بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

تدریس کے طویل تجربے کے بعد ایک استاد اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے طلبا کے تعلیمی مسائل اور کمزوریوں سے واقف ہوسکے


نجمہ عالم March 06, 2014

تدریس کے طویل تجربے کے بعد ایک استاد اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے طلبا کے تعلیمی مسائل اور کمزوریوں سے واقف ہوسکے۔ کمرہ جماعت میں طلبا کے چہروں سے عیاں ہوجاتا ہے کہ وہ استاد کی بات سمجھ رہے ہیں یا نہیں اس کی ایک وجہ تو طلبا کا ذہنی سطح پر یکساں نہ ہونا ہے جوکہ ایک قدرتی امر ہے۔ ہر شخص کی ذہانت کا ایک ہی پیمانہ مقرر نہیں کیا جاسکتا کوئی صرف ایک بار سمجھانے اور بتانے پر بات سمجھ جاتا ہے کوئی دو یا تین بار،مگر کچھ بچے ایسے ہوتے ہیں کہ دس بار سمجھانے پر بھی ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔ بعض اساتذہ ایسے بچوں سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں اور ان کو سخت الفاظ میں تنبیہہ کرتے ہوئے آیندہ نہ سمجھانے کی دھمکی بھی دیتے ہیں جو اصول تدریس کے سراسر منافی ہے۔ ایک اچھا استاد ایسے بچوں کو دوسروں سے مختلف اور قدرتی طور پر کم ذہانت والے بچوں (طلبا) میں شمار کرکے ان کو تدریس کے آسان اور دوسروں سے (یعنی اس کی ذہنی سطح پر اترکر) مختلف طریقوں سے نہ صرف ان کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہے بلکہ ان کو برا بھلا کہنے کی بجائے ان کے مسائل کو مزید توجہ اور پیار سے سننے کے ساتھ ساتھ ان کی حوصلہ افزائی کے ذریعے اپنا مقصد حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

لہٰذا میں اپنے تدریسی تجربے ہی نہیں بلکہ اپنے نفسیاتی مطالعے کی بنا پر تمام اساتذہ کو بھی یہی مشورہ دوں گی کہ وہ غبی طلبا کی حوصلہ افزائی کے علاوہ ایسے طلبا کو عالمی سطح پر ایسے لوگوں کی مثال دے کر جو اچھے طالب علم نہ ہونے کے باوجود اپنی دوسری صلاحیتوں کی بنا پر زندگی کے کسی بھی شعبے میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں نہ صرف کامیاب رہے بلکہ معاشرے کے بہترین افراد میں بھی شامل ہوئے۔ ان کی چھپی ہوئی دوسری صلاحیتوں کو منظرعام پر لانے کا موقع فراہم کریں۔

ہمارے اپنے لوگوں میں ایسے کتنے ہی افراد ملیں گے جو تعلیمی لحاظ سے اچھے طلبہ میں شمار نہ ہونے کے باوجود اعلیٰ مقام پر پہنچے۔ مثلاً سعادت حسن منٹو جو تین بار فیل ہوکر تھرڈ ڈویژن میں بمشکل میٹرک کرپائے لیکن نصابی تعلیم کے بجائے آزادانہ مطالعے کے باعث نہ صرف بہترین افسانہ نگار، نقاد، ڈرامہ نویس کے علاوہ بہترین مترجم بھی ثابت ہوئے۔ پھر سرسید کے حالات پر نگاہ ڈالیے تعلیمی اسناد کے لحاظ سے وہ کوئی اعلیٰ ڈگری یافتہ نہ تھے مگر انھوں نے قوم کی تقدیر بدل ڈالی اور بھی بے شمار مثالیں ہیں۔ مگر میرا موضوع یہ نہیں بلکہ صرف اس مضمون میں یہ بتانا میرا مقصد ہے کہ طلبہ کو پڑھنا کس طرح چاہیے تاکہ وہ مقررہ وقت میں اپنا نصاب (Syllabus) نہ صرف مکمل کرلیں بلکہ اس میں اتنی مہارت بھی حاصل کرلیں کہ امتحانات کے اچھے نتائج لانے کے ساتھ اچھے افراد بھی بن سکیں۔

بطور استاد بھی آپ کو ایک تجربے میں شامل کرتی چلوں، جب میں نے تدریس کا آغاز کیا تو کیمبرج سسٹم اسکول سے ابتدا کی کیونکہ اس سے قبل میرا تدریس کا کوئی تجربہ نہ تھا مگر مجھے پھر بھی نویں جماعت کی اردو دی گئی او لیول کے نصاب میں اردو ادب کی بجائے صرف عمومی اردو کے دو پرچے ہوتے ہیں جس کو اساتذہ گزشتہ پانچ سال کے پرچے حل کرواکر طلبہ کو مشق کروادیتے ہیں اور طلبہ اچھے نمبروں (گریڈ) سے پاس بھی ہوجاتے ہیں۔ مگر میں نے تدریس کے آغاز ہی میں یہ محسوس کرلیا کہ اس طریقے سے طلبہ اچھا گریڈ تو لے آتے ہیں مگر ان میں ادبی ذوق معلومات اور مطالعے کا فقدان رہتا ہے اور وہ او لیول اے گریڈ میں کرنے کے باوجود ایک پیراگراف بھی کسی موضوع پر ازخود لکھنے کے اہل نہیں ہوپاتے۔ لہٰذا اپنے نصاب کے مطابق کام کروانے کے ساتھ ساتھ ان میں اردو زبان و ادب کا ذوق پیدا کرنے کے لیے نصاب سے ہٹ کر مختلف شعرا کے دس اشعار یاد کرنے یا کلاس میں بیت بازی کرانے کے لیے اشعار یاد کرنے کے علاوہ ادبا کی کتابوں کے نام دے کر ان کو ایک ہفتے کے دوران پڑھ کر کلاس میں ان پر گفتگو اور تبصرہ کرانے کا آغاز کیا اور ہر مہینے میں دو دن (پندرہ پندرہ دن بعد) ایسی سرگرمیوں کے لیے مقرر کردیے۔ پہلے مہینے میں طلبا نے ذرا کم دلچسپی لی مگر آگے چل کر وہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے جلدازجلد ان سرگرمیوں کو مکمل کرنے لگے۔ یہی نہیں میں نے اپنے طلبہ کو مشاہیر آزادی اور قیام پاکستان کے اہم کرداروں سے واقفیت کے لیے بھی گھر پر کرنے کے لیے تحقیقاتی کام دیے اور اس کے لیے میں نے ان کے گروپ بناکر قائد اعظم اکیڈمی کی لائبریری (جو مزار قائد کے سامنے واقع ہے) بھیجا اس وقت اس اکیڈمی کے ڈائریکٹر میرے یونیورسٹی کے استاد شریف المجاہد صاحب تھے میں نے بچوں کو ایک خط ان کے نام لکھ کر دے دیا کہ سر! یہ میرے طلبہ ہیں اور اپنا Assignment کرنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے نہ صرف ذاتی دلچسپی ان کے کام میں لی بلکہ انھیں ان کے متعلقہ موضوع پر خود کتابیں نکال کر دیں یہی نہیں بلکہ تمام طلبہ کو چائے وغیرہ بھی پیش کی۔ طلبا نے آکر نہ صرف ان کی تعریف کی بلکہ ان کے تعاون کا بھی ذکر کیا ۔

یہی نہیں میں نے او لیول کے طلبا کو بھی ڈراما، عہد بہ عہد، اردو ناول کا ارتقا، سرسید کے رفقا، اردو تنقید وغیرہ پر (Long Term Assignment) طویل المعیاد کام بھی دیے۔ واضح ہو کہ یہ سب کام ان کے نصاب میں شامل نہ تھا طلبا نے اس میں اس قدر دلچسپی لی کہ جگہ جگہ سے کتابیں اپنے موضوع پر جمع کیں اور ان کے حوالے پیش کیے اہم اور دلچسپ بات یہ کہ والدین نے بھی میری اس کاوش کو بے حد سراہاکہ آپ نے بہت اچھا کیا اس طرح یہ کچھ تو ادب اور تاریخ سے واقف ہوں گے محض رٹ کر امتحان پاس کرنے کے بجائے ان کی قابلیت اور مطالعے میں اضافہ بھی ہوگا۔

یہ تمام صورتحال میری تدریس کے ابتدائی ایام کی ہے آج جب میرا تدریسی تجربہ تقریباً دو دہائیوں پر محیط ہے صورتحال بے حد مختلف ہوچکی ہے آج طلبہ بڑے زور و شور سے اردو بطور مضمون لے تو لیتے ہیں مگر وہ اردو اخبارات تک کا بار بار ہدایت کے باوجود مطالعہ کرنے کو تیار نہیں حد یہ کہ اردو ٹی وی چینلز تک نہیں دیکھتے (حالانکہ اس سے ان کی اردو اچھی ہونے کے بجائے اور خراب ہی ہوگی) کے روادار نہیں۔ اگر نصاب سے ہٹ کر کوئی تحقیقاتی کام دیا جائے تو اول تو خود طلبہ کرنے میں کاہلی کا مظاہرہ کریں گے اور مقررہ وقت سے ہفتہ دو ہفتہ بعد کام کر بھی لیں گے تو اس کا معیار ایسا کہ سرپیٹ لیجیے۔ اس صورتحال پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے طلبہ کو ان کے کام کی خامیاں بتا کر کچھ نکات دے کر دوبارہ لکھوایا جاسکتا ہے مگر ان کے والدین کی یہ شکایت کیسے دور کی جائے جو یہ کہتے ہوئے آتے ہیں کہ آپ کا کام (Syllabus) نصاب مکمل کرانا ہے ناکہ اس کے علاوہ کام دینا۔ اب یہ ہماری جان کھاتے ہیں کہ ہمیں کسی لائبریری لے چلیں۔

ہمیں اس موضوع سے متعلق کتابیں لاکر دیجیے۔ مطلب یہ کہ اساتذہ ایسا کچھ نہ کریں کہ طلبہ کو کوئی اضافی کام کرنا پڑے۔ ہم آج سے دس سال پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں اور آج کی حالت زار پر نظر ڈالتے ہیں تو سوائے کف افسوس ملنے کے کچھ اور سمجھ ہی نہیں آتا۔ سوچتے ہیں کہ جو قوم بلکہ وہ لوگ جنھوں نے خود شاید ساری تعلیم اردو نظام تعلیم کے تحت حاصل کی ہو وہ بھی آج اپنی قومی زبان سے بیزار نظر آتے ہیں اور اپنے بچوں کی اچھی انگریزی اور خراب اردو پر فخر کرتے ہیں۔ وہ بھلا اپنی روایات، اپنے وطن سے پیار کیسے کرسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ سارا معاشرہ، ساری روایات، تمام اقدار تتر بتر ہوکر رہ گئی ہیں۔ اور ہمارے ذرایع ابلاغ میں تحریری و زبانی ایسی ایسی غلطیاں رونما ہو رہی ہیں کہ سر پیٹنے کو دل چاہتا ہے صرف ایک مثال پیش کرکے (الیکٹرونک میڈیا کی) باقی کسی دوسرے کالم میں تحریری اغلاط کا ذکر کروں گی۔ وہ مثال یہ ہے کہ ایک خبر پڑھنے والے نے اطلاع دی کہ ایک گھر کے چھ افراد کا قتل ہوگیا پولیس ''تشویش'' کر رہی ہے ،توفیق (توقع) ہے قتل کی وجوہات جلد سامنے آجائیں گی۔ سبحان اللہ۔ اور ہم سوچ رہے ہیں کہ :

بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں