ماما قدیر لانگ مارچ… ایک اسرار
آزاد بلوچستان کے لیے جدوجہد کرنے والے باغیوں کو ماما قدیر نہیں، فرزانہ بلوچ کے روپ میں نئی سیاسی شناخت دی جا رہی ہے
پاکستان مخالف بلوچ باغیوں کا سیاسی چہرہ تخلیق کیا جا رہا ہے ۔آزاد بلوچستان کے لیے جدوجہد کرنے والے باغیوں کو ماما قدیر نہیں، فرزانہ بلوچ کے روپ میں نئی سیاسی شناخت دی جا رہی ہے۔ ماما قدیر کا مارچ بہت سے اسرار لیے ہوئے ہے۔ انسانی فطرت کو متاثر کرنے والے تمام اجزاء اس لانگ مارچ میں موجود ہیں۔ ایک بوڑھا، 10سال کے معصوم بچے اور نوجوان لڑکی کے ساتھ 2 ہزار کلو میٹر پیدل کوئٹہ اور کراچی سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کرتا ہے۔ ایسا پاکستانی مہاتما جو گاندھی جی کا 390 کلو میٹر تاریخی لانگ مارچ کا ریکارڈ توڑ دیتا ہے، وہ اپنے پیاروں کی تلاش میں اسلام آباد میں اقتدار کے ایوانوں پر دستک دینے آیا ہے' اپنے پیاروں کی تلاش میں اس بڑھاپے میں در، در پر دستک دے رہا ہے لیکن اسلام آباد کے بے رحم ایوانوں میں کوئی دل اس کی مظلومیت پر پسیجتا ہی نہیں، کوئی آنکھ نم ہوتی ہی نہیں۔
مظلومیت کی یہ کہانی وفاقی دارالحکومت میں بار بار دہرائی جا ری ہے لیکن نام نہاد سول سوسائٹی کے عالی دماغ بلوچستان میں صدیوں سے آباد محنت کش پنجابیوں کے قتل کو بھلائے ہوئے ہیں۔ ہم تو بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور میڈیکل کالج کے پرنسپل کا نام بھی بھول چکے ہیں جنہوں نے بلوچستان میں علم کا نور پھیلانے کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دی تھیں۔ انھیں صرف پنجابی ہونے کے جرم میں قتل کر دیا گیا۔
اس پاکستان کی بھی کیا عجب کہانی ہے جس کے وفاقی دارالحکومت، اسلام آباد میں زخموں سے تار تار اور لہولہان جسم پر مرہم رکھنے والا کوئی نہیں۔کیا محترمہ فرزانہ بلوچ سے یہ نہیں پوچھا جانا چاہیے کہ پنجابی محنت کشوں کا جرم کیا تھا جنھیں شناخت کر کے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا اور اس وحشیانہ واردات کی ذمے داری بھی قبول کی گئی۔62 سالہ ماما قدیر سے کوئی سوال کناں نہیں تھا کہ پیارے صرف بلوچستان سے غائب نہیں ہوئے یہ تو آج پنجاب کے گھر گھر کی کہانی بن چکی ہے۔ رہی ہماری روشن خیال، عالی وقار سول سوسائٹی تو یہ بلوچستان میں انسانی حقوق کے لیے تو تلملا رہی ہے لیکن 'خیبر پی کے ' پنجاب اور سندھ سے ہمیشہ کے لیے غائب کر دیے جانیو الوں اور ان کی تلاش میں تڑپنے والوں کے لیے کلمہ خیر کہنے کو تیار نہیں۔
گم شدہ اور غائب کر دیے جانے والوں کے لیے سب سے پہلے آمنہ مسعود جنجوعہ تن تنہا میدان میں نکلی تھیں لیکن آج ان کا کہیں کوئی ذکر تک نہیں' یہ وہی آمنہ مسعود جنجوعہ ہیں جنہوں نے ہڈیوں کا گودا جما دینے والی سردی میں، ظالم موسم کی شدتوں کی پروا کیے بغیر ڈی گراؤنڈ پر دھرنا دیے رکھا تھا۔
بظاہر سادہ لوح دکھائی دینے والے ماما قدیر بلوچ سیٹلائٹ فون استعمال کرتے ہیں۔ وہ ہمہ وقت دبئی اور جنیوا میں فون کرتے اور وہاں سے آتے رہتے ہیں۔ وہ فرزانہ بلوچ کے ہمراہ پائیدار ترقی کے لیے فلاحی ادارے (SDPI) میں اپنے لانگ مارچ کے دوران پیش آنے والی مشکلات اور خطرات کے بارے میں 'داستان اَلم' سنا رہے تھے جس کے مطابق بظاہر بے سروسامانی کے عالم میں ہونے والے اس لانگ مارچ کی فلم بندی کے لیے جدید ترین آلات اور ماہرین ہمہ وقت حاضر و موجود رہے 'انھوں نے ریاستی' خاص طور پر خفیہ اداروں کو مسلسل ہدف تنقید بنائے رکھا لیکن ایک بار بھی کھانے پینے کی اشیائے خور و نوش کی کمیابی یا بھوک کا ذکر تک نہ کیا جو کہ ایسے لانگ مارچ کرنے والوں کا مقدر ہوا کرتی تھی۔
ماما قدیر بلوچ نے انکشاف کیا کہ وزیر اعظم نواز شریف ان سے ملنے کے لیے بے تاب ہیں۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر آصف کرمانی، ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کے ہمراہ دعوت دینے آئے تھے لیکن میں نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اگر وزیر اعظم نواز شریف بااختیار ہیں تو آئی ایس آئی کے سربراہ کو میرے سامنے بٹھائیں۔ اب وہ دوبارہ ناشتے پر بلا رہے ہیں لیکن جانے کا کیا فائدہ وزیر اعظم تو بے اختیار اور بے بس ہیں۔ ماما قدیر کی گفتگو سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ در پیش معاملات کو سلجھانے کے بجائے الجھانے کے لیے تشریف لائے ہیں۔ وہ گم شدہ بلوچوں کی تعداد 19 ہزار بتاتے ہیں جب کہ بلوچستان حکومت کے اعداد و شمار کہیں کم ہیں ۔وہ عالمی برداری سے مداخلت کی اپیل کر رہے ہیں۔ نیٹو فوج اور یورپی یونین کو پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی راہ دکھا رہے ہیں۔
نیشنل پریس کلب کے احاطے میں اپنے ساتھیوں کے رویے پر معذرت کے بجائے ماما قدیر اصرار کر رہے تھے کہ انھیں روکا گیا 'ایک گھنٹہ باہر انتظار کرایا گیا' وہ حقائق کے برعکس کہانی سنائے جا رہے تھے ۔اسلام آباد نیشنل پریس کلب گزشتہ دہائی سے عوامی جدوجہد کے منظر نامے پر روشنی کا مینار بن کر ابھرا ہے۔ خاص طور پر پرویز مشرف کی حکومت کے خلاف وکلاء تحریک کے دوران پریس کلب کو مرکز ثقل کی حیثیت حاصل رہی تھی جو سول سوسائٹی اور سیا سی کارکنوں کے لیے اس شہر جور و جفا میں آخری پناہ گاہ بن چکا تھا۔ آج ماما قدیر اسی نیشنل پریس کلب کو ناروا الزامات لگا کر داغ دار کر رہے تھے۔
اس موقع پر یہ کالم نگار بذات خود وہاں موجود تھا، بصد احترام ماما قدیر سے عرض کی کہ اخبار نویس تو آپ کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کیے ہوئے تھے۔ آپ سے بد سلوکی کی کسے مجال تھی، ہوا کچھ اس طرح کہ ماماقدیر اور ان کے وفد کے ہمراہ دو اڑھائی سو پر جوش کارکنوں نے پریس کلب کی عمارت میں گھسنے کی کوشش کی تو دروازے بند کر کے انھیں روکا گیا کہ وزارت داخلہ کے حفاظتی گارڈز اور واک تھرو گیٹ واپس لینے کے بعد کلب میں دہشت گردی کا خطرہ پہلے سے کہیں بڑھ چکا ہے۔ ماما قدیر اور ان کے ساتھیوں کو بصد احترام بتایا گیا کہ ان کے تحفظ کے لیے ہجوم کو داخلے کی اجازت نہیں دی جا سکتی جس پر سول سوسائٹی کے فن کار فوری میدان میں آ گئے، اور نیشنل پریس کلب اور اس کی قیادت پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی ،فیس بک اور ٹیوٹر پر محاذ گرم کر دیا گیا۔
اس کالم نگار کی مداخلت سول سوسائٹی کے خواتین و حضرات کو بڑی ناگوار گزری لیکن پرانی شناسائی کی وجہ سے اُبھرنے والی دبی دبی آوازیں لمحوں میں دم توڑ گئیں لیکن اسلام آباد کے اخبار نویسوں کے رہنما بلال ڈار نے کمال کر دیا۔ انھوں نے دست بستہ ماما قدیر کی خدمت میں عرض کی ہے کہ اب تک 30 سے زائد اخبار نویس شہید ہو چکے ہیں، آپ مزاحمت کاروں سے ہماری جان بخشی کی سفارش کریں' اس پر ماما قدیر تو نہیں بولے لیکن فرزانہ صاحبہ نے بلوچ باغی گوریلوں کی حمایت کی اور کہا کہ اخبار نویسوں کو مزاحمت کاروں کے بجائے خفیہ اداروں سے خطرہ ہے اور یہ کہ مزاحمت کاروں نے کبھی اخبار نویسوں کو نشانہ نہیں بنایا' اس صورت حال میں آپ ہی بتائیں کہ ماما قدیر کے لانگ مارچ کی کہانی میں اسرار ہیں کہ نہیں۔ میں تو صرف یہ کہوں گا کہ کیا اس ملک میں کوئی پاکستان کا مقدمہ لڑنے والا بھی ہے کہ نہیں؟ وفاق، ریاست اور اس کے ادارے نشانے پر ہیں اور ذمے دار خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔