لو پھر بسنت آئی‘ مگر کیسے
پتنگ اب آسمان پر اڑتی نظر نہیں آ رہی‘ اب وہ احتساب کے خلاف مزاحمت کا استعارہ بن کر پورے کھیل کی فضا پر چھائی ہوئی ہے
اجو کا تھیٹر کا دم غنیمت ہے۔ وہ بھولی باتوں کو یاد دلاتا رہتا ہے۔ اور کچھ نہیں تو اس نے یہ سندیسہ سنایا کہ لو پھر بسنت آئی' کہاں آئی' بیشک آیا کرتی تھی' اب بسنت نہیں آتی' بس اس کی یاد آتی ہے' وہ جو ناصرؔ کاظمی نے کہا تھا کہ؟
لے کے پھر نئی چبھن بسنت آگئی
تو بسنت کی چبھن تو آئی ہے' خود بسنت نہیں آئی۔ اجوکا تھیٹر نے جو کھیل پیش کیا اس کا موضوع بھی یہی چبھن تھا۔ اس کھیل کا مرکزی کردار سمجھئے کہ استاد موجو ہے جو اس چبھن کو سنگھوائے بیٹھا ہے۔ وہ اس گھرانے کی یادگار ہے جس کا گزرے زمانے سے یہ پیشہ چلا آ رہا تھا کہ رنگ برنگی پتنگیں بنانا اور اس واسطے سے بچوں بڑوں کے لیے خوشی کا سامان فراہم کرنا۔ مگر اب کیسی پتنگ کہاں کی پتنگ۔ وہ زمانہ ہوا ہوا۔ جب بسنت رت کی آمد پر سمان یہ ہوتا تھا کہ زمین پر کھیتوں میں سرسوں پھولی ہوئی ہے اور آسمان پر رنگ برنگی پتنگیں ڈول رہی ہیں۔ اب کھیتوں میں خالی سرسوں رہ گئی ہے۔ بستی کے بیچ سے بسنتی بانا غائب' آسمان کی بلندیوں سے پتنگ غائب' تو ڈرامے میں نقشہ ہے کہ بسنت رنگ غائب' ڈنڈا بردار محتسب نظر آ رہے ہیں جو سونگھتے پھر رہے ہیں کہ لڑکوں لڑکیوں کو کیا پڑھایا جا رہا ہے اور کیا پڑھانا چاہیے۔ استادوں کو طلبا طالبات کو ڈرا رہے ہیں' دھمکا رہے ہیں۔ کیسی بسنت کہاں کی پتنگ۔ مطلب یہ کہ ان دنوں بنیاد پرستی کے طفیل جو ہمارے معاشرے میں نقشہ ابھرا ہے کہ وہ سب کچھ جن سے کلچر عبارت ہے اور جو مہذب زندگی کی ضامن ہوتی ہیں غائب' محتسب کا حکم چلتا ہے کہ کیا پڑھاؤ' کیا مت پڑھاؤ۔ ہماری شاعری میں محتسب ' واعظ' ناصح کے جو کردار نظر آتے تھے وہ لگتا ہے کہ پھر نمودار ہو گئے ہیں اور معاشرہ پیچھے کی طرف کھسکتا چلا جا رہا ہے۔
پتنگ اب آسمان پر اڑتی نظر نہیں آ رہی' اب وہ احتساب کے خلاف مزاحمت کا استعارہ بن کر پورے کھیل کی فضا پر چھائی ہوئی ہے۔ اور خود بسنت پر جو اسے ہندو تیوہار تصور کر کے پابندی لگائی گئی ہے وہ اب بسنت میلہ کی حد سے نکل کر معتوب جمالیاتی اقدار کا اور اس دھرتی کے کلچر کا استعارہ بن گیا ہے۔
کہنے کو یہ مقصدی ڈرامہ تھا۔ اور لکھنے والے ہیں شاہد ندیم۔ لیکن یہ تو بعد میں ہمیں احساس ہوتا ہے کہ کس مقصد کو سامنے رکھ کر ڈرامہ لکھا گیا ہے۔ مقصدی ادب کے جواز اور عدم جواز پر بہت بحثیں ہوتی رہی ہیں۔ مگر مقصدی شاعری یا مقصدی افسانہ یا مقصدی ڈرامہ بیچ میں اپنے مقصدی ہونے کی چغلی کھا جائے تو وہ آرٹ اور ادب کے معیار کے اعتبار سے بھی ناکام قرار پائے گا اور اس سے وہ مقصد بھی پورا نہیں ہو گا جس کے لیے لکھا گیا ہے۔ اس ڈرامے میں شاہد ندیم کے قلم نے کمال یہ دکھایا تھا کہ تبلیغی یا پروپیگنڈائی رنگ سرے سے تھا ہی نہیں۔ سب کچھ اتنے لطیف انداز میں پیش کیا جا رہا تھا کہ ہر مکالمہ اور کردار کا ہر طور اور ہر طرز ادا کی داد سامعین کی طرف سے قہقہہ کی صورت میں مل رہی تھی۔ بات وہ ہوتی ہے کہ ہنسی دل لگی کا تاثر دے اور آخر میں احساس ہو کہ اصل میں کیا بات کہنے کی کوشش کی گئی تھی۔ گویا سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ یعنی فنی اعتبار سے پیش کش کا رنگ برقرار رہے اور ہلکی پھلکی باتوں کے پردے میں اصلی بات سننے والے کے دل میں اتر جائے۔ اس لحاظ سے ڈرامہ کامیاب۔ اس کی پیش کش کامیاب۔
سیدھی سیدھی باتیں بروشر میں کہی گئی ہیں۔ یہاں سے ہمیں پتہ چلا کہ اجو کا کا مطلب کیا ہے۔ مطلب یوں سمجھایا گیا ہے کہ اجو کا یعنی آج کی بات۔ میرؔ کی زبان میں مطلب یوں سمجھو کہ؎
بات وہ ہے جو ہووے اب کی بات
یہاں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ آج جو کچھ ہو رہا ہے ہم اس سے بحث کرتے ہیں۔ مگر اس طرح کہ تعریفی رنگ بھی چلتا رہے اور اعلیٰ فنی معیار کو بھی بنانے کی کوشش کی جائے اور ان سوالات کو' ان مسائل کو زیر بحث لایا جائے جن سے آج ہم دو چار ہیں۔ کہا گیا ہے کہ پابندی لگانے والے کون لوگ ہیں۔ حسین چیزوں سے انھیں بیر ہے۔ خوشی کو وہ حرام جانتے ہیں۔ جس مشغلہ میں انھیں لوگوں کی خوشی کا پہلو نظر آئے اس پر پابندی عائد کر دیتے ہیں۔ مثلاً چاہیے تو یہ تھا کہ کیمیکل ڈور پر پابندی لگاتے۔ مگر قوت برداشت سے عاری منصفوں کو اسی میں سہولت نظر آئی کہ بسنت پر پابندی لگا دو۔
گویا خالی پتنگ کا بو کاٹا نہیں ہوا۔ سرے سے بسنت ہی کا بو کاٹا ہو گیا۔ اصل میں کب سے مولوی ملا حضرات یہ استدلال کر رہے تھے کہ یہ تو ہندوانہ تیوہار ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ یہ اسلام کے خلاف ہے۔ اور اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسے ممنوع قرار دیا جائے۔ سو ابتدا توممانعت کے کاروبار کی اس طرح ہوئی۔ باقی بعد میں کلی پھندنے نکلتے رہے۔ اور آخر کار مکمل ممانعت۔
اب ہم سوچ رہے ہیں کہ جن بزرگو ں کے واسطے سے بسنت نے مسلمانوں میں رواج پایا کیا وہ کوئی غیر اسلامی کام کے متحمل ہو سکتے تھے۔ پہلی بسنت تو حضرت نظام الدین اولیاء کے ایما پر ان کی خانقاہ میں منائی گئی تھی۔ بھانجے کے انتقال سے انھوں نے اتنا اثر لیا تھا کہ کتنے مہینوں سے لبوں پر مسکراہٹ نہیں آئی تھی۔ بسنت کی صبح کو انھوں نے امیر خسروؔ کو اس عالم میں دیکھا کہ پگڑی میں سرسوں کی پھولوں بھری شاخ اڑسی ہوئی ہے اور زبان پر یہ شعر ہے؎
اشک ریز آمدہ ابر بہار
ساقیاگل بریز' بادہ بیار
بہار کی گھٹا امنڈی ہوئی ہے۔ پھوار پڑ رہی ہے۔ ساقی تو کہاں ہے۔ پھول نچھاور کر اور ساغر مے ادھر لا
حضرت شیخ اس عالم میں مرید کو دیکھ کر مسکرائے۔ پتہ چلا کہ یہ بسنت رت کی کارستانی ہے تو انھوں نے مریدوں سے کہا کہ چلو یہیں بسنت کا اہتمام کرو۔ وہ اہتمام ایسا ہوا کہ پھر تو برس کے برس بسنت منائی جانے لگی۔ صرف اس خانقاہ میں نہیں بلکہ شہر میں پھیلی مختلف درگاہوں میں۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ ایسا پھیلا کہ قدم شریف کے مبارک مقام سے اس کا آغاز ہوتا۔ پھر اگلے دن بختیار کاکی ؒ کی درگاہ میں اس سے اگلے دن حضرت نظام الدین کی درگاہ میں۔ پھر سرمد شہید کے مزار پر۔ بس درگاہوں' مزاروں' اور خانقاہوں کو گنتے جاؤ اور بسنتوں کی رنگا رنگی کا شمار کرتے جاؤ۔ ہندو اپنی بسنت پر بھجن گاتے تھے۔ یہاں قوالیوں کا سماں بندھتا تھا۔
اور ہم سوچ رہے ہیں کہ آخر دلی شہر مسلمان سلاطین کا دارالسلطنت تھا۔ کیسا کیسا عالم دین کس کس دیار سے آیا ہوا یہاں بیٹھا تھا۔ اور خود دلی کے علما اور کیسا کیسا جید عالم جیسے حضرت شاہ ولی اللہ ۔ مگر کبھی کسی طرف سے بسنت رنگ میں مداخلت ہوئی؟ بس یوں تھا کہ راسخ العقیدہ علماء اپنی راہ، صوفیا اپنی راہ۔ آخری دور مغلیہ میں یہ سلسلہ اپنے عروج پر تھا۔ اور ظاہر ہے کہ جب دارالسلطنت میں اتنی شان سے بسنت منائی جا رہی تھی تو قریب و دور کے مسلمانوں نے بھی اس سے اثر قبول کیا ہو گا۔ بالخصوص چشتی سلسلہ کے صوفیا نے۔
مطلب یہ کہ بسنت کی خوشیوں پر پابندی کا شگوفہ تو آج کا شگوفہ ہے۔ اور لاہور میں یہ شگوفہ پھوٹا ہے۔