بلائنڈانڈس ڈولفن کومعدومی سے بچانے کی کوششیں

ڈولفن کی بحالی اورکنزرویشن منصوبے پرکام روک دیا گیا ہے، ذرائع


آصف محمود June 11, 2022
—فائل فوٹو

کراچی: اگرچہ حکومتی اور ڈبلیو ڈبلیو ایف کی کوششوں سے بلائنڈ انڈس ڈولفن کی آبادی میں بہتری آئی ہے لیکن بڑھتی ہوئی آبی آلودگی، بیراجوں کی تعمیراورمچھلی کے شکارکے لیے جال کے استعمال سے ناپیدی کے خطرے سے دوچارڈولفن کی آبادی کے لیے مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔

حکومتی اداروں اورڈبلیوڈبلیوایف کی کوششوں سے انڈس ڈولفن کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے تاہم آج بھی بلائنڈانڈس ڈولفن ماحولیات اور جنگلی حیات کے تحفظ کے عالمی ادارے آئی یو سی این کی ریڈ ڈیٹا بک میں شامل ہے، پنجاب میں انڈس ڈولفن بحالی کے منصوبے میں پنجاب فشریز کو بھی شامل کرلیا گیا ہے،ذرائع کے مطابق ڈولفن کی بحالی اورکنزرویشن منصوبے پرکام روک دیا گیا ہے۔

پاکستان میں بلائنڈانڈس ڈولفن کومعدومی سے بچانے اوراس کی آبادی میں اضافے کے لئے کئی دہائیوں سے کام ہورہا ہے۔ پنجاب میں بھی محکمہ تحفظ جنگلی حیات ڈبلیوڈبلیوایف کے اشتراک سے چشمہ سے تونسہ بیراج تک ڈولفن کی بقا اوربحالی پرکام کررہا ہے تاہم بلائنڈانڈس ڈولفن کے لئے آج بھی کئی خطرات موجود ہیں۔

ماہرین کے مطابق پاکستان میں بلائنڈ انڈس ڈولفن کی سب سے زیادہ آبادی دریائے سندھ میں ہے لیکن دریائے سندھ پر مختلف بیراج تعمیرہونے اوررابطہ نہروں کی وجہ سے بلائنڈ انڈس ڈولفن کی آبادی تقسیم ہوکررہ گئی ہے۔ اس سے بلائنڈ انڈس ڈولفن کی زندگی متاثرہورہی ہے۔

'سندھ میں بلائنڈ انڈس ڈولفن کی مجموعی تعداد 1850 ہے'

پنجاب وائلڈلائف کے ایک سینئرافسرحسن علی سکھیرا نے بتایا کہ انہوں نے کچھ عرصہ قبل چائنہ کی نانجنگ نارمل یونیورسٹی کے اشتراک سے بلائنڈ انڈس ڈولفن پر ریسرچ کی تھی جس کے مطابق دریائے سندھ میں بلائنڈ انڈس ڈولفن کی مجموعی تعداد 1850 ہے۔ چشمہ بیراج سے تونسہ بیراج کے ایریا میں 170، تونسہ سے گڈوتک 571،گڈوسے سکھر بیراج تک 1075 اورسکھر سے کوٹلی تک بلائنڈ انڈس ڈولفن کی تعداد کا تخمینہ 34 لگایا گیا ہے۔

ڈبلیوڈبلیوایف کی نمائندہ ڈاکٹرعظمی خان نے بتایا کہ بلائنڈ انڈس ڈولفن کا آخری سروے سال 2017 اور2018 میں کیا گیا تھا۔ اس سروے کے مطابق بلائنڈانڈس ڈولفن کی مجموعی آبادی کا تخمینہ 1987 لگایا گیا ہے۔ ڈاکٹرعظمی خان کہتی ہے ڈولفن کی آبادی میں اضافہ حوصلہ افزا ہے تاہم آج بھی اس پرجاتی کے لئے خطرات ختم نہیں ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بلائنڈ انڈس ڈولفن بارے سٹڈی کے لیے ان کی ٹیگنگ بھی کی گئی ہے جو کہ پاکستان میں پہلی بارکیا گیا ہے۔ اس کے حوصلہ افزانتائج سامنے آرہے ہیں.


'آبی آلودگی کی وجہ سے سے ڈولفن کے لئے خطرات بڑھ رہے ہیں'

پاکستان میں جنگلی حیات اورماحول کے تحفظ کے لئے کام کرنیوالے بدرمنیر کہتے ہیں آبی آلودگی کی وجہ سے سے ڈولفن کے لئے خطرات بڑھ رہے ہیں پانی میں پلاسٹک کاکچرا، زہریلا اورکیمیکل ملے اجزا شامل ہونے سے دیگرآبی حیات کے ساتھ ساتھ ڈولفن بھی متاثرہورہی ہے۔

انہوں نے کہا ڈولفن کے شکار پرمکمل پابندی ہے اوراس کا شکارکیا بھی نہیں جاتا ہے تاہم جب شکاری عام مچھلی کے شکار کے لئے جال کا استعمال کرتے ہیں تو بعض اوقات ڈولفن جال میں پھنس جاتی ہے۔ مچھلی پکڑنے والے جال نائیلون کی رسی استعمال کی جاتی ہے ،اس کے علاوہ ڈولفن چونکہ ممالیہ جانورہے اسے سانس لینے کے لئے کچھ وقت کے لئے پانی کی سطح پرآناپڑتا ہے لیکن جال میں پھنسے کی وجہ سے وہ پانی کی سطح پرنہیں آسکتی جس کی وجہ سے اس کی موت ہوجاتی ہے۔

پنجاب وائلڈلائف کے حکام نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ بلائنڈ انڈس ڈولفن غیرارادی طورپرجال میں پھنس جاتی ہیں یاپھرپانی کے ساتھ بہتی ہوئی لنک کینال میں چلی جاتی ہیں جہاں سے انہیں ریسکیوکرکےدوبارہ دریا میں چھوڑاجاتا ہے تاہم جال سے نکالنے یاپھرنہرسے واپس دریامیں لانے کے دوران ڈولفن زخمی ہوجاتی ہیں بعض اوقات ان کی موت بھی ہوجاتی ہے۔

وائلڈلائف کے ایک سینئرافسرنے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پربتایا کہ اس طرح کے حادثات میں ہرسال چار،پانچ ڈولفن ہلاک ہوجاتی ہیں جبکہ کئی واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے ہیں

انڈس ڈولفن کی بقا کولاحق خطرات کی ایک وجہ حکومت کی بدانتطامی

ماہرین کا خیال ہے کہ پنجاب میں بلائنڈ انڈس ڈولفن کی بقا کولاحق خطرات کی ایک وجہ حکومت کی بدانتطامی بھی ہے۔ بلائنڈانڈس ڈولفن پنجاب وائلڈلائف ایکٹ میں شامل ہے اس کی افزائش اورحفاظت کی ذمہ داری پنجاب وائلڈلائف کے سپردہے لیکن پنجاب وائلڈلائف کے پاس دریاکے اندرجاکرکام کرنے کے لئے تربیت یافتہ عملہ موجود ہے اورنہ ہی محکمے کے پاس کوئی کشتی ہے۔

دریاؤں میں مچھلیاں پکڑنے کا لائسنس محکمہ فشریزجاری کرتا ہے، مچھلی کاشکارکرنیوالوں کے جال میں اگرکوئی ڈولفن آجائے تو اس کیخلاف کارروائی پنجاب وائلڈلائف کی ذمہ داری ہے مگردریاکے اندرجانے کے لئے ان کے پاس کوئی کشتی نہیں ہوتی جس کی وجہ سے شکاری فرارہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ مچھلی کا کمرشل شکارکرنیوالے بعض اوقات آبی پرندوں کابھی بے دریغ شکار کرتے ہیں

مچھلی کے کمرشل شکار پر پابندی کا فیصلہ واپس

پنجاب حکومت نے ڈولفن کے تحفظ اورکنزرویشن منصوبے میں اب محکمہ ماہی پروری کوبھی شامل کرلیا ہے۔ پنجاب فشریزنے گزشتہ ماہ صوبے بھرمیں مچھلی کے کمرشل شکارپرپابندی عائد کی تھی تاہم چندروزبعد ہی پابندی کا نوٹیفکیشن واپس لے لیا گیا۔

ڈی جی فشریزڈاکٹرسکندرحیات کاکہنا ہے پہلے تمام آب گاہوں، دریاؤں ،جھیلوں اورنہروں میں مچھلی کے شکارپرپابندی لگائی گئی تھی تاہم بعد میں مخصوص علاقوں میں پابندی برقراررکھی گئی تاکہ آبی حیات کوبچایاجاسکے۔ سابق سیکرٹری جنگلات وجنگلی حیات شاہدزمان نے اس حوالے بتایا کہ انہوں نے 10 بلین ٹری منصوبے کے تحت ڈولفن کی پروٹیکشن اوربحالی کے لئے 32 کروڑ روپے رکھے تھے۔

منصوبے کے تحت ڈولفن کے آبادی والے علاقوں میں چیک پوسٹوں کا قیام اورآگاہی بورڈلگائے جانے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس منصوبے پرکام روک دیا گیا تھا اوراب ان کا تبادلہ ہوگیا ہے۔ منصوبے کی تازہ صورتحال جاننے کے لئے متعددبارایڈیشنل سیکرٹری جنگلات وجنگلی حیات طارق سلیم سے رابطہ کیا گیا تاہم انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا ہے۔

ڈولفن کاشمارآبی ممالیہ جانور

واضع رہے کہ ڈولفن کاشمارآبی ممالیہ جانوروں میں ہوتا ہے ، پاکستان میں انڈس ڈولفن کی آبادی کوشدیدخطرات لاحق ہیں ۔ ماحولیات اور جنگلی حیات کے تحفظ کے عالمی ادارے آئی یو سی این نے انڈس ڈولفن کو نایاب نسلوں کی جنگلی حیات کی اپنے ریڈ ڈیٹا بک میں دو ہزار دو میں شامل کیا تھا۔

جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈس ڈولفن کی نایاب نسل کی افزائش کے لیے حکومتی سطح پر بے دلی سے کام کیا گیا ہے جس کی وجہ سے انڈس ڈولفن کی شرح پیدائش تیس سال میں آٹھ فیصد سے زیادہ نہیں بڑھ سکی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔