر اعلیٰ کی توجہ اپنی چیئرپرسن کے وعدہ کی طرف مبذول کرائی۔
2018میں سندھ اسمبلی نے ایک قانون منظور کیا مگر سندھ حکومت نے طویل عرصہ تک اس قانون کے قواعد و ضوابط تیار نہیں کیے ، یوں اس قانون پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔ کسی شہری نے سندھ ہائی کورٹ میں عرضداشت داخل کی جس پر سندھ کی حکومت نے انفارمیشن کمیشن کے چیئرپرسن اور اراکین کا تقرر کیا۔ یہ ابلاغ عامہ کے اداروں کے لیے نامعلوم افراد تھے، یوں یہ کمیشن فعال نہ ہوسکا، ان اراکین کی معیاد ختم ہوئی۔ ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گزرگیا اور انفارمیشن کمیشن کی سرگرمیاں معطل رہیں۔ سول سوسائٹی کے مسلسل دباؤ پر حکومت سندھ نے انفارمیشن کمیشن کے اراکین کے ناموں کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔
جیل خانہ جات نے ایک ریٹائرڈ چیف انفارمیشن کمشنر مقرر کیا اور انفارمیشن کمیشن میں ایک جانے پہچانے صحافی کو بھی رکن مقرر کیا گیا اور ایک خاتون بھی رکن بنیں۔ اس تقرر پر وہ صحافی بھی چیخ اٹھے جو ہر صورت میں پیپلز پارٹی کے کارناموں کا دفاع کرتے نہیں تھکتے تھے۔
ایک صحافی نے جس کی ساری زندگی سندھی میڈیا میں گزری اور ہمیشہ عوام کے جاننے کے حق کے لیے آواز اٹھائی اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو شاید کوئی معقول صحافی، وکلاء، ریٹائرڈ جج ،ریٹائرڈ بیوروکریٹ ،صحافی یا استاد پورے صوبہ میں نہیں مل سکا تھا اس لیے جس کی بناء پر اعلیٰ حکام کی نظر محکمہ جیل خانہ جات کے ایک سابق اہلکار پر پڑی اور ریٹائرمنٹ کے بعد ایک اچھی تنخواہ اور مراعات والی نوکری اس کا مقدر ٹھہری۔
ان تقرریوں سے طے ہوگیا کہ سندھ میں انفارمیشن کمیشن کا وہ کردار نہیں ہوگا جو پنجاب، خیبر پختون خوا اور وفاق کے انفارمیشن کمیشن کا ہے۔ سندھ کو اس ضمن میں ایک اور امتیاز حاصل ہے کہ سندھ اسمبلی میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرپرسن شپ قائد حزب اختلاف کو نہیں دی گئی۔
پیپلز پارٹی کے ایک معزز رکن پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سربراہ ہیں۔ اسی طرح ملک میں میرٹ پر ملازمت دینے والے ادارہ سندھ پبلک سروس کمیشن طویل عرصہ سے معطل ہے۔ سندھ میں جب یہ کمیشن فعال تھا تو میرٹ کی پامالی کے بہت سے مقدمات سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں دائر ہوئے تھے۔
سندھ ہائی کورٹ نے سندھ پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین اور اراکین کو معطل کردیا تھا۔ وزیر اعلیٰ سندھ کی ذمے داری تھی کہ معزز عدالت کے اعتراضات دور کرکے غیر جانبدار ٹیکنوکریٹس کا تقرر کرتی مگر شاید سندھ حکومت کے اکابرین کو یہ صورتحال اچھی محسوس ہوئی، سندھ میں سب کچھ اچھا ہے، سب کو اس نعرہ پر یقین نہیں کرنا چاہیے۔