ہم جس موڑ پر کھڑے ہیں
یہ جو ہندسوں کی ترتیب سے ہماری آمدنی اور ہمارے اخراجات ہیں، اس میں چھپی ہے تمام تفصیل اور یہ اسی کا تسلسل ہے
کراچی:
ہم جس موڑ پرکھڑے ہیں اس تک ہم اپنے ہی قدموں سے پہنچے، یہ ہماری تاریخ کا کٹھن ترین دور ہے ۔ تین بیٹے ہیں جو 1947میں آزادی لیتے ہیں۔ دو نے کہا کہ ہم الگ ہونا چا ہتے ہیں مگر رہیں گے ساتھ، یہ ہے تمام کہانی 1940 کے قراردادِ پاکستان کی۔
23 مارچ 1971کو ان دو بھائیوں میں بھی اختلافات شروع ہوئے اور اختتام پذیر ہوئے 16دسمبر 1971 سقوط ڈھاکا پر اور پھر دونوں اجنبی ٹھہرے۔ 1947 میں جب دو بھائی جدا ہوئے تو اس وقت معاشی اعتبار سے ہم بہتر تھے ، بہ نسبت دوسروں کے۔ مگر آج پچاس سال بعد باقی بھائی معاشی اعتبار سے ہم سے بہتر اور ہم بد سے بدتر۔ آج ہم اس موڑ پر ہیں کہ آگے بہتری کی امیدکم نظر آرہی ہے ، جس کی وجہ ہماری اشرافیہ ہے جو میرٹ پر نہیں بلکہ چور دروازے سے داخل ہوئی ہے۔
بجٹ آئے یا نہ آئے، یہاں تو بجٹ سے پہلے ہی بجٹ آیا ہوا ہے ، یہ جو ہندسوں کی ترتیب سے ہماری آمدنی اور ہمارے اخراجات ہیں، اس میں چھپی ہے تمام تفصیل اور یہ اسی کا تسلسل ہے۔ اب تو پٹرول اور بجلی کی قیمتیں بڑھانے کے لیے کسی بجٹ یا پھر منی بجٹ کی بھی ضرورت نہیں۔ نیپرا ہو یا اوگرا دونوں ہی یہ کام خود کرسکتے ہیں بس جو کام وہ خود نہیں کر سکتے وہ یہ ہے کہ وہ اپنے غیر ترقیاتی اخراجات کم نہیں کر سکتے۔ ایسا ہی کچھ ہوا تھا سوویت یونین میں بھی، جب گوربا چوف وہاں ابھرا تھا مگر بہت دیر ہو چکی تھی۔ منیر نیازی کے ان اشعار کی طرح:
ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں، ہر کام کرنے میں
ضروری بات کہنی ہو ،کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو ، اسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں
یہاں اب کوئی گوربا چوف بھی نہیں جو perestroika (تعمیر ِ نو) کی بات کرے ، جو گلاسناسٹ openess) (کی بات کرے۔ اس وقت جو ہم نے راستہ چنا ہے وہ بظاہر ٹھیک تو ہے مگر اشرافیہ تو وہ ہی ہے۔ کارل مارکس کہتے تھے کہ ریاست بنیادی طور پر ''شرفاء یعنی امراء'' کے مفادات کی محافظ ہوتی ہے۔ کارل مارکس کو اپنے عہد اور حالات کی روشنی میں ، بنی نوع انسان کی تاریخ دراصل طبقاتی جنگ کا تسلسل نظر آئی۔
اب شیر کو کون کہے کہ جناب شیر صاحب آپ کا منہ بدبودار ہے۔ مشرف صاحب کی حکومت سے پہلے جو ہم کماتے تھے وہ خرچہ بھی کرتے تھے ،آئی ایم ایف کے پاس ہمیں جانا تو ہوتا تھا اور کچھ امریکی ڈالر بھی امداد کی مد میں ملتے تھے جو ہ مشرف کے زمانے جب کہ ضیا الحق کے دورحکومت میں تو بے تحاشہ ملے، کیونکہ ہم یہاں امریکا کی جنگ لڑ رہے تھے۔ چلو جو بھی تھا، وہ ڈالر ہم نے عیاشی پر بڑی بے دردی سے لٹائے۔
کسی دور میں ہم ہندوستان پر ہنستے تھے جب وہاں ان کی بنائی ہوئی گاڑی ماروتی ان کی سڑکوں پر چلتی تھی جب کہ پاکستان میں مرسیڈیز، لینڈ کروزر اور ٹویوٹا وغیرہ چلتی تھیں۔ان کے امراء برلا اور ٹاٹا ہوتے تھے جن کو مارکس کی زبان میں نیشنل بورژوازی کہا جاتا ہے۔ جس کی تشریح یہ ہے کہ کمانا وہ بھی چاہتا ہے مگر اس کے مفادات ملک سے فطری طور پر جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کا مزدور ہنرمند ہو، اس کے برعکس ہمارے جو امراء تھے، وہ تھے وڈیرے ، خان، چوہدری، قبائلی سردار، پیر اور گدی نشین ،دینی مدارس کے کرتا دھرتا اور ریاست کے اعلیٰ افسران ،یعنی نوکرشاہی جن کو ملکی مفادات سے کوئی غرض نہیں۔ یہ لوگ یہاں سے لوٹے ہوئے پیسے باہر لے جاتے ہیں۔
اس وقت ہندوستان کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر600 ارب ڈالر ہیں اور ہمارے صرف آٹھ ارب ڈالر ہی باقی بچے ہیں اور ان ذخائرکے بچنے میں بھی چین اور سعودی عرب کی مہربانیاں ہیں۔ ہمارے ذخائر بالکل خالی کیوں تھے کہ ہم روپیہ تو چھاپ سکتے ہیں لیکن ڈالر نہیں چھاپ سکتے۔ روپے کا چھاپنا بھی جب ملک کی شرح نمو نہ بڑھ رہی ہو ، تو افراطِ زر کو دعوت دینے کے برابر ہے۔ روپیہ چھاپ کر خود جیسے روپے میں ہی قرض ادا کر رہے ہیں اور جب یہ بہت سارا روپیہ تھوڑی سی چیزوں کے پیچھے بھاگے گا تو افراطِ زر تو بڑھے گا نا اور یہ افراطِ زر ٹیکس لگانے کے برابر ہے۔
روپیہ کمانے کے لیے ہم چیزوں پر ٹیکس لگاتے گئے ، جن کو ان ڈائریکٹ ٹیکس کہا جاتا ہے۔ ڈالر جو ہماری ایکسپورٹ یا پھر تارکین وطن نے بھیجا وہ ہم نے اپنی آسائشوں کی نذر کر دیا۔ ان سے ہم نے تمام امپورٹڈ چیزوں کی خریداری جیسا کہ نے مہنگی گاڑیاں منگوائیں، کتے، بلیاں، گھوڑے، طوطے وغیرہ بھی امپورٹ کیے اور ان جانوروں کی خوراک اور شیمپو وغیرہ امپورٹ کیے جب کہ مقامی دودھیل جانوروں گائے، بھینس، بھیڑ اور بکری کو صرف گوشت سمجھا اور کھانے میں لگ گئے حتیٰ کے برف پوش علاقوں سے ہزاروں میل پرواز کرکے پاکستان میں پناہ لینے والے نایاب اور حسین پرندے جن میں مرغابی اور مگ قابل ذکرہیں، یہاں کے بے رحم لوگوں کی بندوق کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ جانوروں اور پرندوں کے ساتھ سفاکی اور بے رحمی کی ایک طویل فہرست ہے۔
یہی نہیں،ہمارے گیس کے ذخائر ختم ہوگئے تھے ، مقامی گیس کو بجلی کی پیداوار میں بے دریغ استعمال کیا گیا۔ یعنی ایک انرجی پیدا کرنے کے لیے دوسری انرجی ضایع کردی گئی۔ دریائوں میں پانی کی سطح کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے جس کا براہِ راست اثر خوراک کی پیدا وار پر ہو رہا ہے۔ خان صاحب کی حکومت سے پہلے ایک ارب ڈالر اشیائے خورونوش کی امپورٹ ہوتی تھی جو اب بڑھ کر سات ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔
اب لگ بھگ 6000ارب روپے ہمیں FBRکما کردیتا ہے ٹیکسز کی مد میں ، لگ بھگ 1200ارب روپے ہمیں پٹرول levyکی مد میں ملتے ہیں کل 7000 ارب ہم کو ملتے ہیں جس میں تین یا ساڑھے تین ہزار ارب روپیہ قرضوں کی قسطوں کی مد میں ادا کیے جاتے ہیں، پندرہ سو سے دو ہزار ارب دفاع اور ریٹائرڈ لوگوں کی مد میں ادا کیے جاتے ہیں اور تین ہزار ارب یا کچھ زیادہ صوبوں کو دیے جاتے ہیں اور پھر قصہ ختم۔ جو بجٹ صوبوں کو دیا جاتا ہے وہ دراصل لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے ناکافی ہے ، اب یہ صوبوں پر بھی منحصر ہے کہ وہ ان کا صحیح استعمال کرتے بھی ہیں کہ نہیں۔
کیسے اس مقام تک ہم آ پہنچے، ایسا کیوں ہوا ؟ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ شروع دن سے ہی ہمارے ملک میں سیاسی قوتیں مضبوط نہ ہو سکیں جیسا کہ ہندوستان میں تھیں۔ ہم فلاحی ریاست سے نظریاتی ریاست بن گئے۔ فرانس کے بارے جو کہا گیا ، اس کا بھی نقصان ہوا۔اس بحران سے نکلنے کے لیے ہمیں سات یا آٹھ فیصد شرح نمو درکار ہے جس سے ٹیکسزکا فطری حجم بڑھے گا۔ امراء کو جو چھوٹ ٹیکسز کی مد میں دی گئی ہے وہ اربوں ڈالر میں ہے ، اسے ختم کرنا ہوگا۔
غیر ترقیاتی اخراجات کم کرنے ہوںگے اور ان تمام باتوں سے بڑھ کر یہ کہ ہمیں سیا سی استحکام لانا ہوگا جو ہماری نظریاتی سوچ تھی اسے فلاحی ریاست کی سوچ میں تبدیل کر نا ہوگا۔ ریاست اور مذہب کو ہم الگ نہ کرسکے اور یہیں سے پیدا ہوا سیاسی عدم استحکام۔ ہم جس خطے میں رہتے ہیں ، وہاں ہمارا کوئی دوست نہیں، ایک سری لنکا تھا وہ بھی بحرانوں کا شکار ہوچکا۔ افغانستان کے مستقبل کا کچھ پتا نہیں۔
بقول فیض احمد فیض ۔
ہم سادہ ہی ایسے تھے کہ یونہی پذیرائی
جس بار خزاں آئی سمجھے کہ بہار آئی
اب ہماری فوج کو سیاست سے دور رہنا چا ہیے، ہماری عدالتوں کو ڈیم بنانے پر توجہ یا سوموٹو پر انحصار کم کرنا ہوگا۔ سب کو پارلیمان کے تابع ہونا ہوگا اور پارلیمان کو آئین کے تابع رہنا ہوگا۔